بکھرے خوابوں کی تعبیر
قسط نمبر:3
اردو کہانیاں


اب ہیرو جیسی پرسنالٹی اور اندر سے ولن جیسے بندے کو دیکھ کر اپنے جذباتی پن پہ غصہ آ رہا تھا کہ وہ ایسے بے وقت کیوں نکل پڑی تھی جیمز بانڈ بن کر۔
" معاف کیجئے گا ، ہمیں تو چوہدری شجاعت صاحب سے ملنا تھا۔ لگتا ہے وہ گھر پہ نہیں۔ ہم پھر بھی آ جائیں گے۔" فرحین نے سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوئے روانی سے کہا۔ صبا اور ثمین کے ہاتھ ! بچوں کی طرح پکڑے اور دروازے کی سمت بڑھی۔
" لیکن دل دھک سے رہ گیا۔۔۔ بالکل پنجابی فلموں والی سچویشن۔۔۔۔ ایک پیچھے اور۔۔۔۔ وہ دو عدد نجانے کس وقت دروازے یہ آ کھڑے ہوئے تھے۔ صبا اور ثمین کے چہرے بھی فق ہو گئے۔ چہرے پہ اڑتی ہوائیاں فراز اور رمیز کو مزہ دے گئیں۔
گھر میں ملازماؤں کی بھاگ دوڑ نے فراز کو کمرے میں بیٹھنے نہیں دیا تھا اور وہ صورت حال کا جائزہ لینے کمرے سے نکلا تھا تو بھا بھی کا شکوہ سنتے ہی رمیز کو لے کر بیٹھک میں دوڑ آیا جبکہ چوہدری شجاعت کو فراز پہ غصہ آ رہا تھا کہ وہ اکیلے ہی ہیرو بننا چاہتے تھے۔
"راستہ دیں۔ " ثمین نے حلق تر کرتے ہوئے کہا۔
" راستہ دوں یا بتاؤں ' ویسے "چاند نگر" کا راستہ تو ٹھیک بتایا تھا نا۔"
یوں لگا جیسے قدموں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہو۔ گویا ہمیں پھانسنے کی پوری پوری تیاری ہے۔ اپنے ڈوبتے دل کے ساتھ یہ مایوس سوچ ثمین کو سن کر گئی۔
"دیکھئے ہماری آپ سے کوئی دشمنی نہیں۔ آم کا صرف ایک ہی درخت تو اجاڑا تھا وہ بھی تھوڑا سا۔ اس میں ہمارا کیا قصور نہ آپ ہمیں غلط راستہ بتاتے
اور نہ ہمیں غصہ آتا۔ غصے میں تو آپ کو پتہ ہے انسان کی عقل ماری جاتی ہے۔ اگر ہمیں پتہ ہوتا تو ہم آپ کے ساتھ ہرگز نہ اتے۔ "
" اوہ۔۔۔ آئی سی۔۔۔۔ تو وہ آم چور بھی آپ لوگ ہیں۔ بھائی جان! یہ لوگ جانے نہ پائیں ۔ " فراز تیوریاں چڑھائے بیچ میں بول پڑا تو میں نے نان اسٹاپ چلتی زبان دانتوں تلے دبائی۔ فرحین نے پیشانی پر ہاتھ مارا۔ اپنے ہاتھوں راز فاش کر دیا ۔ عجیب صورت حال ہو گئی تھی۔ فرحین نے کھا جانے والی نظروں سے ثمین کو دیکھا اور حواس بحال کر کے چوہدری شجاعت کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور بڑی متانت اور وقار سے سراٹھایا۔
چوہدری شجاعت پہلے ہی منتظر اور پُراشتیاق نظروں سے ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے۔
"جناب! ہمیں آپ سے نہیں بلکہ آپ کے والد صاحب سے ملتا ہے۔"
" والد صاحب ؟" تینوں مرد تقریبا ایک ساتھ بول اُٹھے۔
"جج۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔ والد صاحب۔" فرحین ان کی حیرانی پر گھبرا گئی۔
"ویسے خاتون ! آپ کس کے مشورے یہ یہاں آئی ہیں؟فراز دونوں بازو سینے پر باندھے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ ثمین اس کے انداز پہ جل ہی تو گئی۔
" او۔۔۔۔ وجاہت۔۔۔۔ او کاکے رمیز! جاؤ تم لوگ بے جی نے کھانے کے لیے بلایا تھا۔ آؤ بی بی۔ آپ لوگ بیٹھیں یہاں۔ میں ہی چوہدری شجاعت ہوں، اس گاؤس کا وڈا ۔ میرا مطلب ہے بڑا چوہدری ۔"
چوھدری شجاعت بے صبری سے بول پڑے۔ فراز اپنے اصلی نام پہ بد مزہ سا ہو کر منہ بسورتے رمیز کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا تو تینوں خواتین نے سکون کا سانس لیا اور سنجیدگی سے سائیڈ پہ پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔ چوہدری شجاعت بھی تخت پر براجمان ہو چکے تھے۔
" جی بی بی۔۔۔۔۔ اب بولیں، آپ کا کیا مطالبہ ہے۔" چوہدری شجاعت ایک ذمہ دار حاکم کا روپ دھار چکے تھے۔
تب فرحین نے ایک سانس میں اسکول کے لیے مطلوبہ ضروری سامان کی لسٹ گنوا دی اور ساتھ ہی جانے کی اجازت بھی طلب کر کے جواب کا انتظار کیے
کیے بغیر کھلے دروازے سے نکلتی چلی گئی۔
چوہدری شجاعت حیرت کی تصویر بنے دروازے کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ سینے کی بائیں طرف کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی اور استانی جی کی خوبصورت شبیہہ نظروں میں گھوم گئی ۔ فرحین نے کیا کہا۔ اسکول کی ڈھیروں ضروریات۔۔۔۔ ٹاٹ کی جگہ کرسیاں۔۔۔۔۔ قدرتی ہوا کے علاوہ چھتوں پر پنکھے' بلب اور ٹیوب لائٹس۔۔۔۔۔ چپڑاسی۔ مزید ٹیچرز چاہئیں۔۔۔۔ نئی عمارت اور بھی نجانے کیا کیا۔
انہیں تو کچھ بھی یاد نہیں رہا، کچھ بھی نہیں۔ سوائے اس پری پیکر کے جس نے پہلی مرتبہ سینے میں موجود "دل" کی موجودگی کا احساس دلایا ورنہ اس سے پہلے تو وہ جانتے ہی نہ تھے کہ ان کے سینے میں بھی ایسا ترسا ہوا دل موجود ہے جس میں ہزاروں نہیں لاکھوں رنگین خواہشات پورے ہونے کے انتظار میں تڑپ رہی ہیں۔
جاگتی آنکھوں سے رنگین سپنے دیکھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھے ہی تھے کہ بے جی کا بلاوا آ گیا۔ بد مزہ سے ہو کر چل پڑے۔
یا اللہ خیر' بے جی کے کمرے میں فراز' رمیز سے نظریں ہوتیں سڑسٹر کرتی زہرہ پہ جا ٹکیں۔
" وے شجی۔۔۔۔ کون تھیں یہ کڑیاں؟" بے جی کی گھورتی نظروں کو تو وہ بھول ہی گئے تھے۔ بے جی کے سوال پہ چوکنا ہو گئے۔
" اوہ ۔۔۔۔ کوئی نئیں بے جی' ایویں اسکول کے لیے چندہ شندہ مانگنے آئی تھیں۔ یہ تو پاگل ہے بے جی' اب گاؤں کے لوگ اپنی درخواست لے کر میرے ہی پاس آئیں گے نا۔ " چوہدری شجاعت بیوی کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ چکے تھے لہذا بڑے لاپروا انداز میں بولے۔
"نہ بے جی ان سے پوچھیں کیہڑا اسکول' پہلے تو یہ اسکول کے بڑے خلاف تھے ، اب جب نئی استانی دیکھی ہے تو۔۔۔۔ " تنک کر بولی۔
" ائے۔۔۔۔ تے ھے وبے (یہ تو ہے)۔ اب بے جی نے دوبارہ جواب طلب نظروں سے چوہدری بیٹے کو دیکھا اور چوہدری شجاعت نے مدد طلب نظروں سے بھائی کو دیکھا کہ اسکول کی مخالفت وہ ببانگ دہل کیا کرتے تھے اور فراز کو اسی بات پہ بھائی سے اختلاف ہوتا تھا۔
اب وجہ کچھ بھی رہی ہو' اگر اسی بہانے اسکول تعمیر ہو رہا تھا تو فراز کو بھائی کی مدد کے لیے اس مسئلے میں کودنا پڑا۔
" بھابھی! وہ تو پرانی بات ہے کہ گاؤں میں اسکول نہیں ہونا چاہیے۔ اب وقت اور زمانہ بدل گیا ہے جی۔ آج تعلیم بچے' بچے کی ضرورت ہے ، آپ ہی دیکھیں اگر ہمارے گاؤں میں اچھا اسکول ہوتا تو آج ہمارے ککو کو اتنی دور شہر میں تعلیم کے لیے نہ جانا پڑتا ۔ "
فراز نے زہرہ کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا جو دس سالہ حارث کی جدائی میں تڑپتی رہتی تھی جسے باپ اور چچا نے ایچی سن میں بھجوایا تھا۔
"ہائے میرا ککو ۔۔۔۔ نجانے کیا کھاتا ہو گا' بے جی میں ککو دے بغیر بہت اداس ہوں ۔" زہرہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولیں تو چوہدری شجاعت نے سکون کا
سانس لیا۔
"ہاں میری بچی! میرا دل وی تڑپتا رہندا دے۔ وجاہت پتر توں سانوں کل ہی حارث دے کول لے کے جا۔" بے جی نے غیر متوقع مطالبہ کر دیا تو فراز سٹپٹا کر رہ گیا۔
" نئی نئیں بے جی! اس طرح بچوں کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے۔ روز روز تھوڑی ملنے دیتے ہیں۔ ہر جگہ کے اپنے اصول ہوتے ہیں، ہر دوسرے دن ملنے دوڑے جائیں گے تو حارث بچہ ہی بنا رہے گا۔" چوہدری شجاعت نے دھیرج سے سمجھایا۔ زہرہ منہ بنا کرساس کو دیکھنے لگیں۔
" اچھا فیر توں۔ اس استانی کی ساری باتیں مان لے اور گاؤں میں ویسا ہی اسکول بنا دے جیسا میرے ککو کا ہے تاکہ میں اپنے پتر نوں اپنی نظروں کے سامنے رکھ سکوں۔"بے جی کی اس انوکھی خواہش پہ رمیز اور فراز نے بوکھلا کر چوہدری شجاعت کو دیکھا جو اماں کے اتنے مہنگے مطالبے یہ سر کھجا کے رہ گئے۔ نا ممکن بھی تھا اور مشکل ترین بھی۔ البتہ استانی جی سے ملاقاتیں اور مطالبے پورے کرنا بہت آسان بھی تھا اور حسب خواہش بھی۔ چوہدری شجاعت بظاہر ماں کی فرماں برداری میں سر جھکا کر چلے گئے تو فراز اور رمیز بھی کھسک گئے۔
اگلے دن رمیز اور فراز صبح پانچ بجے ہی روانگی کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ بے جی نے کھانے کے لیے بے شمار چیزیں تیار کر دیں جس میں حارث یعنی ککو کا حصہ الگ سے تھا۔
پہلا پیریڈ لینا بہت ضروری تھا لہذا فضول باتوں سے پرہیز کرتے ہوئے جلدی جلدی پراٹھے' انڈوں اور لسی پر ہاتھ صاف کرتے بے جی اور زہرہ کی نصیحتیں ایک کان سے سنتے اور دسرے سے نکالتے ہوئے دونوں حویلی کے دروازے یہ آ کھڑے ہوئے جہاں جیپ کھڑی تھی وہ دونوں بیٹھ گئے۔
جیپ خفیف سے جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھی۔ سورج کی بھڑکتی ہوئی بے تاب کرنیں ہر سو پھیل چکی تھیں۔ رمیز سرسبز کھیتوں میں گُم نجانے کیا سوچ رہا تھا۔ اچانک لگنے والے جھٹکے نے سر بھی کھڑکی سے ٹکرایا اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹنے پہ فراز پہ چڑھ دوڑا ۔
" یا وحشت۔۔۔۔ کوئی بھوت دیکھ لیا ہے کیا۔۔۔۔ لے کے اکلوتا سر پھوڑ دیا۔"
" بھوت نہیں چڑیلیں ۔ " فراز نے سائیڈ مرر سے پیچھے دیکھتے ہوئے دبے دبے جوش سے کہا۔
" پھر تو بھاگ چلو بھائی ! مجھے تمہاری کزنز سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔ " رمیز نے کانپتے لہجے میں کہتے ہوئے فراز کے کان پکڑ لیے۔
" بکومت اور اپنا کان میرے قریب لاؤ۔" فراز نے کہتے کہتے رمیز کا کان کھینچ کر اپنے منہ کے قریب کیا اور کھسر پھسر کرتے ہوئے اپنا پلان بتایا۔
" ویری گڈ ۔ دل ٹھنڈا کیتا اے۔ چل گاڑی واپس موڑ' وہ لوگ بس کے انتظار میں ہیں۔ " رمیز نے فراز کے شانے یہ حوصلہ افزا تھپکی دی۔
دوسری طرف ثمین' فرحین سے کہہ رہی تھی۔
" آپا! تم واپس جاؤ ، ہمیں کوئی نہ کوئی بس تو مل ہی جائے گی ۔"
" اور کیا ۔۔۔۔ آپا! آپ کو اسکول بھی جانا ہے۔ گرمی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ " صبا نے اپنی چھتری کا سایہ فرحین پہ کرتے ہوئے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔ " ایکسکیوزمی۔ " فرحین کے جواب دینے سے پہلے ہی فراز جیپ کو سائیڈ پہ کھڑی کر کے مودبانہ ان کے سامنے کھڑا تھا۔
" جی فرمائیے۔" فرحین قدرے خائف سی ہو گئی۔ ثمین اور صبا بھی چوکنا ہو کر ا نہیں گھورنے لگیں۔
" میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارا ڈرائیور شہر جا رہا ہے آپ لوگوں کو بھی چھوڑ دے گا۔" فراز نے بڑے مہذب اور شائستہ انداز میں پیشکش کی۔
"دیکھیں آپ ہمارے گاؤں میں مہمان ہیں آپ کی جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی تو ہم یہی پیشکش کرتے ۔" فرحین متذبذب اور الجھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔
" لڑکیوں سے بہت ہمدردی ہے آپ کو' چاہے وہ اس گاؤں کی ہوں یا کسی شہر کی۔" ثمین کا چبھتا ہوا لجہ فراز کو گراں تو بہت گزرا، دل میں انہیں مزہ چکھانے کا عزم اور پکا ہو گیا۔
" ایسی کوئی بات نہیں محترمہ ! مہمانوں کا خیال رکھنا تو ہمارا فرض ہے۔"
فراز کا سنجیدگی سے بھرپور لہجہ فرحین کو متاثر کر گیا۔ ویسے بھی گرمی کی شدت میں اضافہ ہی ہو رہا تھا' دوسرے فراز کی دو سری آفر قابل قبول بھی بھی تھی لیکن ثمین کا دل نہیں مان رہا تھا۔
جبکہ صبا نے گرمی سے نڈھال ہوتے ہوئے رضامندی دے دی۔
" لیکن آپ لوگوں کو خوامخواہ تکلیف دیں' کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ " فرحین نے اوپری لہجے میں منع کرنا چاہا۔
" آپ لوگوں کا گرمی میں یوں خوار ہونا ہمیں اچھا نہیں لگ رہا۔ پلیز فارمیلیٹیز چھوڑیں۔ میں ذرا ڈرائیور کو سمجھا دوں۔ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں نا؟ فراز نے تائیدی نظروں سے انہیں دیکھا اور فرحین کا سراثبات میں ہل گیا۔
فراز اور رمیز' انور کے پاس پانچ منٹ کے لیے رکے' تھوڑی دیر بعد فرحین نے ثمین کو جیپ میں بٹھایا اور خود فراز کا شکریہ ادا کر کے گاؤں کی طرف پلٹ گئی۔
ثمین نہ چاہتے ہوئے بیٹھ تو گئی تھی لیکن جیپ کے اندر ٹھنڈے ٹھنڈے ماحول میں گویا روح بھی تروتازہ ہو گئی۔ دونوں پچھلی آرام دہ نرم نرم سیٹوں پر دھنسی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگیں۔
سیاہ کول تار کی لمبی سی سڑک کے دونوں جانب گھنے درختوں نے سایہ کیا ہوا تھا اور ان سے پرے لہلہاتے کھیتوں کا وسیع سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ کافی دیر کے بعد کوئی بس یا پرائیویٹ گاڑی گزر جاتی۔
صبا نے اپنے بیگ سے چپس کے پیکٹ جنہیں کھانے کا موقع ہی نہیں ملا تھا' نکالا اور مزے سے کھانے اور انجوائے کرنے لگیں۔
لیکن ان خوبصورت لمحات کو دل بھر کے انجوائے بھی نہیں کیا تھا کہ اچانک ہی گاڑی چند جھٹکوں کے بعد خوفناک انداز میں ہچکی لے کر رک گئی۔ انجن بند ہوتے ہی اے سی بھی بند ہو گیا۔ پل بھر میں اندر کے ماحول میں گھٹن اور بے چینی سی پھیل گئی۔ ثمین نے گھبرا کر شیشہ نیچے کیا مگر باہر سے آنے والی تپش نے گویا چہرہ ہی جھلسا دیا ۔
" اب کیا ہو گا؟" بے ساختہ سہما سہما سوال ڈرائیور کے گوش گزار کیا۔ گھبراہٹ اور خوف سے دونوں کا برا حال تھا دوسرے گرمی۔۔۔۔ ساکن ہوا۔۔۔۔۔ سانس لینے میں گھٹا جا رہا تھا۔
" میں دیکھتا ہوں جی !" انور جلدی سے نیچے اتر گیا۔
" پتہ نئیں چوہدری جی کہاں رہ گئے ہیں۔ " انور جیب کا بونٹ اٹھا کر بلاوجہ ہی پرزوں کو گھورنے لگا۔ خرابی کہیں ہوتی تو دور بھی کرتا ۔
" یار فراز! مروا دیا تمہارے ایڈونچر نے۔ " رمیز نے ہانپتے ہوئے بمشکل کہا۔ پروگرام کے تحت ان لوگوں کو مطلوبہ مقام تک پیدل آنا تھا۔ دونوں کے کپڑے اگر نچوڑے جاتے تو بالٹی پسینہ نکلتا۔ یہ بھی رمیز کا ہی خیال تھا۔
" کول یار۔۔۔۔ وہ دیکھو ہماری منزل۔۔۔۔ " اچانک ہی فراز نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
"میرے پراٹھے بھی ہضم ہو چکے ہیں اور لسی بھی۔ " رمیز دکھی لہجے میں بولا۔
"پھر کھا لینا یار۔۔۔۔ بس اب رومال نکالو اور چہرے پر باندھ لو اور ذرا حارث کی وہ گن تو نکالنا' آج اس نقلی پستول سے اصلی خوف پیدا کریں گے۔" فراز نے ڈرامائی لہجے میں کہا۔
" اور ہمارے کپڑے۔ " رمیز نے اعتراض کیا۔
"میرا خیال ہے نہ تو صبح اس بات پر غور کیا ہو گا اور اب تو ویسے ہی خوف کی وجہ سے بے ہوش ہو جائیں گی۔" فراز نے اپنا رومال چہرے پر باندھتے ہوئے اطمینان ہے کہا۔
اب یہ لوگ جیپ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ یہ شکر تھا کہ جگہ بہت سنسان تھی، کسی اور کی موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے صورت حال جاننے کے لیے کھڑکی کا پردہ سرکایا تھا کہ سیاہ ریوالور اس کی نظروں کے سامنے آ گیا۔
پل بھر کو تو وہ کچھ سمجھ ہی نہ پائی۔ صبا بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے پستول کو گھورے جا رہی تھی۔
" یا اللہ یہ کس مصیبت میں پڑ گئے ؟" گم ہوتے حواسوں کے ساتھ کوئی وظیفہ دہرانا چاہا لیکن ہر طرف سیاہ ریوالور ہی نظر آ رہا تھا۔
" جو کچھ بھی ہے' نکال دو۔ " بھاری آواز نے گویا جان ہی نکال دی۔
" کک۔۔۔ کیا۔۔۔۔ کیا لیں گے آپ ؟" صبا نے اپنی انگلی میں پہنی سونے کی انگوٹھی اتارتے ہوئے کہا۔ سونے کی موٹی سی چین بھی گلے میں جھول رہی تھی البتہ ثمین کے ہاتھ کان ہر چیز سے خالی تھے۔ رومال کے پیچھے سے گھورتی نظریں ۔ صبا کے ہاتھ کانپنے لگے۔
" اے تم بھی اپنا زیور نکال دو۔" فراز نے ساکن بیٹھی ثمین کے سر پر ریوالور سے ٹہوکا مارتے ہوئے خوفناک لہجے میں کہا۔
" مم۔۔۔۔۔ میرے۔۔۔۔ پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ثمین کی آنکھیں چھلکنے کو تھیں۔
" یہ لو۔۔۔۔ ایک میری طرف سے اور ایک میری دوست کی طرف سے۔ " صبا نے چین اور انگوٹھی رمیز کی طرف بڑھائے۔ اس انوکھی قربانی پر فراز کا دل چاہا زور زور سے قہقہے لگائے۔
" تم کیا ہمیں صدقہ خیرات دے رہی ہو۔ اونہہ میری اور میری دوست کی طرف سے۔" منہ بنا کر الفاظ دہرائے۔
" میری ساری جیولری بینک میں ہے۔ " ثمین نے مرے مرے لہجے میں سچ بولا۔
" کون سے بینک میں۔ ایک تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خواتین بینک میں جیولری کیوں رکھتی ہیں۔ بھلا بینکوں میں ڈا کے نہیں پڑتے' مجھے بینک کا نام بتاؤ' آج اسی بینک میں ڈاکہ ڈالیں گے۔ کیوں بڑے بھائی؟" رمیز نے دھمکی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے فراز کی تائید چاہی۔
" یہ ٹھیک ہے۔ کیوں بھئی ڈرائیور گاڑی ٹھیک ہوئی ؟" فراز نے فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے رعب دار لہجے میں پوچھا۔
اس کے ارادے کی تہہ میں پہنچتے ہی ثمین کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
صبا کا بلڈ پریشر بھی گرنے لگا۔
" گڈی ٹھیک اے چوہدری جی۔" بلا ارادہ ہی انور کی آواز اونچی ہو گئی تو فراز نے اسے سختی سے گھورا لیکن وہ دونوں بزدل خواتین اپنے حواس ہی جمع کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔
"چل آ جا چھوٹے' ٹھنڈی ٹھنڈی گاڑی میں لاہور تک کا سفر بڑا مزہ آئے گا۔ " فراز نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے رمیز کو بھی ساتھ بٹھا لیا اور انور نے بھی مسکراتے ہوۓ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہی اے سی آن کر دیا۔ انجن کے جاگتے ہی ثمین کو جھٹکا سا لگا۔
" تو۔۔۔۔ تو یہ ہمیں گاڑی سمیت اغوا کر رہے ہیں۔" اس خیال نے دماغ میں گویا کرنٹ سا لگایا ۔ جیپ دوبارہ اس رفتار سے دوڑنے لگی تھی۔ فضا میں ٹھنڈک تو پہلے جیسی تھی لیکن خوف ہر چیز یہ غالب آ چکا تھا۔
" خود کو بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔" ثمین نے صبا کے کان میں سرگوشی کی۔
"مثلا " کیا۔۔۔۔ کیا کریں۔" صبا کی سوالیہ نظروں میں چھپا سوال اسے بے چین کر گیا۔
" چھلانگ لگا دیں! بے آواز ہونٹ ہلائے۔
"سوچ لو۔ " صبا نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
رمیز ترچھی نظروں سے پیچھے ہی دیکھ رہا تھا۔ باہر کا منظر بھی اچانک ہی بدل چکا تھا۔ تیز دھوپ کے باعث بخارات آسمان پہ سیاہ بادلوں کی صورت جمع ہو رہے تھے۔ پل بھر میں ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا اور درخت تیز آندھی میں جھومنے لگے اور ساتھ ہی دھڑا دھڑ اولے بھی گرنے لگے۔
" واؤ۔۔۔۔ زبردست۔۔۔۔ کیا خیال ہے، تھوڑا سا موسم نہ انجوائے کیا جائے۔" فراز کا دل قدرتی شاور میں نہانے کے لیے مچل اٹھا۔
" پہلے اندر کے موسم سے نپٹ لو پھر باہر کی خبر لینا۔ رمیز نے اپنی ہم سفروں کی خفیہ سرگرمیوں سے مشکوک ہوتے ہوئے دبے دبے لہجے میں کہا۔
" یار گولی مارو ان کو۔ " فراز بد مزہ سا ہو کر بولا۔
" پستول اصلی ہوتا تو ضرور یہ خواہش پوری کرتا۔ فی الحال تو جو مصیبت مول لی ہے اس سے نجات پانے کی سوچو۔" آخری بات رمیز نے غصے سے دانت پیس کر کہی۔
" چوہدری جی۔۔۔۔ موسم بڑا خراب ہے جی سٹرک بھی نظر نہیں آ رہی۔ گاڑی روک نا دوں؟ انور نے رفتار دھیمی رکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
" روک دے یار! کہیں اس طوفانی بارش میں جیپ سمیت نہ اڑ جائیں۔ واقعی یہ تو مصیبت ہی بن گئی ہیں۔" فراز بیزاری سے بڑبڑایا ۔
" ایسا کرتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ بس پر چلی جائیں۔ " رمیز نے فراز کے کان میں مشورہ دیا۔
" بڑے بے غیرت ہو یار!" فراز نے جل کر ملامت کر ڈالی۔
" اونہہ۔۔۔ تم سے کم۔۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ بدلہ لو۔" رمیز کو بھی غصہ آ گیا۔ جھٹ سے دروازہ کھول کر باہر کھڑا ہو گیا۔
تیز ہوا بارش میں بھیگ کر ٹھنڈک کا احساس دے گئی۔
"بہانہ کر کے بارش کے مزے لے رہا ہے' میں بھی نہاؤں گا۔" فراز بھی جوش میں بھرا قدرتی آبشار کے نیچے جا کھڑا ہوا۔ رمیز نے اسے گھورتے ہوئے رومال نوچ کر اتارا۔ تیز ہوا اور طوفانی بارش میں راستے دھندلا رہے تھے۔
وہ دونوں جو اس افتاد سے نپٹنے کا سوچ رہی تھیں ' نئی صورت حال پہ ہونق ہو کر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔
" بہادر بنو صبا! اب ہم اتنے بھی بے بس نہیں ۔ " ثمین نے خود کو سنبھالتے ہوئے صبا سے مضبوط لہجے میں کہا۔
" یہ ہوئی نا بات۔ چلو ذرا کھڑکی سے پردہ ہٹاؤ' ہم بھی اس حسین موسم کا مزہ لیں۔ " صبا نے کہتے کہتے اپنی طرف کا پردہ سرکایا۔
" ارے یہ دیکھو۔" باہر کا منظر دیکھ کر صبا نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ثمین کو متوجہ کیا۔
" اوہ۔۔۔" گویا ساری صورت حال سمجھ میں آ گئی۔ جانے پہچانے چہرے دیکھ کر خون کھول اٹھا۔ دونوں کتنے مزے سے موسم کا لطف اٹھا رہے تھے۔
" الو۔۔۔۔۔ گدھے۔۔۔۔۔ کمینے۔۔۔۔ تم بھی اول درجے کی ڈرپوک ہو، انہیں پہچانا کیوں نہیں۔ اتنا تو انسان کو شعور ہونا چاہیے کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا ہے۔" ثمین نے اپنے بے وقوف بنائے جانے کی خجالت اس طرح اتاری کہ صبا پہ پل پڑی۔
" ایکسکیوزمی۔ آپ کون سی پھولن دیوی ہیں ۔" ڈرائیور بھی غائب تھا' دونوں فراخ دلی سے ایک دوسرے کو الزام دینے لگیں۔
" میں انہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔ " ثمین نے اُچک کر انگلی سیٹوں پر جھانکا۔ سیٹ پر سیاہ ریوالور دیکھ کر چونک گئی۔
" صبا! ان لوگوں کا ریوالور پڑا ہوا ہے۔ ٹھہرو میں ابھی اٹھاتی ہوں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کی خبر ہی نہیں ، ابھی مزہ چکھاتی ہوں۔ " ثمین نے مسلسل بڑ بڑاتے ہوئے ریوالور اٹھا لیا۔
" ثمین! تم سچ مچ پاگل ہو گئی ہو۔ نقلی ڈاکوؤں کے پاس پستول کیسے اصلی ہو سکتے ہیں۔ یہ دیکھو۔ " صبا نے بے تحاشا ہنستے ہوئے بچگانہ پستول کھول کر پلاسٹک کی گولیاں نکال کر دکھائیں تو نا چاہتے ہوئے ثمین کو بھی ہنسی آ گئی لیکن اس کے ذہن میں ابھی بھی بدلہ ہی گھوم رہا تھا۔ ان دونوں کو موسم انجوائے کرتے دیکھ کر دل جلا جا رہا تھا۔
"صبا! تمہیں ڈرائیونگ آتی ہے نا؟" کچھ سوچ کر ثمین کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
" ہاں۔۔۔ تو۔۔۔۔ ؟ " صبا کے اعتراف میں ہی سوال بھی تھا۔
" چابی بھی لگی ہوئی ہے' تینوں کو کسی بات کا ہوش نہیں۔ چلو انہیں تھوڑا سا بھگائیں۔" ثمین نے پر جوش ہو کرپروگرام بنایا ۔ تب صبا بھی تصور میں مزہ لیتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ یہ چلی گئی۔
وہ لوگ جیپ سے کافی فاصلے پہ چلے گئے تھے۔
بارش کی روانی میں کسی حد تک ٹھہراؤ آ چکا تھا دونوں خوش گپیاں لگاتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ اچانک جیپ کے اسٹارٹ ہونے کی آواز پہ ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
" ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ او۔۔۔۔ انور کے بچے۔۔۔۔۔ گئی جیب ہاتھ سے گئی ۔" تینوں دیوانوں کی طرح بھاگے۔ ثمین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئی۔
" سینے میں ٹھنڈ پڑ گئی ۔ " پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھ لیے۔
" پڑ گئی نا' لہذا ۔ " صبا نے کہتے کہتے جیپ روک دی۔
" بھاگ۔۔۔۔ انور! آج ریکارڈ توڑ دے۔" فراز چیخا لیکن ریکارڈ توڑنے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ جیپ دوبارہ اپنی جگہ سے ہلی ہی نہیں۔ تینوں بری طرح ہانپتے
ہوئے پہنچے۔
" تم ۔۔۔۔ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ؟" فراز سانس بحال ہونے کا انتظار کیے بغیر پھولی سانسوں کے بیچ غصے سے بولا۔
" اگر یہی الفاظ آپ سے کہے جائیں تو۔ " ثمین نے بھی چمک کر کہا۔
" وہ تو ہم نے مذاق کیا تھا۔ " فراز نے ڈھٹائی سے جوابا" کہا۔
" اوہ۔۔۔۔ تو ادھر بھی یہی حال ہے۔ ویسے ہمارا آپ کے ساتھ مذاق کا کون سا رشتہ تھا؟ دو تین ملاقاتوں میں ہی فری ہو گئے۔" ثمین نے بھی انہیں گھورتے ہوۓ ناگواری اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا۔
" وہی رشتہ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے تم لوگوں نے ہمارا آموں کا باغ اجاڑا تھا۔" فراز بھی لڑاکا پوزیشن میں آ گیا' دونوں خجل سی ہو گئیں۔
" میں نے تو سنا تھا کہ گاؤں کے لوگ بہت خوش اخلاق اور مہمان نواز ہوتے ہیں لیکن آپ تو۔۔۔۔" صبا نے پینترا بدلتے ہوئے بندوق فراز کے شانے پر رکھ دی ۔ اتنے جنگجو ماحول میں اچانک ہی صلح کی ہری جھنڈی لہرانے لگی۔
" ایں۔" فراز اور رمیز نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
" ہاں تو اس میں غلط کیا ہے۔" فراز نے اکڑ کر پوچھا۔
" شروع سے لے کر آخر تک سارے واقعات پر نظر ڈالیں ' غور کریں ۔ " صبا ہی بول رہی تھی جبکہ ثمین منہ بنائے جمع شدہ پانی کی روانی نشیب کی طرف ہوتے دیکھ رہی تھی۔
" چلیں چھوڑیں میڈم ! غلطی دونوں طرف سے ہوئی' لہذا ایک دوسرے کو سوری کہہ کر ہمیں اپنی اپنی راہ لینی چاہیے۔ " رمیز نے بھی مصالحانہ لہجہ اختیار کیا۔
" یعنی آپ لوگ تو مزے سے گاڑی میں چلے جائیں اور ہم جس کے لیے خوار ہوتے رہیں۔" ثمین کھولتے لہجے میں بول اٹھی۔
"تو پھر کیا کریں' اتنی لڑائی کے بعد بھی ہم آپ کو ڈراپ کرنے کی آفر کریں۔ " فراز چٹختے لہجے میں بولا۔
" آفر نہیں بلکہ جرمانہ ادا کریں اور ہمیں بحفاظت ہمارے ہاسٹل تک پہنچائیں۔" ثمین کے دھونس بھرے لہجے پہ فراز کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے جبکہ رمیز بے ساختہ مسکرا کے رہ گیا۔
" یہ پروگرام ٹھیک ہے جی ۔ " انور مسئلہ حل ہونے پہ جلدی سے بول پڑا تو نا چار فراز کو بھی ہتھیار ڈالنے پڑے۔
فرحین ان دونوں کو اسٹاپ پہ چھوڑنے کے بعد گھر میں داخل ہوئی تھی کہ بارش شروع ہو گئی۔
" فری بیٹا۔۔۔ وہ چوہدری صاحب کا نوکر بلانے آیا تھا۔" پھپھو نے کچن سے نکل کر کہا۔
" اتنی صبح ؟" فرحین حیران سی پھپھو کے پاس چلی آئی۔
" کام ہو گا کوئی ۔ " پھپھو نے بیسن میں پیاز اور ہری مرچیں کاٹتے ہوئے اس کہا۔
" کیا۔۔۔۔ اوہ۔۔۔ اتنی جلدی اثر ہو گیا۔ " فرحین سوچ کر خوش ہو گئی۔ پھر تو بارش رکتے ہی ان کے گھر جاؤں گی۔ فیصلہ کرتے ہوئے کچن میں پھپھو کی مدد کرنے پہنچ گئی۔
تیز بارش اب نرم نرم پھوار میں بدل چکی تھی۔ تھوڑی دیر میں مزیدار پکوڑے اور اسٹرونگ سی چائے تیار کی۔
" کاش میری ثمین بھی یہاں ہوتی۔" پھپھو نے اداس سے لہجے میں کہا۔
" اچھا ہوا۔۔۔۔ ورنہ یہ سارے پکوڑے وہی کھا جاتی۔" فرحین نے گویا اس کی غیر موجودگی پہ سکھ کا سانس لیتے ہوئے لا پروائی سے کہا۔ پھپھو اسے شفقت بھری گھوری مار سے نواز کر برتن سمیٹنے لگیں اور فرحین چکنے ہاتھ دھونے صحن کی طرف چل پڑی جہاں ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا۔
موسم قدرے بہتر ہو چکا تھا، یعنی گرمی کی شدت کا سلسلہ کچھ وقت کے لیے تھم سا گیا تھا۔ فضا میں خوشگواریت سی محسوس کر کے فرحین نے اپنے کپڑوں پہ طائرانہ نظر ڈالی۔ آسمانی رنگ کا سوٹ اور ہم رنگ بڑا سا دوپٹہ سب پرفیکٹ لگا۔
" اوکے پھپھو جانی ! میں ذرا چوہدری صاحب سےدو دو ہاتھ کر کے آتی ہوں۔" دوپٹہ اچھی طرح اوڑھ کر بیرونی دروازے کی سمت بڑھی۔
" بیٹا! کسی عورت کو ساتھ لے کر جانا۔" پھپھو کے خائف سے لہجے نے اس کا تعاقب کیا۔ فرحین مسکرا کر نکلتی چلی گئی۔
نہا دھو کر سارا گاؤوں نکھر گیا تھا۔ گلیوں میں بچھا سرخ رنگ کا فرش دھل کر چمک اٹھا تھا۔ جو کام بارش کی آمد سے رک گئے تھے' بارش کے بعد پھر سے رواں دواں ہو گئے۔
اسکول میں بچوں کی آمد مشکوک ہی تھی لیکن پھر بھی وہ اس خیال سے آ گئی کہ اگر کوئی بچہ آ گیا ہو تو وہ چھٹی کی خوش خبری سنا کر ہی چوہدری صاحب کے گھر جائے' کیچڑ سے جوتے بچاتی بالآخر اسکول تک پہنچ ہی گئی۔ اسکول کا بڑا سا صحن پانی سے بھرا ہوا تھا۔ "اوہ۔۔۔" جب میں اندر نہیں جا سکتی تو بھلا بچے کیسے جائیں گے۔" خود ساختہ تسلی کے بعد پلٹنے کو تھی کہ چوہدری صاحب کے خاص ملازم کو تیزی سے پانی میں سٹرپٹر کرتے ، آتا دیکھ کر ٹھٹک گئی۔
"سلام بی بی جی ۔" نوکرنے سلام جھاڑا ۔
" آپ یہاں اسکول میں کیا کر رہے ہیں ؟ فرحین نے اسے گھورا۔
"وہ۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔ چوہدری صاحب آئے ہیں، ان کے ساتھ ان کے دوست بھی اندر بیٹھے ہیں۔ کوئی نیا اسکول بننے کی باتیں ہو رہی ہیں۔" نوکر نے اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں گویا خوش خبری سنائی۔
" اسکول کے بارے میں ؟" فرحین کا دل خوشی سے دھڑک اٹھا۔
" اچھا جی۔۔۔ میں تو چائے پانی لینے جا رہا ہوں۔" ملازم کہہ کر روانہ ہو گیا۔ لیکن کمرے تک پہنچنے کے لیے اسے جوتے ہاتھ میں پکڑ کر ملازم والا طریقہ اختیار کرنا پڑا اور کیچڑ زدہ پانی کو عبور کرنا پڑا۔ فوری طور پر دھونے کا انتظام بھی نہیں تھا' وہ وہیں رک گئی کہ اسکول کی ماسی نظر آئے تو اس سے پانی لانے کو کہے۔
کمرے کی کھڑکی کھلی تھی، چوہدری صاحب کی آواز سن کر وہ چونک گئی۔
" چھڈ یار۔۔۔۔ (چھوڑ) شجاعت پانچ سال ہوگئے ہیں میری شادی کو اور تو ایک بار بھی میرے گھر نئیں آیا ۔ " عرفان نے پر انا شکوہ دہرایا۔
”میری مجبوری تو نہیں سمجھے گا عرفان تو اور کون سمجھے گا پنڈ (گاؤں) کے دھندے ہی جان نہیں چھوڑتے۔ اب یہ اسکول دیکھ لے نئے سرے سے بنوانا پڑے گا۔ " چوہدری شجاعت کی آواز میں عجیب سا تاثر محسوس کر کے عرفان چونک گیا۔
" نئے اسکول کی تعمیر کچھ سمجھ میں نہیں آئی. تم تو ہمیشہ سے اسکول بنانے کے خلاف تھے کہ میں نہیں پڑھا تو دوسرے بھی نہیں پڑھیں گے اور اب تو نیا اسکول بنانے چلا ہے۔ " عرفان حیرت اور تجسس سے بولتا چلا گیا۔
" یار۔۔۔۔ اگر تو فرمائش کرنے والی کو دیکھ لے تو دوسرا تاج محل بنانے کو دل چاہے گا۔ یہ تو پھر معمولی سا اسکول ہے۔" چوہدری شجاعت کے جسکے انداز اور لہجے پہ فرحین کا سانس سینے میں تھم سا گیا۔ حواس پہلے سے زیادہ چوکنا ہو گئے۔
" والی۔۔۔۔۔ کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔ کہیں تیرا بے ایمان دل کسی اور پہ ایمان تو نہیں لے آیا۔ " عرفان حیران رہ گیا۔
" یار۔۔۔۔ تمہیں اپنی گھر والی کے بارے میں بتایا تو تھا کہ کیسی جاہل اور پھوپڑ قسم کی عورت ہے۔ نہ اپنا ہوش ہے اور نہ ہی گھر کا۔ بس کھا کھا کے ڈبل سے ڈبل ہوئی جا رہی ہے۔ گھر میں ایسا ماحول ہی نہیں کہ سکون کے چند گھنٹے مل جائیں۔ اب تو میرا دل بھر سا گیا ہے اور اب میں بے بے کی پروا بھی نہیں کروں گا اور اسکول والی کو گھر والی بنا کے چھوڑوں گا۔"
چوہدری شجاعت کے پُر عزم لہجے نے فرحین کے ہوش اڑا دیے۔ چوہدری صاحب کے ارادے اورمعصوم بچوں کے نئے پر آسائش اسکول کا خواب سب کچھ گڈ مڈ سا ہو گیا۔
کیا اسے سب کچھ ادھورا چھوڑ کے چلے جانا چاہیے؟
اگر وہ بچوں کے مستقبل کے لیے رک جاتی ہے تو کسی معصوم عورت کا گھر برباد ہو جائے گا۔ صرف عورت کا گھر۔۔۔۔ کیا وہ خود راضی ہو جائے گی اس بے ہودہ حرکت کے لیے' نا ممکن۔
" اونہہ۔۔۔۔ مجھ سے پوچھا گچھا نہیں اور چلے ہیں مجھ سے شادی کرنے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے چوھدری صاحب کے گھر والوں سے ملنا چاہیے۔" ان کی بیگم کو بھی دیکھوں جا کر جن کی لاپروائی اور بے توجہی کی وجہ سے چوہدری صاحب میرے لیے مصیبت بن رہے ہیں۔" اس نے مصمم فیصلہ کیا تھا۔
"آپ۔۔۔۔ جی۔۔۔۔" دروازہ کھولنے والی ملازمہ نے آنکھیں پھاڑ کر اس کے ہاتھوں میں پکڑے جوتوں کو دیکھا تو فرحین نے جھٹ سے جوتے گندے پاؤں میں
ڈال لیے۔
"وہ۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ بیگم صاحبہ سے ملنا ہے۔" گندے ہاتھوں کو آپس میں ملتے ہوئے جلدی سے کہا۔
" کیہڑی (کون سی) بیگم صاحبہ جی؟ ملازمہ کے تفتیشی لہجے پہ فرحین دانت پیس کر رہ گئی۔
" چوہدری شجاعت کی بیگم صاحبہ۔ " بمشکل خود پہ قابو پا کر کہا۔ کہیں چوہدری صاحب خود نہ ٹپک پڑیں۔ محترمہ کی انکوائری ہی مکمل نہیں ہو رہی۔"
" اچھا۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔ نکی چوہدرانی۔ آوجی آؤ۔۔۔۔ بی بی جی اپنے کمرے میں ہیں۔ دھڑکتے دل کے ساتھ فرحین نے ڈیوڑھی میں قدم رکھا اور بڑا سا صحن عبور کر کے ملازمہ کے پیچھے چلتی چلی گئی۔ سارے گھر میں عجیب سی بے ترتیبی نظر آئی۔ زیادہ تر سامان رکھنے والی پیٹیاں اور بے شمار چارپائیاں۔
رنگین پیڑھیاں اور تازہ سبزیوں کے ڈھیر کو تاسف سے دیکھتی چوہدرائن کے کمرے تک پہنچ گئی۔
زہرہ نیچے فرش پہ بیٹھی تھی اور ایک ملازمہ اس کے سر میں تیل کی مالش کر رہی تھی۔ فرحین بے دھیانی میں ملازمہ کے پیچھے ہی اندر آ گئی۔ زہرہ کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے بے تحاشا لمبے بال تیل میں ڈوبے ہوئے تھے۔
زہرہ کے سرخ و سفید چہرے پہ ستواں ناک سے نیچے گلابی ہونٹوں پہ ٹک گئیں جن کی خوبصورتی کو سیاہی مائل دنداسے نے چھپا دیا تھا۔
زہرہ کے شیمپو کیے ہوئے سیاہ ریشمی بال بڑی بڑی آنکھیں ، گلابی ہونٹ' سارے تیکھے نقوش یکجا ہو کر اسے کتنا خوبصورت بنا رہے تھے لیکن اس کی یہ دلکشی کتنی ادھوری تھی۔ شاید اس لیے کہ اس کے ارد گرد بڑی بد صورتی تھی اور اسے شاید اس بے ترتیب زندگی میں کوئی بدمزگی محسوس نہیں ہو رہی تھی' جب ہی تو وه اس بکھرے ہوۓ ماحول میں بڑے سکون سے بیٹھی ہوئی تھی۔
" یہ کون ہے؟" زہرا نے آنکھیں کھولیں تو سامنے ہی گوری میم سی لڑکی پہ نظرپڑی۔ تیوری پرہ بل ڈال کر پوچھا۔
" یہ جی۔۔۔۔ ماسٹرنی جی ہیں۔۔۔۔" ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے بتایا ۔
"ماسٹرنی۔۔۔۔ " زہرہ منہ بنا کر جلدی سے چارپائی پہ بیٹھ گئی۔" کوئی کم شم (کام) ہے آپ کو ؟" نہ چاہتے ہوئے پوچھا۔
"جی۔۔۔۔" فرحین گو کہ ایسے استقبال کے لیے تیار تھی لیکن پھر بھی خاصی بے عزتی کا احساس ہوا۔
" بتا دو جلدی سے' میں چوہدری جی سے کہہ کر کرا دوں گی۔ " زہرہ کے رعونت بھرے لہجے میں بھر پور اعتماد تھا۔
" چوہدری جی سے نہیں بیگم صاحبہ! مجھے آپ سے کام تھا۔ " بلا سوچے سمجھے فرحین کے منہ سے نکل گیا۔
"مجھ سے۔" زہرہ' بیگم صاحبہ کے لقب سے باغ باغ ہو گئی۔
" او۔۔۔ تو آؤ جی استانی جی۔۔۔۔ یہاں بیٹھو میرے پاس منجی (چارپائی) پہ۔" زہرہ نے چارپائی سے فالتو کپڑے اٹھا کر ملازمہ کو تھما کر اس کے بیٹھنے کے لیے جگہ صاف کی۔ فرحین مسکراہٹ چھپاتی زہرہ کے پاس آ بیٹھی۔
" ہاں جی' بتاؤ کیا کم (کام) ہے؟" زہرہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ فرحین گڑبڑا سی گئی۔ کام کے بارے میں تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو بنا سوچے ہی چل پڑی تھی۔ نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے دماغ پر زور ڈالا۔
زہرہ بڑے غور سے فرحین کے چہرے اور اس کے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ شہری لڑکی کا لباس بہت سادہ اور سلیقے کا سلا ہوا تھا۔ کچھ عجیب سی خوبصورتی جھلک رہی تھی فرحین کے سراپے سے۔ زہرہ کا دل پل بھر کے لیے دھڑکا تھا۔
" وہ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔ دیکھنا چاہتی تھی' آپ کی خوبصورتی کی بڑی تعریف سنی تھی۔ اس سے پہلے کہ مشکوک ہوتی، فرحین نے رک رک کر جھوٹ کی ابتدا ' گو کہ زہرہ کے حسن میں کوئی کمی نظر نہ آئی تھی۔
"ہائے ربا۔۔۔۔ کنے۔۔۔۔۔ میرا مطلب کس نے آپ کومیری خوبصورتی کے بارے میں بتایا۔"
" نی رجو۔۔۔۔ جا جلدی سے استانی جی کے لیے لسی پانی لے کر آ۔ " تعریف عورت کی ازلی کمزوری جس کو سننے کے لیے ہر عورت ہر وقت تیار رہتی ہے۔ زہرہ کے رویے میں ایسا فرق آیا کہ بس نہیں چل رہا تھا فرحین کو سریہ بٹھا لے۔
" وہ۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ نے۔۔۔۔" کس کا نام لیتی، ابھی تو گاؤں میں سب انجانے ہی تھے۔
"چوہدری جی۔۔۔۔ سے۔۔۔۔ " بے ساختہ زبان سے نکل گیا۔
"ہائے میں مر جاواں' چوہدری جی سے۔۔۔۔ زہرہ تو اتھل پتھل ہو گئی' گویا ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
زہرہ کی سادگی پہ فرحین کو ترس آ رہا تھا، نجانے چوہدری شجاعت کا رویہ بے چاری کے ساتھ کتنا خراب تھا۔
اس کے آنے کی خبر سن کر بے جی بھی چلی آئیں۔ سفید کپڑوں میں ملبوس بارعب چہرے والی بے جی نے اس کے سلام کرنے پہ فرحین کا ماتھا چوم کر دعائیں دیں۔
بڑی سوہنڑی (پیاری) بچی اے۔ " سر پہ ہاتھ پھیرا۔
"بے جی کو بھی بتاؤ۔۔۔۔ استانی جی چوہدری جی کیا کہہ رہے تھے ؟ زہرہ خوشی سے بولی۔
"جی۔۔۔۔ بے جی چوہدری جی بتا رہے تھے کہ زہرہ بہت خوبصورت ہے، سلیقہ مند ہے۔ گھر کو اور میری ہر چیز کو بالکل سیٹ رکھتی ہے۔" فرحین نے بہت سنبھل کر کہنا شروع کیا۔
" مگر مجھ سے تو انہوں نے کبھی نہیں کہا۔ " زہرہ نے معصومیت سے کہا۔ اس پہ فرحین کو اپنے جھوٹ پہ شرمندگی کے احساس نے گھیر لیا۔ نجانے وہ درست سمت میں جا رہی تھی کہ نہیں؟
" استانی ہے، جھوٹ تھوڑی بولے گی۔ " بے جی کے پنجابی لہجے میں کہی گئی بات پر وہ گویا زمین میں دھنس گئی۔
" مگر جی ۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ زہرہ اگر تھوڑا سا پڑھ لے تو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جائیں۔
”ہاں بیٹا! یہ تو اس کی پرانی خواہش ہے۔ پتر جی! آپ زہرہ کو گھر آ کے پڑا (پڑھا) دیا کرو ۔ بے جی کے ملتجیانہ لہجے پہ فرحین شرمندہ ہی ہو گئی۔
" میں ضرور پڑھایا کروں گی بے جی ! میں روز خود ہی آ جایا کروں گی۔ آج تو میرا خیال ہے کہ ہم اپنے بیٹھنے کے لیے کوئی کمرہ ٹھیک کرلیں تاکہ پورے سکون سے پڑھائی ہو سکے۔ کیوں بھابھی جی! ٹھیک ہے نا؟" فرحین نے روانی سے کہتے ہوئے زہرہ کی تائید چاہی۔ اس رشتے پہ نجانے چوہدری کے کیا تاثرات ہوتے۔
"بے جی۔۔۔۔ پڑھائی۔۔۔۔۔ اب میں بڈھی طوطی کیسے پڑھوں گی۔" زہرہ ہچکچا کر فرحین کو دیکھنے کے بعد دبے دبے لہجے میں بوئی۔
" کمال کرتی ہیں بھابھی جی! آپ سے کس نے کہہ دیا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی پابندی ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان، عورت، مرد سب کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ بچپن سے اگر آپ کو موقع نہیں ملا تو کیا ہوا آپ اب تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔" فرحین نے پر زور لہجے میں اصرار کیا۔
" لیکن میں تلیم (تعلیم) حاصل کر کے کیا کروں گی۔" زہرہ نے بھولے پن سے پوچھا تو فرحین کو ہنسی آ گئی۔
" بھابھی جی ! عورت کی تعلیم ہی تو سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پڑھی لکھی ماں اپنے بچے کو زندگی گزارنے کا ایسا شعور دیتی ہے کہ وہ اپنی قابلیت پہ اپنے ملک اور اپنے خاندان کا نام روشن کرتا ہے۔ تعلیم یافتہ ماں ایک روشن چراغ کی طرح ہوتی ہے جس کی روشنی سے سب ہی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ فرحین کے جوش و خروش سے بے جی بھی متاثر ہو گئیں۔
" استانی جی ٹھیک کہہ رہی ہے پتر! چل اب بشیراں کو بتا دے کون سا کمرہ پڑائی (پڑھائی) کے لیے ٹھیک کرنا ہے۔ " بے جی نے حتمی فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔
" بے جی۔۔۔۔ اگر آپ لوگ برا نہ مانیں تو میں بھابھی جی کے ساتھ مل کے کمرہ ٹھیک کرلوں۔" فرحین نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
" آپ کیوں پریشان ہوتی ہو پتر جی !" بے جی نے محبت سے کہا۔
" کوئی بات نہیں بے جی ! مجھے تو خوشی ہوگی بھا بھی جی کے کام آتے۔ فرحین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے پلک جھپکتے میں زہرہ کو اپنی جگہ پہ کھڑی کردتے۔ گاؤں چھوڑ کر بھی نہیں جا سکتی تھی کہ اس طرح اس کا گاؤں کے لوگوں کی بہتری کا خواب ادھورا رہ جاتا۔
زہرہ کا صفائی کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ وہ تو اس وقت پاؤں پسار کے سونا چاہتی تھی۔ پر یہ استانی۔۔۔۔ زہرہ جمائی روکتے ہوئے کوفت کا شکار ہو گئی۔ "چلیں بھابھی جی!" فرحین کے اصرار یہ وہ جزبز ہو گئی۔ اسے تو کام کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔ ماں باپ کے گھر بھی نوکروں کی فوج تھی اور سسرال میں بھی وہ تو بس حکم چلانے کی عادی تھی لیکن تنک مزاج ہونے کے باوجود دل کی اچھی تھی۔ فرحین اس میں یہ شعور جگانا چاہتی تھی کہ وہ اپنی سلطنت کو کیسے بچا سکتی ہے' اپنے قدم جمانے کے لیے ایک بیٹے کی ماں بننا کافی نہیں' اسے جسمانی مشقت بھی کرنی پڑے گی۔
فرحین زبردستی زہرہ کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر نکلی۔ بے شمار کمروں والی حویلی کو اگر سلیقے سے سجایا جاتا تو بہترین لگتی۔ فی الحال تو کچھ کمرے بالکل خالی تھے' کچھ میں لکڑی کے کھوکھے' اناج کی بوریاں اور کسی میں بے شمار پیاز اور لہسن کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ حویلی میں رزق کی فراوانی تھی سب کچھ تھا سوائے صفائی' سلیقے اور ترتیب کے۔
کاش وہ اسے بتا سکتی کہ وہ اپنی سستی اور پھوہڑ پن کی وجہ سے اتنے اچھے گھر کا ناس مار رہی ہے اور چوہدری شجاعت کو اپنے آپ سے دور کر رہی ہے۔
ڈرائنگ روم کے نام پہ بننے والی بیٹھک برائے نام سامان کی وجہ سے اور زیادہ کشادہ لگ رہی تھی۔ رنگین پائیوں والی چند کرسیاں اور تخت پوش۔ اگر زہرہ چاہتی تو شہر سے جدید سے جدید سامان منگوا سکتی تھی مگر۔۔۔۔ فرحین دروازے میں کھڑی چاروں طرف دیکھنے کے بعد ذہن میں ایک فہرست کو ترتیب دے رہی جبکہ زہرہ بوریت اور نیند سے بوجھل پلکوں کے ساتھ جمائیاں روک روک کے نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔
" بھابھی جی ! کل تو اسکول سے چھٹی ہوگی' اس لیے میں کل صبح آ جاؤں گی لیکن آج میں آپ کو جو کام دے کر جاؤں گی وہ آپ نے ضرور کرتے ہیں۔" فرحین نے سنجیدگی سے کہا تو زہرہ خوش ہو گئی کہ آج تو نجات ملی جبکہ فرحین کرسی پہ بیٹھ گئی۔
"کاپی پینسل تو شاید نہ ہی ملے ، آپ زبانی سن لیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔" فرحین نے زہرہ کی طرف دیکھا۔
تیل سے چپڑے بال بڑی بڑی آنکھوں میں پھیلتا اس کاجل اچھی خاصی صورت کو ڈراؤنا بنا رہا تھا۔
" پہلے تو آپ نہا کر بالوں سے تیل نکالیں گی اس کے بعد آنکھوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنا ہے۔ اچھے سے کپڑے پہن کر بال کھلے چھوڑ کر سکھائیں۔ کھانے کون کون سے بنانے آتے ہیں؟ فرحین کے لب و لہجے اورعجیب و غریب احکامات پر زہرہ حیرت سے منہ کھول کر غائب دماغی سے اسے دیکھے گئی۔
" اوہ۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے۔" فرحین کو خود ہی احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئی ہے۔ ابھی تو دوستی کی ابتدا کی تھی' اس کی جلد بازی زہرہ کو اس سے متنفر بھی کر سکتی تھی۔
" آج آپ آرام کریں' میں کل باقی باتیں آپ کو سمجھاؤں گی۔" بو کھلا کر جلدی سے گھر سے باہر نکلی۔ اب بھلا زہرہ کیسے جان سکتی تھی کہ اس کے دل میں کیا ہے اور وہ کیوں یہ سب کرنا چاہتی ہے۔
"ایزی ۔۔۔۔۔ ایزی فرحین۔۔۔۔ زیادہ تیز مت بھاگو۔۔۔۔۔ جسٹ ریلیکس ۔" فرحین نے تیز قدموں کا ساتھ دیتی تیز دھڑکنوں کو سمبھلنے کی تاکید کرتے ہوئے رفتار کو کنٹرول کیا۔
وہ دل ہی دل میں آئندہ کے لیے پروگرام بناتی چلی جا رہی تھی۔ ڈھلتے سورج کی سرخی نیلے آسمان پہ پھیل رہی تھی۔ گاؤں کے لوگ گویا سورج کے اترنے کے انتظار میں رہتے تھے ، جھٹ پٹ کام سمیٹنا شروع کر دیتے۔ فرحین نے پسینہ پوچھتے ہوئے جیسے ہی کھلے دروازے میں قدم رکھا تو دھک سے رہ گئی۔ سامنے ہی صحن میں چوہدری شجاعت اپنے خاص ملازم کے ساتھ تشریف فرما نظر آئے۔ ایک چارپائی پر پھپھو بیٹھی ہوئی تھیں۔ اب گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی تھی کہ دیکھ لی گئی تھی نہ ہی فی الوقت سلیمانی ٹوپی میسر آ سکتی تھی کہ سر پہ پہن کر ان کے سامنے سے گزر کر اپنے کمرے میں گھس جاتی۔
"فری آ گئی۔ آو بیٹا فری! چوہدری صاحب کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔" پھپھو کی نظر جیسے ہی اس کے ساکت وجود پہ پڑی تو زور سے آواز دی۔ چوہدری شجاعت کی پُر شوق نظریں خود پہ محسوس کرکے دل و دماغ سلگ اٹھے۔ پھر نا چاہتے ہوئے بھی قدم اندر کی طرف بڑھا دیے۔ نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے کئی سوچیں ذہن پر حملہ آور ہو رہی تھیں۔
دل تو چاہا کہ کے۔۔۔۔۔ "آپ آنے کی جرات نہ ہی کرتے تو اچھا تھا مگر۔۔۔۔۔ " دبے دبے لہجے میں یہی کہ سکی۔
"آپ نے آنے کی تکلیف کیوں کی چوہدری صاحب۔"
" تکلیف کیسی جی۔۔۔۔ میں تو یہ پوچھنے آیا تھا کہ کل میں شہر جا رہا ہوں۔" چوہدری شجاعت پل بھر کے لیے رُکے' فرحین کِھل اُٹھی۔
" اسکول کی تعمیر کے سلسلے میں مجھے سامان لینے کے لیے شہر جانا پڑے گا' اگر آپ کو شہر سے کچھ چا ہیے تو بتا دیں۔"
چوہدری شجاعت نے اپنی پوری توجہ فرحین کے نازک وجود پر مرکوز کرتے ہوئے بڑے لگاوٹ
بھرے لہجے میں پوچھا تو فرحین کا دل چاہا ایک عدد بندوق منگوا لے۔
" اونہہ۔۔۔۔ " دانت پیسے مگر ہونٹوں پے زبردستی کی مصنوعی مسکراہٹ سجا کر رہ گئی۔
" بہت شکریہ چوہدری جی ! اسے بھلا کیا منگوانا ہوگا ۔ آپ نیا اسکول بنوا رہے ہیں یہی سب سے بڑی اور اچھی بات ہے۔ یہ تو فری کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوئی ہے۔ اب گاؤں کے سادہ اور معصوم بچے اچھے ماحول میں پڑھائی کر سکیں گے۔"
فرحین کی جگہ پھپھو نے بے حد متاثرہ لہجے میں کہا تو چوہدری شجاعت جزبز سے ہو گئے۔
"چوہدری صاحب ! میری ساری فرمائشیں تو میرے ابو پوری کرتے ہیں، البتہ آپ کو میں کچھ کتابوں کے نام لکھ کردوں گی تو پلیز آپ وہ ضرور لے آئیے گا۔"
فرحین نے بہت جلد ذہن میں انٹیریئر ڈیکوریشن اور کچھ امور خانہ داری کی کتابوں کے ناموں کو ترتیب دیتے ہوئے لہجے کو بڑی مشکل سے ہموار کرتے ہوئے منصوبے کو آگے بڑھایا۔
" اوہ۔۔۔۔۔ زہے نصیب۔۔۔۔ مجھے آپ کے کام آ کر بہت خوشی ہوگی۔ آپ کی خاطر تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔"
پھپھو کو دوسری طرف متوجہ دیکھ کر چوہدری شجاعت بڑے رومنٹک موڈ میں آ کر بولے تو فرحین دانت پیسں کر رہ گئی۔
" پھپھو! آپ نے چوہدری صاحب کو چائے پلائی؟ " فرحین کو ناگوار بوجھ کی طرح مہمان نوازی نبھانی پڑی۔" اوہ۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے۔" فرحین کو خود ہی احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئی ہے۔ ابھی تو دوستی کی ابتدا کی تھی' اس کی جلد بازی زہرہ کو اس سے متنفر بھی کر سکتی تھی۔
" آج آپ آرام کریں' میں کل باقی باتیں آپ کو سمجھاؤں گی۔" بو کھلا کر جلدی سے گھر سے باہر نکلی۔ اب بھلا زہرہ کیسے جان سکتی تھی کہ اس کے دل میں کیا ہے اور وہ کیوں یہ سب کرنا چاہتی ہے۔
"ایزی ۔۔۔۔۔ ایزی فرحین۔۔۔۔ زیادہ تیز مت بھاگو۔۔۔۔۔ جسٹ ریلیکس ۔" فرحین نے تیز قدموں کا ساتھ دیتی تیز دھڑکنوں کو سمبھلنے کی تاکید کرتے ہوئے رفتار کو کنٹرول کیا۔
وہ دل ہی دل میں آئندہ کے لیے پروگرام بناتی چلی جا رہی تھی۔ ڈھلتے سورج کی سرخی نیلے آسمان پہ پھیل رہی تھی۔ گاؤں کے لوگ گویا سورج کے اترنے کے انتظار میں رہتے تھے ، جھٹ پٹ کام سمیٹنا شروع کر دیتے۔ فرحین نے پسینہ پوچھتے ہوئے جیسے ہی کھلے دروازے میں قدم رکھا تو دھک سے رہ گئی۔ سامنے ہی صحن میں چوہدری شجاعت اپنے خاص ملازم کے ساتھ تشریف فرما نظر آئے۔ ایک چارپائی پر پھپھو بیٹھی ہوئی تھیں۔ اب گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی تھی کہ دیکھ لی گئی تھی نہ ہی فی الوقت سلیمانی ٹوپی میسر آ سکتی تھی کہ سر پہ پہن کر ان کے سامنے سے گزر کر اپنے کمرے میں گھس جاتی۔
"فری آ گئی۔ آو بیٹا فری! چوہدری صاحب کب سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔" پھپھو کی نظر جیسے ہی اس کے ساکت وجود پہ پڑی تو زور سے آواز دی۔ چوہدری شجاعت کی پُر شوق نظریں خود پہ محسوس کرکے دل و دماغ سلگ اٹھے۔ پھر نا چاہتے ہوئے بھی قدم اندر کی طرف بڑھا دیے۔ نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے کئی سوچیں ذہن پر حملہ آور ہو رہی تھیں۔
دل تو چاہا کہ کے۔۔۔۔۔ "آپ آنے کی جرات نہ ہی کرتے تو اچھا تھا مگر۔۔۔۔۔ " دبے دبے لہجے میں یہی کہ سکی۔
"آپ نے آنے کی تکلیف کیوں کی چوہدری صاحب۔"
" تکلیف کیسی جی۔۔۔۔ میں تو یہ پوچھنے آیا تھا کہ کل میں شہر جا رہا ہوں۔" چوہدری شجاعت پل بھر کے لیے رُکے' فرحین کِھل اُٹھی۔
" اسکول کی تعمیر کے سلسلے میں مجھے سامان لینے کے لیے شہر جانا پڑے گا' اگر آپ کو شہر سے کچھ چا ہیے تو بتا دیں۔"
چوہدری شجاعت نے اپنی پوری توجہ فرحین کے نازک وجود پر مرکوز کرتے ہوئے بڑے لگاوٹ
بھرے لہجے میں پوچھا تو فرحین کا دل چاہا ایک عدد بندوق منگوا لے۔
" اونہہ۔۔۔۔ " دانت پیسے مگر ہونٹوں پے زبردستی کی مصنوعی مسکراہٹ سجا کر رہ گئی۔
" بہت شکریہ چوہدری جی ! اسے بھلا کیا منگوانا ہوگا ۔ آپ نیا اسکول بنوا رہے ہیں یہی سب سے بڑی اور اچھی بات ہے۔ یہ تو فری کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوئی ہے۔ اب گاؤں کے سادہ اور معصوم بچے اچھے ماحول میں پڑھائی کر سکیں گے۔"
فرحین کی جگہ پھپھو نے بے حد متاثرہ لہجے میں کہا تو چوہدری شجاعت جزبز سے ہو گئے۔
"چوہدری صاحب ! میری ساری فرمائشیں تو میرے ابو پوری کرتے ہیں، البتہ آپ کو میں کچھ کتابوں کے نام لکھ کردوں گی تو پلیز آپ وہ ضرور لے آئیے گا۔"
فرحین نے بہت جلد ذہن میں انٹیریئر ڈیکوریشن اور کچھ امور خانہ داری کی کتابوں کے ناموں کو ترتیب دیتے ہوئے لہجے کو بڑی مشکل سے ہموار کرتے ہوئے منصوبے کو آگے بڑھایا۔
" اوہ۔۔۔۔۔ زہے نصیب۔۔۔۔ مجھے آپ کے کام آ کر بہت خوشی ہوگی۔ آپ کی خاطر تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔"
پھپھو کو دوسری طرف متوجہ دیکھ کر چوہدری شجاعت بڑے رومنٹک موڈ میں آ کر بولے تو فرحین دانت پیسں کر رہ گئی۔
" پھپھو! آپ نے چوہدری صاحب کو چائے پلائی؟ " فرحین کو ناگوار بوجھ کی طرح مہمان نوازی نبھانی پڑی۔
" اس کی ضرورت نہیں فرحین جی! میں تو بس آپ کو دیکھنے آیا تھا۔ اوہ۔۔۔۔ مم۔۔۔۔ میرا مطلب ہے پوچھنے آیا تھا کہ۔۔۔۔ " چوہدری شجاعت اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب آ کر کھڑے ہوئے اور پھسلتی زبان پہ بمشکل قابو پایا۔
فرحین کا خون بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچ گیا۔
" کتنے دنوں کا پروگرام ہے چوہدری صاحب !" دھڑکتے دل سے پوچھا۔
"فرحین جی! شہر میں زمینوں کے سلسلے میں کچھ کی ضروری کام ہے۔ اور قانونی معاملات بھی دیکھنے ہیں تقریباً دو' تین مہینے تو لگ ہی جائیں گے۔ آپ کو تو پتا ہے نا جی، ایسے معاملات کا۔ پر آپ فکر نہ کریں اس سے زیادہ دن نہیں لگیں گے۔" چوہدری شجاعت نے یوں کہا جیسے فرحین ان کی جدائی کے صدمے سے بے ہوش ہونے والی ہے۔ فرحین بے بسی کے احساس سے مسکرا کر رہ گئی اور چوہدری شجاعت خوش فہمیوں کے جھولے میں جھولتے بادل نخواستہ خدا حافظ کہتے ہوئے بیرونی دروازے کی سمت بڑھ گئے۔ فرحین نے سکون کا گہرا سانس بھرتے ہوئے عجلت میں دروازے کو اندر سے کنڈی لگا لی۔
زہرہ کی بھلائی سوچتے ہوئے سالوں پہ محیط کام کو پندرہ دن میں پورا کرنا تونا ممکن تھا لیکن گھریلو پیمانے پہ ڈیکوریشن ، کھانا پکانے اور دوسرے ایٹی کیٹس پر بھی توجہ دینی تھی اور تھوڑے وقت میں بہت زیادہ کام کے لیے اسے اپنے مددگاروں کو تو بلانا ہی پڑے گا۔
" ثمین۔۔۔ ثمین۔۔۔۔ "صبا اس کے سر پہ کھڑی ہوں چلا رہی تھی جیسے وہ سات سمندر پار ہو۔
"کیا مصیبت ہے۔ " ثمین نے ٹیسٹ کی تھکن اتارنے کے لیے پسندیدہ ناول میں سر گھسایا ہوا تھا۔ صبا کی بے وقت آمد زہر لگ رہی تھی۔ لہذا کڑے تیور کے ساتھ گھورا۔
" فری آپی کا فون تھا' انہوں نے ہمیں گاؤں بلایا ہے۔" صبا نے کارپٹ پر ٹہلتے ہوۓ اطلاع دی۔
"واٹ۔" ثمین اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ناول سائیڈ پر لڑھک گیا۔
" ابھی تو واپس آئے ہیں نا بابا۔۔۔ میرا دماغ اتنا خراب نہیں کہ اس نا پسندیدہ ماحول اور لوگوں میں دوبارہ چلی جاؤں۔ نو وے۔ " ثمین نے فیصلہ کن لہجے میں رکھائی سے کہا تو صبا جو مسلسل اسے گھور رہی تھی، اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
" عقل کی دشمن' پہلے پوری بات تو سن لو۔ آپا کہہ رہی تھیں کہ واپسی پہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی آئیں گی۔" صبا نے آخر میں ڈرامائی انداز اپنایا۔
" ہرا۔۔۔۔ ؔ اچھی خبر بعد میں کیوں بتائی' تب تو ہم آج ہی چلیں گے۔" ثمین جھٹ تیار ہو گئی۔
"ہم سے مطلب۔۔۔۔ " صبا نے چونک کر پوچھا۔
" تم اور میں۔۔۔۔" مزے سے جواب ملا۔
”میری اماں جوتوں سے سر گنجا کردیں گی۔ " صبا نے ہری جھنڈی دکھائی۔
" پلیز صبا۔۔۔۔ صرف آخری بار سر گنجا کرا لو' پلیز۔۔۔" ثمین نے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے منت بھرے لہجے میں کہا۔
"کیا۔۔۔۔ " صبا کڑے تیوروں سے اس کی طرف بڑھی لیکن پھر زور سے ہنس پڑی۔
" یہ ہوئی نا بات۔ چلو آب تیاری کر لیں۔ ابھی کھانے پینے کی شاپنگ بھی کرنی ہے۔ " ثمین کی زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی چلنے لگے۔
" یاد رکھنا اس بار کسی سے ایڈریس نہیں پوچھنا۔" صبا کو پچھلی درگت بہت اچھی طرح یاد تھی۔
" او کے میڈم ! ویسے بھی ہم خود راستہ یاد کر چکے ہیں۔ "ثمین نے ڈینگ ماری۔
تیزدھوپ' ساکن پھول پتے' ہوا ندارد جس کی وجہ سے فضا میں بھی گھٹن کا احساس بڑھ سا گیا تھا۔ گرمیاں جاتے جاتے بھی کتنا وقت لے رہی تھیں۔ کھلتے ہوئے خوبصورت رنگوں کے ہلکے پھلکے کپڑے بھی دھوپ کی شدت کے احساس کو کم نہ کر سکے۔