بکھرے خوابوں کی تعبیر
قسط نمبر:4
اردو کہانیاں


لمبا سفر کسی عذاب کی طرح لگ رہا تھا ، آپا کی واپسی کا لالچ نہ ہوتا تو میں بھی ہاسٹل سے باہر قدم نہ نکالتی۔
"کاش کوئی با عزت لفٹ مل جائے۔" صبا نے بیگ گھسیٹتے ہوئے حسرت بھری خواہش کا اظہار کیا۔
" یہ لفٹ کی کون سی قسم ہے۔ " ثمین نے کوفت سے پسینہ پونچھتے ہوئے کو پوچھا۔
" ویسی ہی جیسی آتے وقت ملی تھی۔ " صبا کو سارا منظر یاد کر کے ہنسی آ گئی۔
" حماقت تھی وہ ہماری اور ماؤں کی دعائیں ہیں جو ہم بحفاظت پہنچ گئے، ورنہ آج کل کے حالات ایسے نہیں کہ۔۔۔۔ " ثمین ؎ نے سنجیدہ لہجے میں بات ادھوری چھوڑ دی کہ اگلا جملہ صبا بخوبی سمجھ سکتی ہیں۔
" ٹھیک کہتی ہو' آئندہ ایسی حماقت نہیں کریں گے۔" ان کی نیک سوچ کا پھل یہ ملا کہ جلد ہی مطلوبہ بس آ گئی اور دونوں محتاط انداز میں بس پر سوار ہو گئیں۔
ویک اینڈ پہ فراز گاؤں جانے کی تیاری کر رہا تھا اور رمیز اسے للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس امید پہ کہ شاید اس بار بھی فراز اسے چلنے کی دعوت دے دے۔
" اور تیاری ہو گئی تمہاری ؟" ساری کارروائی دیکھنے کے بعد بھی نجانے کس امید پہ پوچھا۔ فراز نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کچھ سوچا۔
" تمہارا کیا پروگرام ہے۔" اچانک ہی سر اٹھا کر پوچھا۔
رمیز کا دل بلیوں اچھلنے لگا لیکن بظاہر مظلوم سا چہرہ بنائے رکھا۔
"میرا کیا ہے۔۔۔۔ نہ گھر ' نہ گھاٹ پڑا رہوں گا۔" یہیں کمرے میں بند ہو کر۔ " بے چارگی بھرا لہجہ اپناتے ہوئے چہرہ مزید لٹکا لیا۔
"تو پھر گھامڑ میرے ساتھ کیوں نہیں چلتے۔ میں سمجھا شاید کوئی ضروری کام نہ ہو تب ہی میں خاموش تھا۔ چلو اب جلدی سے دو جوڑے شاپر میں رکھو اور
نکل چلو۔ " فراز نے جلدی مچا دی۔
" میرا بیگ تو پہلے سے تیار ہے۔ " رمیز شوخ لہجے میں چہکا اور بیگ جھپٹ کر فراز سے بھی پہلے دروازے سے باہر دوڑا ۔ فراز بھی مسکراتا ہوا لاک لگانے لگا۔
ڈھلتے دن کے ساتھ گرمی کا زور قدرے ٹوٹ رہا تھا یا شاید گرم مہینے کا اختتام ہو رہا تھا جب ہی فضا میں قدرے آسودگی تھی۔
گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہو چکا تھا۔ ساری گلیاں اندھیرے میں ڈوبی ، سنسان پڑی تھیں۔ فراز اپنے موبائل کو روشن کیے ہوئے تھا۔
"یار! اس وقت گھر میں کھانا کیا پکا ہو گا؟" رمیز نے پیٹ یہ ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
" اگر بے جی نے سبزی بھی بنائی ہوگی تو بھی بے مثال ہوگی اور اگر بھابھی نے مرغی بھی پکائی ہوگی تو بے مزہ ہوگی۔" آخر میں فراز کا لہجہ روہانسا ہو گیا تو رمیز ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔ پھر دروازہ کھلتے ہی بے جی کا مہربان مشفق اور منتظر چہرہ آیا میں ان کے گلے لگ گیا۔
" کیسا ہے رمیز پتر ؟" بے جی کی شفقت میں رمیز کو بھی بھر پور حصہ ملا۔
" پہلے تو ٹھیک تھا بے جی! پر اب بھوک سے بُرا حال ہے۔“ رمیز نے بے چارگی سے پیٹ پہ ہاتھ پھیرا۔
" آج تمہاری بھرجائی نے بہت اچھا کھانا بنایا ہے۔ جلدی نال ہاتھ دھو کے آجاؤ۔"
بے جی ہدایت دے کر بھا بھی کے ہاتھ کے کھانے کا مژدہ سنا نجانے کہاں چلی گئیں۔ رمیز اور فراز ایک دوسرے کو ہمدردی سے دیکھتے ہوئے فراز کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ لمبے سے کوریڈور میں قدم رکھتے ہی فراز کو کسی غیر معمولی تھا پن کا احساس ہوا۔ ٹھٹک کر رکنا پڑا۔
سرخ اینٹوں کے فرش پہ عرصے سے گندگی اور سارے گھر میں بے ترتیبی کا راج دیکھا تھا لیکن آج۔۔۔ کچھ ایسا نیا کیا تھا۔ بلب کی روشنی میں فرش کا رنگ نمایاں اور نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ گملے قطار میں لگے ہوئے تھے۔ وسیع صحن میں جہاں ہر طرف بھینسوں کے پٹھے (چاره) اور توڑی کے ڈھیروں کے علاوہ سبزیوں کے بے ترتیب انبار پڑے رہا کرتے تھے۔ جہاں صفائی اس انداز میں ہوتی تھی کہ کچرا اٹھا کر نیچے سے جھاڑو دے' کچرا دوبارہ وہیں سجا دیا جاتا تھا مگر آج تو لگ رہا تھا کہ واقعی محنت کے ساتھ صفائی ہوئی تھی۔ رمیز اور فراز حیرت زدہ سے آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک کمرے کے کھلے دروازے سے ایک اور حیران کن منظر دیکھا۔
"یا اللہ یہ تین ماہ میں میرے گھر کو کیا ہو گیا۔ کس کی بھلی نظر لگ گئی کہ ایک عدد ڈائننگ ٹیبل اور اس کے گرد کرسیاں اور میز پہ کھانا۔ آخر یہ ہے کیا ماجرا۔۔۔۔ آخر وہ کہاں ہے؟" بلند حیرت زدہ آواز میں بڑبڑاتے ہوئے فراز نے نہ جانے کس چیز کی تلاش میں نظریں چاروں جانب گھمائیں۔
" کیا ڈھونڈ رہے ہو۔ " رمیز بھی اس کایا پلٹ پر کسی حد تک خوف زدہ سا ہو رہا تھا جیسے ابھی کہیں سے جن حاضر ہو کر کہے گا "حکم میرے آقا۔"
" ارے جادو کی چھڑی ڈھونڈ رہا ہوں جو اتنا عرصہ نہ جانے کس تہہ خانے میں چھپی ہوئی تھی۔
" اوئے پترو۔۔۔۔ و تم لوگ ابھی تک نہیں ہو ہاتھ منہ تو (دھو) کے جلدی آؤ۔ نئیں تے کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا۔"
دونوں بے صبری سے کرسیاں گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔ بڑا اچھا ٹیبل کور تھا' کرسیاں بھی فوم کشن والی۔ بڑے اچھے اچھے خوبصورت نقش و نگار کے برتن نہ جانے کیسے پیٹی سے باہر آ گئے تھے۔ اس حویلی میں بہت کچھ تھا لیکن سلیقہ نہیں تھا۔ فراز یہ راز جاننے کے لیے بے چین تھا کہ آخر کس نے اس کے گھر کے چھپے ہوئے خزانے اور سلیقے کو باہر نکالا ہے کہ آج اپنا گھر ہی اجنبی اور بہت اچھا اور نیا لگ رہا تھا۔
"بے جی۔۔۔۔ بھابھوجی کہاں ہیں؟"
" آرہی ہے۔ تیرے لیے بکرے کے گوشت کا پلاؤ بنایا ہے۔ " بے جی کی اطلاع پر پیٹ میں چوہوں کا رقص تیزی سے شروع ہو گیا۔
"واؤ۔" رمیز نے ڈونگے سے ڈھکن اٹھایا تو چکن قورمے نے ٹوٹ پڑنے کی دعوت دی اور رمیز جنٹل مین بسم اللہ کا نعرہ مار کر پلیٹ میں سالن بھرنے لگا۔ جبکہ فراز حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس خوبصورت خاتون کو دیکھ رہا تھا جس کی شکل اس کی بھابھی زہرہ سے بہت مل رہی تھی۔ اس کی سفید رنگت پہ سرخ اور کالے پرنٹ کا مناسب سلا ہوا سوٹ بہت کھل رہا تھا۔
زہرہ نے مسکراتے ہوئے پلاؤ کی ڈش فراز کے سامنے رکھی تو فراز نے گھبرا کر سلام جھاڑا ۔
" جیوندا ره میرا ویر۔ " زہرہ کا لہجہ پہچان کر فراز ہوش میں آ گیا۔
" بھابھو جی۔۔۔۔ میری بھابھو کہاں ہے؟" فراز شرارت سے ان کے آگے پیچھے گھوم کر دیکھنے لگا۔ اس کو میں نے تہہ خانے میں بند کر دیا ہے، بڑی کام چور تھی۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی ڈھیر ساری نعمتوں سے بے خبرسست کھا کھا کے موٹی ہو رہی تھی۔ تھوڑا وقت اور گزر جاتا تو بہت دیر ہو جاتی۔ میں نے بے جی کی اجازت سے ایسا تالا لگایا ہے کہ دوبارہ نہیں کھلے گا۔ " زہرہ کے منہ سے ایسی باتیں سن کر فراز کو چکر سے آ گئے۔
" فراز! تو پہلے کھانا کھا پھر بھابھو کی باتیں سننا ورنہ بے ہوش ہو جائے گا۔“ رمیز نے فراز کو زبردستی کرسی پہ پٹخا۔
فراز کو بھی یہی مناسب لگا اور پلیٹ میں ڈھیر سارا پلاؤ نکال لیا اور پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی بے حد لذت محسوس ہوئی' وہ تیزی سے کھانے لگا بے جی اور حاجرہ ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگیں۔
" آپ لوگ کیوں نہیں کھا رہیں، کھانے میں کچھ ملایا تو نہیں۔" فراز نے چونک کر رازداری سے پوچھا تو دونوں خواتین کھل کے ہنس پڑیں۔
" نئیں پتر! مجھ سے تو ان کرسیوں پہ بیٹھا نہیں جاتا اور حاجرہ۔۔۔۔ کھڑی کیوں ہے پتر! میٹھا بھی لے آ پھر میں اور میری دھی (بیٹی) مل کر کھانا کھائیں گے تھلے (نیچے) بیٹھ کے۔ " بے جی کی محبت بھری بات ابھی منہ میں تھی کہ حاجرہ بوتل کے جن کی طرح غائب ہو گئی۔ زہرہ نے ڈرامائی انداز میں ڈش درمیان میں رکھی اور شفاف ڈش میں چاندی کے ورق کے نیچے سے جھانکتے شاہی ٹکڑے دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ " بھائی ! سنبھالنا کہ چلا میں۔" فراز نے گرنے کے لیے رمیز کا شانہ استعمال کیا۔
" اور۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں کس پر گروں؟" رمیز نے بمشکل فراز کو سیدھا کیا تو رمیز کی ہونق شکل دیکھ کر فرازکو ہنسی آ گئی۔
"بے جی بس بہت ہو گئی ، آپ مجھے بتاتی کیوں نہیں کہ آخر ہمارے گھر میں یہ سب کیسے اور کیوں ہوا ہے ؟" فراز آخر جھنجلا گیا۔
"کیوں کا کیا مطلب۔۔۔۔ میری دھی (بیٹی) سیکھ گئی ہے کہ گھر کا اور اپنا خیال کیسے رکھتے ہیں۔ " بے جی کا اطمینان قابل دید تھا۔
" مگر یہ خیال آیا کیسے، کس نے جادو کی چھڑی گھمائی ہے؟" فراز کا تجسس سے برا حال تھا۔
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے پتر جی ! دیر سے سہی پر میری جھلی (پاگل ) دھی (بیٹی) نوں عقل تے آ گئی اے نا۔ " بے جی کا جواب بظاہر مکمل تھا لیکن فراز کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔
" مگر۔۔۔۔ بے جی۔۔۔۔" فراز نے پھرانی الجھن کا اظہار کرنا چاہا۔
" مگر دے بچے۔۔۔۔ بس تو یہ سمجھ لے کہ ایک نیکی کی پری سے دوستی ہو گئی ہے ہماری۔ " بے جی نے پھر گول مول سا جواب دیا ۔
" نیکی کی پری۔" فراز نے زیر لب دہرایا ۔ عقل کے گھوڑے چاروں جانب دوڑانے کے باوجود اپنے خاندان کی کوئی بھی ایسی قابل ذکر خاتون کا نام ذہن میں نہ آیا جو سلیمانی ٹوپی پہن کر رہتی تھی کہ کبھی نظرہی نہ آئی۔
" واہ۔۔۔ بھابھی جی۔۔۔۔ مزہ آ گیا آج تو۔۔۔۔ " رمیز پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھنے کی کوشش میں دوبارہ بیٹھ گیا۔
"میرا خیال ہے میں گدھا گاڑی بلوا لیتا ہوں۔ مجھ سے تو یہ بار گراں اٹھایا نا جائے گا۔" فراز کی حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چھیڑا۔
"ذرا خود تو اٹھ کر دکھاؤ۔" رمیز نے جلتے ہوئے چیلنج کیا تو فراز پہلو بدل کر رہ گیا کہ دونوں کی حالت یکساں تھی۔
بہر حال اٹھنا تو تھا ہی، گرتے پڑتے بمشکل کمرے تک پہنچ سکے۔ حد سے زیادہ بھرے پیٹ کے ساتھ قالین پر لڑھکے تو صبح تک بے خبر پڑے رہے۔
صبح کمرے سے نکلتے ہی مٹی کی سوندھی خوشبو نے استقبال کیا۔ سرخ اینٹوں کا فرش دھل کر نکھر گیا تھا۔ امرود' انار اور جامن کے درخت بڑی شان سے کھڑے تھے۔ وسیع و عریض صحن ہر طرح کے فالتو سامان اور گند سے پاک عجیب نظارہ پیش کر رہا تھا۔
ناشتے کے لیے تیار ہو کر آئے تو کھانے کی ٹیبل پہ سجے ناشتے نے بھوک میں اضافہ کر دیا۔ پراٹھے' فرائی انڈے، آملیٹ، دہی، اچار خوبصورت برتن،
مناسب ترتیب۔۔۔۔
"رمیز تو ناشتہ شروع کر میں ابھی آیا۔ " فراز کہہ کر باہر نکل گیا۔ اس کے گھر میں اچانک اتنا بڑا انقلاب آگیا، آخر کیسے؟
گھر وہی تھا، سامان بھی وہی لیکن اتنے سالوں کا پڑا ہوا اضافی فالتو سامان غائب تھا اور سادہ سے فرنیچر کی صفائی اور سجاوٹ نے گھر کا نقشہ ہی بدل دیا تھا مگر۔۔۔۔
سوچتا ہوا فراز کچن کے دروازے تک چلا آیا لیکن دروازہ اندر سے بند تھا۔ حیرت انگیز۔۔۔۔ فراز نے دروازے پہ ہلکا سا دباؤ ڈالا اور دروازہ جھٹ سے کھل گیاغیر متوقع طور پر۔
کئی سریلی چیخوں نے فراز کا استقبال کیا۔ بڑے سے کچن کے فرش پہ بچھی چٹائی پر چند خواتین ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں۔ کسی کے ہاتھ دہی میں لتھڑے ہوئے تھے اور کسی کا منہ بڑے نوالے کی وجہ سے پھول گیا تھا۔ شاید انہیں کسی کے آنے کی توقع نہیں تھی' ورنہ اتنی خوف زدہ نہ ہو تیں۔
"فراز پتر کچھ چاہیدا اے (کچھ چاہیے )۔ "بے جی" اس کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔
"جی۔۔۔۔ بے جی۔۔۔۔ آپ نے بتایا نہیں کہ مہمان آئے ہوئے ہیں۔ " فراز نے سرگوشی میں پوچھا۔
" یہ تیرے مہمان نئیں۔ زہرہ کی سہیلیاں ہیں۔ تو جا کے ناشتہ کر میں آبھی آتی ہوں۔ " بے جی نے اسے جلدی سے بھگانا چاہا۔
" مگر بے جی؟" فراز نے کن اکھیوں سے کچھ کچھ جانے پہچانے چہروں کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔
" اچھا چل' میں تیرے ساتھ چلتی ہوں۔ آ جا میرا پتر! " بے جی اسے بچوں کی طرح پچکارتی کھانے والے کمرے میں لے آئیں۔
" بے جی ! جب تک آپ مجھے اس ساری کایا پلٹ کے بارے میں نہیں بتائیں گی میں ناشتہ نہیں کروں گا۔ " فراز نے ڈھٹائی بھری ناراضی سے کہا۔
" اپنے پیو (باپ) کی طرح تو بھی بڑا ضدی ہے پتر! تجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ تیری پرجائی کو خدا نے اتنی اچھی سہیلی دے دی' وہی اپنی نئی استانی اور اس کی بہن جنہوں نے اپنی زہرہ کو چار دن کے اندر اندر اتنا سکھا پڑھا دیا ہے کہ اس نمانی کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنا کتنا نقصان کر رہی تھی۔ لے ہو گئی تسلی۔ چل اب ناشتہ کر میرا پتر! میں ذرا ان بچیوں کو دیکھوں، شرما گئی تھیں بے چاریاں ۔ " پوری داستان سنانے کے بعد وہ چل پڑیں اور فراز کسی حد تک مطمئن ہونے کے بعد زہرہ کے ذاتی نقصان پر الجھن کا شکار ہو کر ناشتے کے ساتھ بھی صحیح انصاف نہ کر سکا۔
ناشتے کے بعد وہ رمیز کو لے کر گاؤں کا چکر لگانے نکل پڑا۔ اسکول کی تعمیر دھڑا دھڑ ہو رہی تھی' اسکول کی اچانک تعمیر کی وجہ بھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ چوہدری شجاعت نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی تھی۔ وہ تینوں تیزی سے اپنے گھر کی طرف رواں تھیں جب فراز نے انہیں جاتے دیکھ لیا اور بلا ارادہ ہی پکار بیٹھا۔ تینوں حیرت زدہ سی پلیٹیں ۔ گیارہ اور بارہ کے بیچ کا وقت تھا۔ گلیاں تقریبا سنسان تھیں ۔
"جی فرمائیے۔ " سوالیہ نشان تین دلکش چہروں پر سج گئے۔ رمیز نے فراز کو دیکھا۔
" میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ " فراز سوچے بغیر کہہ گیا۔
" یہ کام آپ کی بے جی کر چکی ہیں ۔ " ثمین نے رکھائی سے کہہ دیا ۔ "اگر آپ لوگوں کو شہر جانے کے لیے لفٹ چاہیے تو ضرور بتائیے گا۔ " رمیز بھی بے تکے پن سے بول پڑا۔ صبا اور ثمین کے منہ بن گئے۔ "آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔" ثمین بڑ بڑائی۔
" آپ کا بہت بہت شکریہ چوہدری صاحب' اچھا چو ہوا آپ مل گئے، میں سوچ رہی تھی کہ ساری ذمہ داری کس کو سونپ کر جاؤں۔ آپ اگر مناسب سمجھیں تو ہمارے ساتھ گھر تک چلیں ، میں آپ کو ساری تفصیل سمجھانا چاہتی ہوں۔" فرحین کے سنجیدہ لہجے پہ فراز پریشان سا ہو گیا۔
"جی ضرور چلیے ۔ صرف چائے کے دو کپ در کار بھائی ہوں گے کیونکہ بے جی اسٹرونگ چائے کے خلاف ہیں۔" رمیز نے للچا کر کہا۔
" شیور وائے ناٹ۔ " فرحین خلوص سے مسکرائی اور چھوٹا سا قافلہ فرحین کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
"فری بیٹا! میں نے سامان پیک کر لیا ہے، کھانا کھاؤ اور پھر ہم لوگ نکلیں گے۔" جیسے ہی گھر کی دہلیز پار کی ' پھپھو دیکھتے ہی بول پڑیں۔
"تم دونوں چائے بناؤ۔" فرحین نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ثمین کو سرزنش کرتے ہوئے نرمی سے کہا تو ہ منہ پھلائے صحن کی طرف بڑھ گئیں۔ فرحین
رمیز اور فراز کے ساتھ برآمدے میں رکھی کرسیوں پہ بیٹھ گئی۔
"آپ لوگ واپس جا رہے ہیں، سارے کام ادھورے رہ جائیں گے میڈم ' فراز نے الجھن زدہ لہجے میں کہا۔
کسی کے جانے سے کام ادھورا نہیں رہتا۔ میرا جانا بہت ضروری ہے۔ اسکول کی تعمیر ایک روشن پہلو ہے یہ ادھورا کام اب آپ پورا کریں گے۔ آپ کے بڑے بھائی شاید دوبارہ سے اسکول کے خلاف ہو جائیں یا اس کی تعمیر رکوا دیں لیکن امید کا چراغ اب بجھنا نہیں چاہیے۔ آپ اس گاؤں کے مالک ہیں، بچوں کا آپ پر حق ہے، انہیں اچھی تعلیم دینا آپ کا فرض ہے۔ شاید اس کے لیے آپ کو اپنے بھائی کے خلاف جانا پڑے لیکن آپ جائیے ضرور کیونکہ آپ کے بھائی بہت غلط کرنا چاہتے ہیں' وہ۔۔۔۔۔ سنجیدگی سے بولتی فرحین جھجک کر خاموش ہوگئی۔ پس منظر میں ثمین اور صبا کی لڑائی ہی سنائی دے رہی تھی جو لکڑی کا چولہا جلاتے ہوئے کوفت کا شکار تھیں۔
"میڈم! میں ابھی تک الجھن کا شکار ہوں۔ آپ پلیز وضاحت کریں کہ اصل میں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔ " فراز نے بڑے سلجھے ہوئے انداز میں وضاحت
چاہی۔
" آپ کو اس بات پر حیرت نہیں کہ آخر آپ کے بھائی اسکول بنانے پہ اچانک راضی کیسے ہوگئے؟" فرحین نے کمزور لہجے میں پوچھا۔
" کیوں نہیں، حیرت تو آپ کو میرے چہرے پہ لکھی نظر آنی چاہیے۔" فراز خفیف سے انداز میں مسکرایا۔
اگر آپ کے بھائی۔۔۔۔ آپ کی بھا بھی کی جگہ کسی اور لڑکی کو دینا چاہیں تو۔۔۔۔" فرحین نے خوفناک سوال کیا۔ فراز کے اعصاب تن گئے۔
" نا ممکن۔ یہ خیال بھی کیوں آیا آپ کے دماغ میں؟" غصیلے لہجے پہ قابو پائے بغیر خشک لہجے میں کہا۔
" اپنے بھائی کو اس ناپسندیدہ فیصلے سے روکنے کے لیے آپ کیا کریں گے۔" اب فرحین نے مضبوط اور فیصلہ کن لہجے میں پوچھا۔
" سب کچھ ۔۔۔۔ اپنی بھابھی کو اس دکھ سے بچانے کے لیے آخر حد تک چلا جاؤں گا۔ " فراز جوش میں کھڑا ہو گیا۔ رمیز بھی اب سنجیدہ ہو چکا تھا۔
" ویری گڈ۔ میں بھی یہی چاہتی ہوں۔ اصل میں مجھے پتا چلا تھا کہ آپ کے بھائی اپنی بیوی میں جو خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے وہ اب انھیں کسی اور میں نظر آ رہی ہیں' لہذا وہ دوسری شادی ضرور کریں گے تب میں نے فیصلہ کیا تھا کہ آپ کی بھابھی کو ویسی ہی لڑکی بنا دوں گی جیسی چوہدری صاحب چاہتے ہیں۔ کوشش تو میں نے بہت کی ہے' رزلٹ بھی اچھا نکلا ہے لیکن تھوڑے وقت میں زیادہ کام زہرہ بھابھی کو الجھا سکتا تھا، اس لیے یہ کام میرے جانے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ وہ اس طرح کہ کبھی آپ زہرہ بھابھی کو شہر لائیں گے اور کبھی۔۔۔۔ " فرحین پل بھر کو رکی کہ بالآخر ثمین چائے لے ہی آئی تھی۔
پسینے میں نہائی یہ نازک سی خوبصورت لڑکی اس وقت قابل رحم لگ رہی تھی اور ٹرے آگے کرتے ہوئے اس کی شفاف پیشانی پہ پسینے کے ساتھ ناگواری کی کئی سلوٹیں نظر آ رہی تھیں۔ فراز کو ہنسی آ گئی جسے چھپانے کے لیے کپ ہونٹوں سے لگایا تو ہونٹ جلنے کی خوشی ثمین کو ہوئی اور وہ مسرور سی ہو کر پلٹ گئی۔
" اور کبھی۔۔۔۔ " رمیز نے فرحین کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
" کبھی میری یہ دونوں بہنیں یہاں آ کر زہرہ بھابھی کی کلاس لیا کریں گی۔" فرحین نے ثمین کے تپے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے مزے سے بات مکمل کی تو وہ غصے سے پاؤں پٹختی کمرے میں چلی گئی۔
" لگتا ہے آپ کی بہن کو خدمت خلق سے الرجی ہے۔" فراز نے اونچی آواز میں کہا۔ حالانکہ وہ آسانی سے ان کی باتیں سن سکتی تھی۔
"خدمت خلق" سے تو نہیں البتہ گاؤں سے الرجی ہے۔ اسے گاؤں میں رہنا پسند نہیں۔ " فرحین نے وضاحت کی۔
" واٹ' گاؤں پسند نہیں' یہ گاؤں۔۔۔۔ ہمارا گاؤں۔۔۔۔" فراز کو تو گویا کرنٹ لگ گیا۔ اسے یاد آیا کہ ثمین تو پہلے دن سے اس کے گاؤں کی برائیاں کر رہی ہے۔
" ریلیکس فراز۔۔۔۔" رمیز نے چائے کا خالی کپ زمین پر رکھتے ہوئے فراز کا ہاتھ دبایا۔
" میں بدلہ لے کے رہوں گا۔" ہولے سے بڑبڑایا۔
"ویسے میڈم! آپ یہ کیسے یقین کر سکتی ہیں کہ بھائی اس لڑکی سے ملیں گے نہیں اور اس حرکت سے باز رہیں گے۔" فراز کے شکوک پھر سے جاگ اٹھے۔ " نہیں ملیں گے کیونکہ وہ لڑکی یہاں سے جا رہی ہے ہمیشہ کے لیے۔ " فرحین نے پرسکون لہجے میں کہا تو فراز دماغ پہ زور ڈالنے لگا۔ گتھی سلجھی اور وہ فرحین کی عظمت کا قائل ہو کر اسے بغور دیکھنے لگا۔ نازک سی لڑکی کا دل اس کے قابو میں اور سوچ میں مضبوطی تھی۔
" مجھے امید ہے آپ ساری صورت حال کو سنبھال لیں گے " فرحین نے اس کے لانبے وجود کو پُر امید نظروں سے دیکھا۔
" ایک شرط پہ " فراز کی سیاہ آنکھوں میں ایک شوخ سا خیال لہرایا۔ دل کی سادہ زمین پر نئی نئی خواہش کی کونپل کھلنے لگی۔
"جی بولیے ' ہمیں آج ہی نکلنا بھی ہے۔ " فرحین نے سنجیدگی سے کہا۔
" اونہہ۔۔۔۔ کوئی کمینی سی خواہش کرے گا۔ " ثمین نے ہمہ تن گوش ہوتے ہوئے صبا سے سرگوشی میں کہا۔
" بات یہ ہے کہ ذمہ داری بہت بڑی ہے اور میں اکیلا ہوں' مجھے کسی ہیلپر کی ضرورت ہے۔" فراز نے گول مول سے لہجے میں کہا۔
" تو پھر۔۔۔ "فرحین بڑے خلوص سے اس کی مدد کے لیے سوچنے لگی۔
" آپ یہ سزا اپنی چھوٹی بہن کو دیں وہ "ہاں" کرے گی تو یہ پراجیکٹ پورا ہوگا ورنہ نہیں۔" فراز نے لاپرواہی سے سر جھٹکتے ہوئے کہا اور مزے سے جامن کے گھنے درخت پہ جمع ہونے والے پرندوں کو دیکھنے لگا۔
" ہا۔۔۔۔ " ثمین نے حیرت سے منہ پھاڑا۔ صبا بھی شرارت سے اسے دیکھنے لگی۔
" میں کچھ سمجھی نہیں۔ " فرحین نے سنجیدگی سے وضاحت طلب کی۔
" مطلب یہ کہ آپ کی بہن کافی عرصے سے میرے گاؤں میں کیڑے نکال رہی ہیں اب ان کی سزا یہ ہے کہ وہ یہیں میرے ساتھ رہ کر گاؤں والوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں گی۔ آخر یہاں کے لوگوں کا بھی پہ کوئی حق ہے۔ فراز نے بڑے سکون سے بات ختم کی۔
”میری بہن کس حیثیت سے یہاں رہے؟" فرحین نے دیکھے لہجے میں اسے گھورا۔ ثمین بھی آستینیں اوپر چڑھاتے ہوئے دہلیز پر آ کھڑی ہوئی۔ رمیز گویا اس کی بچت کے لیے اس کے قریب کھڑا ہو گیا۔
" چوہدری صاحب! آپ نے بتایا نہیں۔" فرحین نے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
اندر ثمین کا دل دھک دھک کیے جا رہا تھا۔ سانسوں میں عجیب بے ترتیبی کوفت میں مبتلا کر رہی تھی جبکہ صبا نے انگلی سے اشارہ کر کے فراز کو اوکے کر دیا تھا لیکن ثمین کے لیے یہ سب بہت جلدی تھا۔
" میری شریک زندگی کی حیثیت سے۔ میرا خیال ہے یہ اپنی جیٹھانی کے قریب رہ کر بہتر طریقے سے انہیں ٹرینڈ کر سکتی ہیں۔ فراز کا اطمینان قابل دید تھا۔ " لیکن ابھی تو ثمین کے میڈیکل کا پہلا سال ہے اور امی ابو باقی خاندان والے۔۔۔۔" فرحین بوکھلا کر رہ گئی۔
" مجھے کوئی جلدی نہیں' آپ سارے خاندان سے سائن کروا سکتی ہیں۔ ویسے میں نے ابھی کسی سے اجازت نہیں مانگی۔" فراز نے پر سکون لہجے میں کہا۔ "میرا خیال ہے پہلے آپ ثمین جی سے پوچھیں کہ
وہ اس گدھے کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہیں۔" رمیز نے مسکراتے ہوئے پتے کی بات کی تو فراز مصنوعی خفگی سے اسے گھورنے لگا۔
" آپی۔۔۔۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ " اتنی دیر توقف اور سوچ کا یہ جواب سن کر فراز کو جھٹکا لگا۔
" اوکے۔ فراز صاحب! فی الحال تو ہم چلتے ہیں لیکن جو سلسلہ آپ نے شروع کیا ہے، اسے تکمیل تک پہنچانے کے لیے آپ اپنی والدہ کو لے کر ہمارے گھر ضرور آئیں۔ ہمارے گھر والے آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔ " فرحین نے مسکراتے ہوئے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔
" اس سلسلے کو تو میں اب رشتے میں بدل کر ہی رہوں گا۔" فراز نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا اور بظاہرمسکرا دیا۔
" آپ لوگ ایک دو دن رک نہیں سکتے۔ " رمیز نے کچھ جھجک کر پوچھا۔
" نہیں ، شاید پھر بہت دیر ہو جائے گی۔" فرحین نے خائف سے لہجے میں کہا۔
" اوکے پھر میں آپ کو بھجوانے کا انتظام کرتا ہوں۔" فراز نے رسٹ واچ پہ وقت دیکھتے ہوئے کہا۔
" آپی! ہم لوگ چلے جائیں گے۔ آئی مین جیسے آئے تھے ویسے۔ " دبی دبی سرگوشی نما آواز پہ فراز جل کر رہ گیا۔ دل چاہا اس نک چڑھی کو تو گدھا گاڑی پہ بھیجے۔
دل تو اسے بے نقط سنانے کو چاہ رہا تھا۔ سینے میں کئی بار سانس بھرا لیکن پھر خارج کر دیا۔
"آپی۔۔۔۔ پھپھو اور صبا آپ لوگ تیار رہیں' میں ابھی گاڑی بھجواتا ہوں ۔ " اس نے دانستہ جتانے والے لہجے میں کہا اور رمیز کا ہاتھ پکڑ کر نکلتا چلا گیا۔ ان کے جاتے ہی صبا دانت پیستی اور فرحین گھورتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔
" کک۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ مطلب۔۔۔۔ " ثمین خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹی اور بھاگ کر پھپھو کے پیچھے چھپ گئی۔
" پتہ نہیں خود کو سمجھتی کیا ہو۔ اتنی نا کہ ذرا سی بندے نے لفٹ کیا کرا دی دماغ ہی خراب ہو گیا۔ تمیز سے بات کرنا ہی بھول گئیں۔ اچھا ہے ہم گاڑی میں جائیں گے۔ تم جانا بس کے ہینڈل سے لٹک کے۔" صبا نے اسے بازو سے گھسیٹتے ہوئے مصنوعی غصے سے کہا۔
" کیا مطلب۔۔۔۔ ثمین ہمارے ساتھ نہیں جا رہی؟" پھپھو ابھی اصل کہانی سے بے خبر تھیں۔ حیرت سے پوچھنے لگیں۔
" اس کی سزا تو یہی ہے کہ اس ہی گاؤں میں رہے ہمیشہ ہمیشہ۔ " فرحین کو اس کے رویے پہ غصہ تھا ورنہ رشتے ناطے اتنی آسانی سے تھوڑی طے ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ صبر سے خاموش رہتی تو کیا بگڑ جاتا۔ یہاں کون زبردستی باندھ کر جا رہا تھا۔
" اونہہ۔" فرحین تو فل پکی ہوئی تھی ۔
دونوں کی لعن طعن سے خجل ہو کر ثمین انگلیاں مروڑنے گئی۔ واقعی اس نے کچھ زیادہ ہی جلد بازی کا ثبوت دیا تھا۔ ماتھے پہ پشیمانی پسینے کے قطرے بن کر چمکنے لگی تھی۔
"زندگی کے اتنے بڑے فیصلے بھلا ایسے ہی تھوڑی ہو جاتے ہیں۔ آپی ٹھیک کہتی ہیں، میں بہت جذباتی ہوں، ساتھ ہی بے وقوف بھی اور شاید خوش فہم بھی۔" ندامت سے اعتراف کرتے ہوئے وہ خاموشی کے ساتھ پیکنگ میں لگ گئی۔
اس دن رمیز اور فراز کھیتوں کی سیر سے واپس آ رہے تھے جب چوہدری شجاعت کی جیپ کو آتے ہوئے دیکھا۔
" اب آئے گا مزہ۔۔۔۔ دیکھتے ہیں بھائی جی بھابھی جی کو پہچانتے ہیں یا نہیں۔" فراز نے شرارت سے مسکراتے ہوئے رمیز سے کہا۔
" چل رمیز بھاگ۔۔۔ " فراز نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوڑ لگاتے ہوئے کہا۔
" مطلب۔۔۔" رمیز سے گویا بھاگنا دوبھر ہو گیا۔
بھئی ذرا بھابھی کو تیار شیار بھی کرنا ہے۔ " فراز نے پھولی سانسوں کے بیچ کہا۔ چوہدری شجاعت کا اسے اندازہ تھا کہ ڈیرے پہ رک کر پچھلے دنوں کی
رپورٹ لے کر ہی آئیں گے۔
" پرجائی جی۔۔۔۔ بھابھو جی۔۔۔۔ " فراز چیختا ہوا اندر بھاگا۔ رمیز بھی اس کے تعاقب میں تھا۔
"یا اللہ خیر۔۔۔۔ فراز! میرے ویر کیا ہو گیا۔ تیرے بھاء جی تو خیر سے ہیں ؟ زہرہ اندر کھانا بنانے کی تیاری کر رہی تھی ، فراز کی ہڑبونگ سے گھبرا گئی۔
" بھا جی تشریف لاچکے ہیں بھابھوجی۔ ذرا کھانا اچھا سا ہونا چاہیے۔" فراز نے ایک طائرانہ نظر صاف کچن کو دیکھنے کے بعد زہرہ پہ ڈالی۔ آسمانی اور سرخ پرنٹ کا مناسب سلا ہوا سوٹ اس کی گوری رنگت یہ بہت جچ رہا تھا۔
تیل کے بغیر لمبی چوٹی اور بھی اچھی لگ رہی تھی۔ باقی سب ٹھیک ہے بھابھو۔۔۔ بس اب کھانا بتائیں۔ کیا پکا رہی ہیں۔" فراز نے مطمئن ہو کر پوچھا۔
" کیا پکاؤں ۔ " زہرہ نے ہونق ہو کر اس سے پوچھا۔
" یار! تم ہی کچھ بتاؤ۔" فراز نے جھنجلا کر رمیز سے کہا۔
" میرے خیال میں تو نارمل ہی کھانا ٹھیک ہے' تبدیلی تو بھابھی اور گھر کے سلیقے میں ضروری تھی جو فوراََ ہی نوٹس ہو جائے گی ۔ باقی رہا کھانا تو اس کے جوہربھی دھیرے دھیرے کھلیں تو زیادہ اچھا ہے ورنہ ایک ہی بار حیرت کا دھچکا بھائی جی کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔
رمیز نے سہولت سے مسکراتے ہوئے خاصے پتے کی بات کی جو فراز کے علاوہ زہرہ کے دل کو بھی لگی اور وہ سکون کے ساتھ بھنڈیاں دھونے لگی۔ ساتھ ہی آلو ابلنے کے لیے رکھ دیے تاکہ کٹلس بن سکیں۔
ملازمہ کو سبزی بنانے پہ لگایا اور خود سلاد بنانے کی تیاری کرنے لگی۔ رمیز اور فراز باہر صحن اور باقی گھر کی صفائی کا جائزہ لینے لگے۔ چوہدری شجاعت کو گھر آنے میں کافی دیر لگ گئی۔ آسمان کا ہلکا نیلا رنگ گہری سیاہی میں بدل گیا۔ کھانا تیار ہو کر میز پر سج گیا۔ اب سب کی بھوک عروج پر پہنچ کر سب کو ہی بے چین کر رہی تھی۔ بے جی شاید اندر نماز پڑھ رہی تھیں۔
رمیز اور فراز زہرہ کی نظر بچا کر ایک ایک کٹلس اور کئی کھیرے کے ٹکڑے غائب کر چکے تھے' زہرا بے چینی سے اندر باہر چکر لگا رہی تھی۔
" صبر میرے بھائی صبر۔۔۔۔ " فراز کے باقی الفاظ گیٹ کھلنے کی آواز پہ منہ میں ہی رہ گئے کیونکہ چوہدری شجاعت اندر داخل ہو رہے تھے۔ منہ پہ تقریباً بارہ ہی بجے ہوۓ تھے۔ سر جھکائے ادھر ادھر دیکھے بغیر چوہدری شجاعت مہمانوں والے کمرے کی طرف چلے گئے۔ تینوں نے مایوسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
"تم دونوں کھانا کھا لو۔ " زہرہ نے انہیں بے چارگی سے پیٹ پہ ہاتھ پھیرتے دیکھا تو نرمی سے کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی تھی کہ چوہدری شجاعت حیرت کی تصویر بنے عجلت میں کمرے سے باہر نکلے۔ زہرہ گھبرا کر رک گئی جبکہ کھانے پہ ٹوٹے ہوئے فراز اور رمیز کے حلق میں نوالے گویا پھنس گئے۔
" کک۔۔۔۔ کیا ہوا بھائی جی؟" فراز نے نوالہ نگلتے ہوئے پوچھا۔ چوہدری شجاعت اسے جواب دینے کے بجائے سارے صحن میں نظریں دوڑانے لگے۔ ہر طرح کے فالتو سامان سے پاک صحن مزید بڑا لگ رہا تھا۔ نئی کیا ریاں اور ان میں نئے پودے۔
اتنی دیر میں زہرہ فراز کے اشارے پہ بے جی کے کمرے کی طرف بھاگی۔
" کیا بات ہے، تمہارے کوئی دوست وغیرہ آ رہے ہیں'بڑی صفائیاں کرائی گئی ہیں۔"
چوہدری شجاعت بولتے ہوئے اندر کمرے میں آئے تو آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ جو اپنے دوست کا صاف ستھرا گھر سلیقہ اور نئی ڈشز اور ذائقے سے متعارف ہو کر احساس کمتری میں مبتلا بڑے مایوس سے گھر آئے تھے کہ گھر آنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ مجبورا" آئے تو آتے ہی ماسٹرنی کے گاؤں چھوڑ کر جانے کی خبر نے مزید دل اچاٹ کر دیا۔
ابھی تو محبت کا بیچ پھوٹا بھی نہیں تھا کہ زمین بنجر ہو گئی ۔ وہ سوچ رہے تھے کہ صبح ہی اسکول کی تعمیر کوا دیں گے جس کی خاطر یہ قدم اٹھایا تھا وہ ہی نہ رہی تو ۔۔۔۔۔ بھاڑ میں جائے سب کچھ لیکن اپنے مہمان خانے کی سجاوٹ دیکھ کر ایسے چونکے کہ سب کچھ ذہن سے نکل گیا۔ وہ خواب کی سی کیفیت میں چلتے رہے اور اب کھانے والے کمرے میں بھی ڈائننگ ٹیبل اور اس پہ رکھے جدید کھانے کے برتن ، فریج، لکڑی کی برتنوں والی الماری پر رکھا مائیکرو ویو(باقی ساری کمیاں فراز اور رمیز نے مل کر پوری کی تھیں) وہ دونوں چوہدری شجاعت کی حیرت کا فائدہ اٹھا کر جلدی جلدی پیٹ پوجا میں لگے رہے۔
چوہدری شجاعت کھوئے کھوئے سے باہر نکلے۔ بڑی سی حویلی کا یہ روپ تو انہوں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ آج اپنا گھر کتنا اجنبی اور کتنا انوکھا لگ رہا تھا۔ دل و دماغ روشن ہوئے جا رہے تھے۔ دل کی دنیا بھی بدل رہی تھی۔ آج ان کے اندر بسی ہوئی برسوں کی خواہش پوری ہوئی تھی۔
محرومی کا خلا جیسے بھر رہا تھا' ایک پچھتاوا جسے لے کر رہ جیسے تیسے جی رہے تھے۔ گویا آج بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ زندگی کا یہ کون سا خوبصورت رخ ان کے سامنے آیا تھا کہ خوشی سے ناچنے کو دل چاہ رہا تھا۔
”بھائی جی۔۔۔۔" فراز اور رمیز ان کی پشت پہ آ کھڑے ہوئے تھے۔
" یہ سب کیا ہے۔ کیا یہ ہمارا ہی گھر ہے؟" چوہدری شجاعت حیرت زدہ سے بمشکل بولے۔
" بس بھائی جی' غلطی ہماری ہی تھی۔ سب سے زیادہ میری' اس کے بعد آپ کی سب سے آخر میں پرجائی جی کی۔" فراز گہری سانس لے کر بولا۔
" لیکن اتنی ساری غلطیوں کا احساس دلایا کس نے۔" چوہدری شجاعت نے بے بسی سے پوچھا۔
" پتہ نہیں بھائی جی! ہے جی کہہ رہی تھیں کہ کوئی نیکی کی پری آئی تھی، سب کچھ سمجھا کر' سیٹ کر کے چلی گئی۔ " فراز کے تصور میں ثمین اور فرحین آ گئیں۔
بچوں کی سی معصومیت سے بتایا۔
" بے جی کہاں ہیں ؟ چوہدری شجاعت کو اچانک ہی ماں کی کمی محسوس ہوئی تو وہ ان کے کمرے کی طرف بڑھے۔ رمیز اور فراز بھی ساتھ تھے۔
زہرہ' بے جی کو صورت حال بتا کر ان کا بستر درست کرنے لگی۔ بے جی کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے، جب یہ مختصر سا قافلہ اندر داخل ہوا۔ ان کی نظریں زہرہ پر ٹک گئیں۔
" کیا بات ہے پتر! یہ میری نوں (بہو) اور تیری بیوی زہرہ ہے، پچھانا (پہچانا) نہیں ۔ " بے جی نے انجان سے لہجے میں جتانے والے انداز میں کہا۔
" نہیں ، میں نے کسی کو نہیں پہچانا ۔ سارا گھر ہی اوپرا اوپرا (انجانا انجانا) سا لگ رہا ہے۔" چوہدری شجاعت نے بے جی کے تخت پہ بیٹھ کر سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔
" آپ کو یہ سب اچھا نہیں لگ رہا بھائی جی!" رمیز نے بڑی سادگی سے پوچھا۔
" اچھا۔۔۔۔۔ یہ سب میرا خواب تھا ' میں صرف حیرت زدہ ہوں کہ میرے خواب کی جھلک کس نے دیکھ لی اور چند دنوں میں کایا ہی پلٹ گئی۔ مجھے یہ سب اتنا اچانک ہضم نہیں ہو رہا۔ " چوہدری شجاعت پریشانی سے بولے' تب فراز آگے بڑھا۔
" دیکھیں بھا جی! لاپروائی۔۔۔۔ بد سلیقگی ۔۔۔۔ غیر ذمہ داری۔۔۔۔ سستی جیسی بیماریاں قابل علاج بیماریاں تھیں ، بس ان کی نشاندہی کی ضرورت تھی اور ان کی دوا کی اور آپ کو پتہ ہے کہ میری بھابھو اتنی عقل مند ہیں کہ انہوں نے اتنی جلدی سب کچھ سیکھ لیا اور آج ہمارا گھر ہم سب کی خواہش کے مطابق سج گیا ہے اور ابھی ایک جوہر تو آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ " روانی سے بولتا فراز آخر میں ڈرامائی انداز میں مسکرایا۔
" ابھی مزید کوئی جھٹکا باقی ہے ؟" چوہدری شجاعت ہلکے پھلکے ہو کر مسکرائے۔ بے ساختہ ہی نظریں زہرہ کی جھکی جھکی سیاہ پلکوں پر ٹھہریں۔ دل یوں دھڑکا جیسے پہلی بار کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھا ہو۔
" کیا زہرہ ہمیشہ سے اتنی حسین ہے یا آج مجھے لگ رہی ہے؟" دل نے دماغ سے سوال کر ڈالا۔
" او۔۔۔۔ عقل کے اندھے زہرہ کا حسن' اس کی سستی' بد سلیقگی' لاپروائی کے پردے میں چھپا ہوا تھا۔ کچھ پردہ تمہاری اپنی عقل پر بھی تو پڑا ہوا تھا۔ مرض ڈھونڈنے کی بجائے مرکز ہی بدلنے چلے تھے ایک انجانی لڑکی سے اتنی جلدی ایسی امیدیں باندھ لیں یہ جانے بغیر کہ وہ تمہاری زندگی میں شامل ہونا چاہتی ہے بھی یا نہیں۔ دماغ نے گھرکا۔
انہوں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ مزید بھٹکنے سے بچ گئے اور۔۔۔۔
" پتر۔۔۔۔ کج کھانا نئیں ۔۔۔۔۔ " بے جی کی محبت بھری آواز پہ وہ دوبارہ اپنے ماحول میں لوٹ آئے۔ اچانک ہی شدید بھوک کے احساس نے بے چین کر دیا۔
" جی بے جی بوت پکھ (بھوک) لگی اے۔"
" ماں صدقے۔۔۔ چل زہرہ! چھیتی نال کھانا لے کے آ۔۔۔۔ " بے جی بیٹے کی محبت میں تڑپ اٹھیں۔ زہرہ جھٹ باہر نکل گئی۔
" بے جی! آپ نے سارا سامان بدلنے کی کیسے اجازت دے دی۔ " چوہدری شجاعت پھر اپنی الجھن زبان تک لے آئے۔
کچھ غلطی میری بھی تو ہے بلکہ زیادہ میری ہے کہ میں نے تم لوگوں کو وقت کے ساتھ چلنے نئیں دیا۔ اپنے سادہ زمانے کی سادہ زندگی پہ تم لوگوں کو زبردستی چلنے پر مجبور کیا۔ اللہ بھلا کرے اس بچی کا جس نے وقت کی قیمت اور قدر کا احساس دلایا اور سمجھایا سب سے زیادہ نقصان میرے اپنے بچوں کا ہو رہا ہے تو میں بھلا ضد کیوں کرتی ۔ ماں تو اولاد کے لیے جان قربان کردیتی ہے اور پھر ہم نے تو اپنی زندگی جی لی ہے۔ اب میرے بچوں کی باری ہے۔ تم لوگ اپنی مرضی کے مطابق جیو اور سدا سلامت رہو۔"
بے جی کی محبت میں ڈوبی آنسوؤں سے بھیگی آواز اور اتنی مدلل باتوں پہ تینوں لڑکے دنگ رہ گئے۔
کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ ایک گاؤں میں رہنے والی ان پڑھ سادہ سی عورت کے الفاظ ہیں۔
"میری بے جی۔۔۔۔ زندہ باد۔۔۔۔ " فراز نے ماں کو بازووں کے حلقے میں لے کر نعرہ لگایا۔ جبکہ چوہدری شجاعت " بچی" کے حدود اربعہ میں کھو گئے کہ آیا وہ لڑکی فرحین ہی تھی یا۔۔۔۔۔
" پتر۔۔۔۔ وہ تیرے پاس اسکول کی فرمائش لے کر آئی تھی نا تو میرا پت (بیٹا) اب اس گاؤس میں ایسا اسکول بنانا کہ کوئی بچی ان پڑھ نہ رہ جائے۔ تعلیم سب کے لیے ضروری ہے پر ایک لڑکی ذات کے لیے بہت بہت ضروری ہے۔" بے جی جوش میں آ کر بولے چلی گئیں۔
" او۔۔۔۔ میری بے جی بس کرو' کیوں ہمیں حیرت کے سمندر میں غوطے دے رہی ہیں۔ " فراز نے بے جی کے آگے ہاتھ جوڑے۔
" اللہ نہ کرے پترا! الله سمندر سے بچائے میرے بچوں کو ۔ " اتنی عقل مندانہ باتوں کے بعد ایسی معصومانہ بات سن کر تینوں بے تحاشا ہنس پڑے۔ صاف' کھری' ریا سے پاک ہنسی۔
اور چوہدری شجاعت کو یوں لگا جیسے اس ہنسی میں دل و دماغ پر چھایا غبار' بخارات بن کر اڑ گیا ہو۔ دبیز دھند کی لہرہٹی تو سارے راستے واضح ہوتے چلے گئے۔ وہ ہلکے پھلکے ہو کر کھانے والے کمرے کی طرف بڑھ گئے' جہاں ان کی محبت کی صحیح حقدار ان کی منتظر تھی۔