بکھرے خوابوں کی تعبیر
(قسط نمبر:1)
اردو کہانیاںوائرل


۔۔"ارے ۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ ذرا دھیان سے یہ میرے جاگرز ہیں۔"
اس کے دوست اور روم میٹ رمیز نے دھاڑتے ہوئے فراز کے ہاتھ سے اپنے اکلوتے اور مہنگے ترین جاگرز جھپٹنے والے انداز میں چھینے۔ " ا وہ۔۔۔ معاف کرنا۔" فراز نے مصنوعی تاسف سے مسکرا کر اپنے لیدر کے سینڈل بیڈ کے نیچے سے نکالے۔ " گاؤں جانے کی خوشی میں حواس ہی گم ہو جاتے ہیں تمہارے تو۔“ رمیز اس کی جلد بازی سے بری طرح چڑا ہوا تھا۔ اسے فراز کی کمینگی پر بے تحاشا غصہ آ رہا تھا جس نے یہ ویک اینڈ اس کے ساتھ گزارنے کا وعدہ کیا تھا لیکن گاؤں کے چکر میں وہ سب کچھ بھول جاتا تھا۔ " اے خبردار! میرے گاؤں کو کچھ مت کہنا۔ " فراز نے انگلی اٹھا کر دھمکی دی۔ " ورنہ۔۔۔۔" رمیز کو بھی ایسا تاؤ آیا کہ برداشت کو رخصت دینی پڑی۔ دونوں بازو کمر کے دائیں بائیں جما کر لڑنے کو تیار کھڑا تھا۔ فراز نے پلٹ کر رمیز کے انداز کو دیکھا۔ چند لمحے آنکھیں گھمائیں، مسکراہٹ کو گھنی مونچھوں کے سائے سے باہر نہ نکلنے دیا اور خود بھی رمیز کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ڈرامائی لہجے میں بولا۔ " ورنہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گاؤں لے جاؤں گا۔" دھمکی والا انداز برقرار رکھا تھا۔ " شیور۔۔۔۔" رمیز نے مشکوک انداز میں گھورا ۔ " آف کورس! میرے گاؤں کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔"
فراز نے شاہانہ انداز میں دونوں بازو پھیلا کر گول گھومتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ " تو اس سے پہلے کیوں نہیں پھوٹے تھے، کلو خون جلا دیا میرا ۔ تمہیں یاد ہے کہ یہ ویک اینڈ تم کو میرے ساتھ گزارنا تھا۔" رمیز نے شکوہ بھری ملامت سے فراز کو شرمندہ کرنا چاہا۔ " لو تمہارے ساتھ ہی تو گزاروں گا اپنے گاؤں میں۔" فراز شرارت بھرے انداز میں کہہ کر ہنس پڑا تو رمیز نے بھی ہنستے ہوئے اپنا بیگ نکالا اور بیگ میں کپڑے ٹھونسنے لگا۔ " اگر میرے ساتھ جانے کو اتنا دل چاہ رہا تھا تو پہلے ہی بتا دیتے۔ اس میں رونے کی کیا بات تھی۔ " فراز نے اس کی پھرتی پہ رمیز کو چھیڑا ۔ ہاسٹل کی عمارت سے باہر نکلتے ہی مئی کی تپتی جھلستی گرمی کے ساتھ ہی سورج کی تیز اور قدرے ناراض کرنوں نے اس کڑے وقت میں باہر نکلنے کی سزا دی۔ " یار! ہمارے ہاں تو ایسی گرمی نہیں ہوتی۔ " رمیز نے ہانپتے ہوئے بیگ کو اپنے سر پہ اٹھا لیا۔ ڈاکٹر بننے تک میرا رنگ بھی تمہارے جیسا ہو جائے گا۔ " رمیز نے روہانسی آواز میں مسئلہ پیش کیا۔ " کیا۔" فراز چلتے چلتے چونک کر رکا۔ یہ میرے جیسا سے کیا مطلب ہے تمہارا ۔ " موسم کے ساتھ ساتھ فراز کے بھی تیور بدل گئے۔ "سوری یار! ان فیکٹ گرمی کی وجہ سے میرا بھی دماغ گھوم گیا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔“ رمیز سچ مُچ بوکھلا گیا تو فراز رومال سے چہرہ صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا۔سرخ و سفید رنگت والا رمیز ابھی تک بڑے شہر کی چالاک اور تیز زندگی کا عادی نہیں ہوا تھا۔ سو زرا سی بات پر گھبرانے اور بو کھلانے لگتا۔ " جسٹ جوکنگ یار! ڈیسنٹ مردوں کو ایسے ہی رنگ مزید ہینڈ سم بناتے ہیں جیسے کے مجھے۔
" فراز نے بس اسٹاپ پہ رک کر سہولت سے بیگ نیچے رکھا اور کالر جھاڑ کر کہا۔ "
تم مجھے اس ابلتی ہوئی گرمی میں کیوں اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہو؟ میرے ویک اینڈ کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ تولیہ نما رومال سے چہرہ صاف کرنے کے بعد پلٹ کر دیکھا تو اسٹاپ پہ دو لڑکیوں کو آپس میں الجھتے پایا۔
"میرے ویک اینڈ کا بھی تو ستیا ناس ہو رہا ہے۔ آخر دوست ہی دوست کے کام آتی ہے۔" دوسری نے لا پروائی سے کہا۔ "آخر ایسی کیا مجبوری ہے اور کچھ اتا پتہ بھی معلوم ہے کہ جانا کہاں ہے۔ " صبا نے چھتری سے مایوس ہو کر اسے زمین پہ پٹخا اور چڑ کر ثمین سے پوچھا۔ " یار! تمہیں بتایا تو تھا کہ آپا کے اسکول والوں نے ان کی ٹرانسفر ایک پھٹیچر سے گاؤں کے گم نام اور چھوٹے سے اسکول میں کر دیا ہے۔ آپا ہیں کہ نہایت احساس ذمہ داری کے ساتھ پھپھو کو لیا اور چارج لینے پہنچ گئیں۔ میں نے کہا بھی کہ منع کر دیں لیکن آپا کسی کو ناں تو کر ہی نہیں سکتیں۔ اب اس شدید گرمی میں نجانے ان کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔
" ثمین نے خفگی بھرے لہجے میں تفصیل سنا ڈالی۔ " تو تم وہاں جا کے کیا کر لوگی ؟" صبا نے حیرت سے پوچھا۔ " میں پھول نگرکی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گی۔" ثمین نے ڈرامائی لہجے میں بھاری پن پیدا کرتے ہوئے کہا۔
" پھول نگر۔۔۔ " صبا نے دہرایا۔ " پھول نگر۔۔۔
" زیرلب دہراتے ہوئے فراز نے چونک کر ان نازک وجودوں کی طرف دیکھا۔
" صبا پہلے کبھی بجائی ہے اینٹ سے اینٹ؟" صبا نے نہایت سنجید گی سے پوچھا۔ فراز کے اندر سب کچھ گویا ابلنے لگا۔ وہ تو اسی وقت ویگن آ گئی، ورنہ وہ ابھی اس لڑکی سے نپٹ لیتا۔ جلدی سے پہلے رمیز کو اندر گھسیڑا اور پھر خود بھی پیچھے ٹھنس کر بیٹھ گیا۔
ویگن میں گرمی کی حدت اور مردوں سے بھری ہوئی تھی بلکہ اوور لوڈنگ کی وجہ سے سانس گھٹنے لگا تھا۔
" یار سانس کیسے لوں؟" رمیز نے تقریبا " اپنی گود میں بیٹھے ہوئے آدمی کی اوٹ سے سر نکالتے ہوئے فراز کو بمشکل دیکھ کر پوچھا۔ " صبر میرے بھائی ، بس ابھی تھوڑی دیر میں اڈے تک پہنچ جائیں گے۔" فراز نے کسی بچے کی مانند رمیز کو تسلی دی لیکن اڈے تک پہنچتے پہنچتے اگر ایک مسافر اترتا تھا تو کنڈیکٹر تین کو زبردستی اندر ٹھونس لیتا۔ آخر خدا خدا کر کے ویگن کی قید سے آزاد ہوئے تو کتنی ہی دیر حواس بحال کرنے میں صرف ہو گئی۔
فراز کو اچانک ہی اس بد تمیز لڑکی کا خیال آ گیا۔ وہ کون ہوتی تھی اس کے گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی۔
" کیا ابھی مزید سفر باقی ہے؟" رمیز اسے کوچ کی طرف بڑھتے دیکھ کر خوف زدہ لہجے میں کراہا۔ "جی جناب! اب ہم اپنے گاؤں کے سامنے ہی اتریں گے۔
" فراز نے ایر کنڈیشنڈ کوچ کے ٹکٹ لیتے ہوئے رمیز کو بہلایا۔ فضا میں عجیب سی حدت بھری تھی۔ہر چیز سے تپش اور وحشت ٹپک رہی تھی ۔ مسافروں کی تعداد پوری ہونے پہ ہی کوچ اور اے سی کو چلنا تھا تب ہی ان سے آگے والی سیٹ پر دو مسلسل بولتی ہوئی لڑکیاں کسی وزنی سامان کی طرح گویا گرسی پڑیں ۔ ڈرائیور بھی جیسے ان ہی کے انتظار میں تھا، انجن کے ساتھ ہی اے سی بھی اسٹارٹ ہو گئے اور چند لمحوں میں ہر طرف سکون ہی سکون پھیل گیا۔
فراز نے سر پچھلی سیٹ پہ ٹکاتے ہوئے رمیز کی طرف دیکھا جو آنکھیں بند کیے بے دم سا پڑا تھا۔ " بے چارہ۔" فراز کو اس پر ترس آ گیا۔ "کون۔۔۔
" رمیز نے جھٹ سے آنکھیں کھول کر چاروں سمت دیکھا۔ " میں اور کون؟" فراز نے سرد آہ بھری۔ " کک۔۔۔۔ کیوں ؟
" رمیز چونکا۔ "تمہارے جیسا ہم سفر جو ملا ہے۔
" فراز دکھی سا ہو گیا۔ " یعنی۔۔۔ مطلب کیا ہے تمہارا؟" رمیز نے جل کر پوچھا۔
" ارے کوئی نازک سی حسینہ جمیلہ لڑکی میرے پہلو میں بیٹھی ہوتی تو واہ سفر کتنا مختصر اور خوب صورت ہو جاتا۔
" فراز نے رومینٹک ہیرو بننے کی شاندار ایکٹنگ کر ڈالی۔ یعنی اگر فاصلہ دس میل کا ہے تو تمہارے حسین ہم سفر کی وجہ سے پانچ میل رہ جائے گا۔ ویری فنی۔
" رمیز نے تیز آواز اور چڑے ہوئے لہجے میں کہا تو فراز کو ہنسی آ گئی جبکہ ثمین نے چونک کر کان پچھلی سیٹ سے لگا دیے۔ "
ہش۔۔۔۔ سیدھی ہو کر بیٹھو ۔" صبا نے اسے ٹوکا۔
"لگتا ہے کوئی دلچسپ لوگ بیٹھے ہیں۔ ذرا سفر ہی اچھا کٹ جائے گا۔" ثمین نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔
" ابھی تو تم آگ بگولا ہو رہی تھیں، اینٹ سے اینٹ بجانے والی تھیں۔ "صبا نے چھیڑا ۔ " ارے وہ سب سورج کی تپش کا اثر تھا' گرمی سے دماغ خراب ہوا جا رہا تھا۔
" ثمین نے پر سکون لہجے میں کہا۔ " شکر ہے خدا کا ورنہ میں تو ڈر رہی تھی کہ ہنگامے میں تمہارا ساتھ دینے پہ مجھے بھی کہیں جیل کی ہوا نہ کھانی پڑ جائے۔
" صبا نے مبالغے کی انتہا کر دی تو ثمین اسے گھور کر رہ گئی۔ آخر خدا خدا کر کے ان کا مطلوبہ اسٹاپ آ ہی گیا۔ فراز اپنا بیگ لے کر اٹھا ہی تھا کہ دونوں لڑکیاں جیل سے چھوٹنے والے قیدی کی طرح اسے دھکا دیتی ایسے اتریں جیسے کوچ انہیں دوبارہ واپس لے جائے گی۔ فراز بھی دانت پیستا ہوا رمیز کو لے کر نیچے اترا تو دونوں لڑکیوں کو دھواں دھار بحث میں مصروف پایا ۔
" اب چلو بھی گرمی سے جان نکلی جا رہی ہے، ایک تو اے سی کا یہی نقصان ہے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔" صبا ڈوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف کرتے ہوئے دکھی ہو رہی تھی۔ اتنے اچھے کلف دار سوٹ کا ستیا بلکہ اٹھیا ناس ہو چکا تھا۔ " کہاں چلوں۔ یہ تو معلوم ہی نہیں کہ جانا کس سمت ہے۔ " ثمین نے ہونق ہوتے ہوئے وسیع و عریض کھیتوں کے پھیلے ہوئے سلسلے کے دوسری جانب نظر آنے والے کچے پکے مکانوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا۔ " کیا۔؟"
صبا نے بے ساختہ چیخ کے بعد غشی کی کیفیت کو زبردستی دھکیلا کہ آگ اگلتی زمین پر گر کر روسٹ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لہذا بمشکل حواس بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ثمین کو آنکھوں ہی آنکھوں میں نکلنا چاہا۔ فراز کو اس صورت حال سے ایسا لطف آیا کہ وہ اپنی اور رمیز کی بدحالی کو بھول گیا۔
" وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ " جلد بازی کی وجہ سے سوچے سمجھے بغیر نکل پڑی تھی۔ اجنبی جگہ' کم علمی کی وجہ سے دل خوف سے دھڑک رہا تھا، لہذا بڑی ایمان داری سے اعتراف کرتے ہوئے اس کی آواز لرز سی گئی ۔
"ہائے ثمین۔۔۔۔ اب ہم کیا کریں گے رات ہو گئی تو کہاں جائیں گے۔" صبا نے ڈانٹنے کا ارادہ ترک کر کے نئے خدشے کا اظہار کیا۔ " ہم کہاں جائیں گے؟" رمیز نے فراز کو دیکھ کر طنزا " پوچھا۔" شش۔۔۔۔
" فراز نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور چہرے پہ سنجیدگی طاری کرنے تھے بعد ثمین اور صبا کی جانب مڑا۔ " کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟" انتہائی ادب سے پوچھا گیا۔ "آں۔۔۔" ایسے وحشت زدہ ماحول میں ایسا تمیزدار لہجہ۔ اپنی پریشانی سے نکل کر سر اٹھایا۔
" آپ ۔۔۔۔ کون؟" حالات نے اخلاق نبھانے پر مجبور کر دیا۔
" شاید آپ کو صحیح منزل کی جانب گائیڈ کر سکوں۔
" شرافت سے بن مانگے اپنی خدمات پیش کی گئیں۔
" اوه۔۔۔ بہت بہت شکریہ۔
" صبا نے عجلت میں دوپٹے سے چہرہ صاف کرتے ہوئے ثمین کو سوچ کے مرحلے میں چھوڑ کر جھٹ سے پھول نگر کا ایڈریس پوچھ لیا۔ " اوہ ۔۔۔ ویری بیڈ۔۔۔۔
" فراز نے تاسف کا اظہار کیا۔ " کک۔۔۔ کیوں۔۔۔۔ کیا ہوا؟
" صبا کی گھبرائی آواز ثمین کو بھی چونکا گئی۔
" دراصل۔۔۔۔ فراز نے گھڑی پر وقت دیکھا۔
" آخر آپ اتنا سسپنس کیوں پھیلا رہے ہیں' جلدی سے بتائیے' حیرت ہے آپ کو گرمی نہیں لگ رہی۔" ثمین کو اس اجنبی کی بے تکی ایکٹنگ پہ غصہ آ گیا۔ " کمال ہے مجھے بھلا گرمی کیوں نہیں لگے گی۔ میرے اوپر کوئی خفیہ چھتری تو نہیں تنی ہوئی۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ لوگ تھوڑا پہلے اتر گئی ہیں۔ اب آپ کو تقریبا" ایک میل پیدل چلنا پڑے گا۔
" "ہائے۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ہے۔" دونوں کی درد بھری چیخوں سے فراز کے کان سنسنا اٹھے۔
" اوکے' باۓ۔ آؤ رمیز!" فراز نے بہ عجلت کہا اور رمیز کا ہاتھ پکڑ کر تیز قدموں سے سڑک کے دوسری طرف کچے راستے میں اتر گیا۔ ثمین' صبا سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی اور شاید اس کی خاموش التجا تھی کہ اچانک ہی موسم بدلا اور تیز آندھی کے آثار پیدا ہو گئے۔
"یا اللہ تیرا شکر' ورنہ اس احمق دوست نے تو آج مروا ہی دیا تھا۔
" صبا کی گویا جان میں جان آئی۔ تب ہی وہاں سے ایک خالی تانگہ گزرا۔
"بھائی صاحب ! ذرا رکنا۔
" ثمین نے بے تابی سے اسے روکا جیسے وہی آخری سہارا ہو۔
"جی ہمیں پھول نگر جانا ہے۔ " بڑے التجا بھرے لہجے میں کہا گیا۔
" کیہڑے پھول نگر (کون سے پھول نگر)۔" ادھیڑ عمر آدمی نے حیرت سے گھورا۔
"ہائے ثمین ! یہ تو جانتا ہی نہیں کہ پھول نگر بھی کوئی جگہ ہے۔
" صبا روہانسی ہو گئی۔ چھکے تو ثمین کے بھی چھوٹے۔
" وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ جی ایک گاؤں ہے چھوٹا سا ۔
" گھبرا گھبرا کر کہا گیا۔
" او بی بی جی۔۔۔۔ یہی تو ہے پھول نگر' ہور تے کوئی وی نئیں۔"
تانگہ بان نے گویا ان کی مشکل سمجھتے ہوئے اس کچے راستے کی سمت اشارہ کیا جس سمت میں وہ بد تمیز لڑکا اپنے ساتھی سمیت گیا تھا۔ " بہت بہت شکریہ جی! اللہ آپ کو خوش رکھے' آپ کے بچے جیتے رہیں، آپ کی بیگم آپ کی خدمت کرے، آپ کے۔۔۔۔"
"یار! بس بھی کرو' باقی دعائیں کسی اور کے لیے سنبھال کے رکھو۔
" ثمین بے خیالی میں نجانے کیا کچھ بولے جا رہی تھی کہ صبا نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ ثمین کے حواس بھی واپس آنے لگے۔ " جلدی بھاگ ورنہ یہیں نہانا پڑ جائے گا۔ " صبا نے پل بھر میں امڈ آنے والے سیاہ بادلوں کے تیور دیکھتے ہوئے کہا اور دونوں بھاگنے کے سے انداز میں چل پڑیں۔
"یار! ویسے تو نے ان معصوم لڑکیوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔
" نہا دھو کر فراز' رمیز کو اپنے کمرے میں لایا تو رمیز کو دونوں لڑکیاں یاد آ گئیں۔
" تو نے میرا گاؤں دیکھا ہے نا؟" فراز نے جواب دینے کے بجائے سوال داغا۔
" ہاں بہت خوبصورت اور سرسبز و شاداب ہے۔
" رمیز نے دل سے تعریف کی۔
" تو پھر میں خوامخواہ ایک اجنبی لڑکی کو اپنے گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجانے دیتا۔
" فراز نے اپنے پلنگ پر دراز ہوتے ہوئے ناگواری سے کہا۔ " ہو سکتا ہے اس نے محاورتاََ کہا ہو۔"
"نہ تو مجھے یہ لگتا۔" فراز ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ " تو ان لڑکیوں کا ماما لگتا ہے یا بھیا جانی ؟" فراز نے گھورتے ہوئے تیکھے لہجے میں پوچھا۔ " کہاں یار! تیرے سامنے ہی تو ملاقات ہوئی تھی' رشتہ داری کہاں سے ہو سکتی ہے ایسے۔" رمیز نے بہت سادگی کا مظاہرہ کیا جبکہ سوال کا طنز بہت اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔ "بہت شوق ہے ان سے رشتہ داری کا تو کل ہی۔۔۔
۔" فراز نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ " تو کیا تم نے کل ملاقات کا وقت طے کر لیا تھا مگر کب' سارا وقت تو تم انہیں برا بھلا کہتے رہے تھے؟"
رمیز نے بظاہر بھولے پن کا مظاہرہ کیا تو فراز نے پل بھر کو اوپر سے معصوم اور اندر سے شریر انسان کو بغور دیکھا اور تکیہ کھینچ کر اسے دے مارا۔
چوہدری شجاعت اپنے منشی رحمت کے ساتھ صبح کی سیر سے واپس آ رہے تھے جب انہوں نے عرصے سے ویران پڑے ہوئے اسکول کی چار دیواری کے باہر اسکول کا بورڈ لگتے ہوئے دیکھا۔ کافی عرصے سے یہ اسکول کسی قابل استاد کا منتظر تھا جو حکومت کی زبردستی سے نہ چاہتے ہوئے آ تو جاتے تھے مگر کچھ گاؤں کے اجڈ ماحول' بد تمیز بچوں کے باعث اور کچھ شہر کی آسائشوں کی یاد میں جلد ہی فرار ہو جاتے تھے۔ ماسٹروں کا بھاگ جانا چوہدری شجاعت کو بہت اچھا لگتا تھا، یعنی انہیں کچھ کرنا ہی نہیں پڑتا تھا۔ بغیر کوشش کے ہی ماسٹر فرار۔ " لے بھئی' پھر کسی ماسٹر کی شامت آئی ہے۔
" چوہدری شجاعت نے ملجگے اُجالے میں بورڈ کے قریب کھڑے ہو کر پڑھا۔
"اس بار جی۔۔۔" رحمت بات ادھوری چھوڑ کر ہنسا۔ " کیا ہوا۔۔۔۔ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔
" چوہدری جی کو غصہ ہی تو آ گیا۔ " وہ جی۔۔۔۔ بات ہی ایسی ہے، اس بارجی کسی ماسٹرنی جی کی شامت آئی ہے۔" رحمت نے گویا رازداری سے بتایا۔ " کیا مطلب؟" چوہدری شجاعت علی کی آنکھیں چمکیں۔ ”ہاں جی میں نے خود ان کو کل اسکول کی صفائی کرواتے ہوۓ دیکھا تھا۔ " تو مجھے کیوں نہیں بتایا تھا۔" چوہدری شجاعت کا جذبۂ شوق ابھرا۔
" وہ میرا مطلب ہے ، میری اجازت نہیں چاہیے تھی؟"
چوہدری جی نے اکڑ کر مونچھوں کو تاؤ دیا۔
چوہدری شجاعت علی کا شمار بھی عام روایتی چوہدریوں میں ہوتا تھا، جنہیں پشت در پشت چوہدراہٹ خود غرض بنا دیتی ہے۔ گاؤں کی آلودگی سے پاک ترو تازہ ہوا اور خالص غذا کے پروردہ چوہدری شجاعت نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تھا کہ بے جی کی بھانجی حاجرہ ان کی شریک حیات بنا دی گئی۔ خوبصورتی کے لحاظ سے حاجرہ چوہدری کی برابری تو کرتی تھیں لیکن جہالت میں چوہدری صاحب سے دو قدم آگے ، یعنی چٹی ان پڑھ ۔۔۔۔ جبکہ چوہدری جی تو پھر بھی میٹرک پاس تھے۔ انہیں پڑھنے کا شوق تھا لیکن بڑے چوہدری صاحب کی وفات کی وجہ سے یہ شوق پورا نہ کر سکے' وہ اپنی تعلیم کی کمی کا شوق چھوٹے بھائی چوہدری نواز علی کو تعلیم کے لیے شہر بھیج کر پورا کر رہے تھے لیکن اپنے احساس کمتری کی وجہ سے گاؤں کے اکلوتے اسکول کو اچھے استاد اور فرنیچر سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں اور اساتذہ کے لیے ہر سہولت کو حرام قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن استانی جی کا سن کر ان کی عاشق مزاجی کو جھٹکا سا لگا تھا۔ مزاج کسی حد تک رنگین اور عاشقانہ ہی پایا تھا۔ ویسے بھی تیس پینتیس سال کی عمر میں وہ بھلا گوشہ نشین کیسے ہو جاتے۔۔
چڑیوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ ہی پورا گاؤں بھی بیدار ہو چکا تھا۔
ثمین اور صبا کل کی خواری کے بعد سر شام ہی صحن میں بچھی ہوئی
چارپایوں پہ ایسی بے سدھ ہو کر غفلت کی نیند سوئیں کہ صبح فرحین آپا تو انہیں اٹھانے میں نا کام ہو کر اسکول کی تیاری کے لیے اندر چلی گئیں اور پھپھو ملازمہ کے ساتھ مل کر ناشتے کی تیاری میں لگ گئیں کہ فارغ ہو کر ہی اٹھا ئیں گی جیسے ہی صحن میں لگے تندور میں سے دھوئیں کے بادل فضا میں پھیلے ثمین نے بے چین ہوکر کروٹ بدلی۔ کچھ گرمی کے احساس کے ساتھ گہری سانس بھری تو ڈھیر سارا دھواں بھی حلق میں اتر گیا۔
وہ بے تحاشا کھانستی ہوئی اٹھ بیٹھی اور بچوں کی طرح آنکھیں ملتے ہوئے دھوئیں کے اس پار دیکھنے کی کوشش کی۔
"باجی تندور بل (جل) گیا۔ جے آؤ پراٹھے دے پیڑے بنادیو۔" ملازمہ ماسی شریفاں پھرتی سے تندور کے گرد جا کھڑی ہوئی۔
" چلو بچیو ! تم لوگ بھی جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آ جاؤ۔ آج تمہیں دیسی گھی کے بنے ہوئے تندوری پراٹھے کا ناشتہ کرواتی ہوں۔" پھپھو انہیں ہدایت دیتی تندور کی طرف بڑھ گئیں۔
" دیسی گھی۔۔۔ " ثمین نے برا سا منہ بنایا۔
"یار! بڑے مزے کے ہوتے ہیں دیسی گھی کے پراٹھے' مجھے تو بہت پسند ہیں۔" صبا نے ندیدے پن سے کہتے ہوئے ہاتھ روم کی طرف دوڑ لگائی اور ثمین ناک بھوں چڑھاتی ہوئی تندور کی سمت آ گئی، جہاں پھپھو پیڑے بنانے میں اور ماسی سبک رفتاری سے پراٹھا پھیل کر دہکتے ہوئے تندور کی دیواروں پر چپکا رہی تھی۔
" پھپھو! ماسی کا ہاتھ نہیں جلتا۔ " ثمین کو سرخ شعلوں کی تپش دور سے ہی محسوس ہو رہی تھی' جبکہ ماسی تو۔۔۔۔
" بیٹا! انہیں عادت ہوتی ہے۔" پھپھونے اترے ہوئے پراٹھے چنگیر میں رومال کے اندر لپیٹ کر رکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔
"کتنے اور بنیں گے ؟" پراٹھوں سے اٹھتی سوندھی سوندھی خوشبو نے گویا سیدھا خالی معدے پہ اٹیک کیا اور وہ سوال روک نہ سکی۔
" بس یہ آخری کھیپ ہے، تم جلدی سے نہا دھو کر بیبا بچہ بن جاؤ تب تک میں ساگ گرم کر کے چائے اور آملیٹ بنا کے آواز دیتی ہوں۔" پھپھونے اس کی اشتہا کو مزید بھڑکایا۔
" اوئی اللہ' اتنی ساری چیزیں۔۔۔۔۔ یہ صبا کی بچی کیا کرنے بیٹھ گئی۔ " ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوئے صبا کو کوستی غسل خانے کے دروازے پر دھاوا بول دیا۔ پھپھو اس کی دہائی پہ پیشانی پہ ہاتھ مارتے ہوئے انڈے پھینٹنے لگیں۔
جوں جوں سورج کی تیز بنفشی کرنیں دھرتی پر پھیل رہی تھیں۔ گرمی کی حدت بھی اتنی ہی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ حویلی کا بڑا سا صحن اونچی چھتوں اور دیواروں کی وجہ سے فی الحال تیز دھوپ سے محروم تھا۔ چوہدرانی حاجرہ اور بے جی لسی اور تازہ مکھن کا اہتمام کیے تندور سے آنے والے پراٹھوں کا انتظار کر رہی تھیں۔
" اے سکینہ ! جا چھوٹے چوہدری اور اس کے ممان (مہمان) کو اٹھا دے۔ اپنے گھر کے ناشتے کے لیے ترس جاتا ہو گا۔ " بے جی نے پاس سے گزرتی ملازمہ کو بھیجا۔
"چھوٹے چوہدری وجاہت صاحب جی' وڈی اماں جی بلا رہی ہیں ، ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے جی ۔ " سکینہ نے اپنے بھاری ہاتھوں سے دروازہ پیٹتے ہوئے با ادب
پکار لگائی۔
" یہاں تو صرف ہم دونوں ہیں پھر یہ کس کا لمبا چوڑا نام لے رہی ہے بھئی ؟" رمیز نے اس ہنگامے میں مزید سونے کی کوشش کو ترک کر کے فراز کو جھنجوڑتے ہوئے پوچھا۔
" یار! یہ نام اس ناچیز کا ہی ہے۔ " فراز نے کراہتے ہوئے الزام قبول کیا اور سکینہ کو اپنے اٹھنے کی خوش خبری دینے کے لیے دروازہ کھول دیا۔
سکینہ دروازہ کھلتے دیکھ کر ہی رفو چکر ہوگئی ۔
" تجھے نہانا ہے تو چل۔۔۔۔ " فراز نے الجھے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے با آواز بلند جمائی کو آزاد کیا۔ " نہیں یار! میں خود نہا لوں گا، بچپن میں امی کے ہاتھوں نہاتا تھا تو بہت ڈرتا تھا۔ رگڑ رگڑ کے جسم میں درد کر دیتی تھیں۔ " رمیز مسکراہٹ دباتے ہوئے بڑی معصومیت سے بتا رہا تھا۔
" کیا مطلب ہے تمہارا۔" فراز نے آنکھیں پھاڑیں۔
" خود ہی تو کہا ہے کہ چل۔ " رمیز نے بھول پن کی انتہا کردی۔
" چل کے بچے' میں کہہ رہا تھا کہ ٹیوب ویل پر چلیں۔ اس وقت تازہ پانی آ رہا ہو گا۔ " فراز نے مضبوط ہاتھ کا گھونسہ اس کے شانے پہ جڑا تو رمیز منہ پھاڑ کے ہنستا چلا گیا۔
" چلو مرو اب۔" فراز نے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے گھسیٹا۔ دونوں کمرے سے باہر نکلے تو تخت پوش پہ ناشتے کا سامان رکھا جا رہا تھا ، تب ہی بڑے چوہدری بھی بیرونی دروازے سے نمودار ہوئے۔
”لے بھئی اب تو نہانا بھول جا اور ناشتے کے لیے تیار ہو جا۔" فراز نے اپنا اور اس کا تولیہ تار پہ ڈالتے ہوۓ سرگوشی کی۔
دونوں مشرقی حصے میں لگے ہینڈ پمپ کی طرف بڑھ گئے۔
" آجاؤ بھئی منڈیو (لڑکو) ۔ " چوہدری شجاعت علی نے گرج دار آواز میں پکارا۔ رمیز نے ندیدوں کی طرح بڑھ کر ناشتے کا جائزہ لیا۔ لسی کا بھرا ہوا جگ جس پہ تازہ تازہ سفید مکھن کے پیڑے تیر رہے تھے' دیسی گھی کے پراٹھے' ساتھ میں شاید آلو بینگن کا سالن تھا۔
رمیز کو کم از کم دیکھنے میں بھی بہت مزہ آیا۔
" او چوہدرانی صاحبہ! کوئی انڈے شنڈے نہیں بنائے' نہ فرائی ہے اور نہ آملیٹ۔۔۔۔" چوہدری شجاعت ناشتے کا جائزہ لیتے ہوۓ بد مزہ سے ہو گئے تھے۔
" یار! یہاں شنڈے نام کی کوئی نئی ڈش بنتی ہے۔" رمیز نے متجسس ہو کر سوال کیا۔ فراز نے اسے گھورا۔
انڈے آ گئے جی۔۔۔" سکینہ نے برق رفتاری سے ایک گہری پلیٹ لا کر سامنے رکھ دی جس میں درجن بھر دیسی ابلے ہوئے انڈے رکھے تھے۔
چوہدری شجاعت نے ماتھا پیٹا اور فراز خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
" چل بھئی اٹھ 'تجھے اپنے گاؤں کی سیر کرواؤں۔" فراز نے ممکنہ ہنگامے کے خوف سے رمیز کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً " زبردستی گھسیٹا۔ سورج اپنی پوری تابناکی کے ساتھ گرم گرم شعاعیں بکھیر رہا تھا۔ تیز دھار کرنیں گویا دونوں کی آنکھوں میں گھس گئیں۔
" ایک منٹ میں ذرا اپنے گلاسز لے آؤں۔" رمیز نے ہاتھ کا چھجا آنکھوں پہ رکھتے ہوئے فراز کی مضبوط گرفت سے ہاتھ چھڑانا چاہا۔
" پلیز یار۔۔۔۔ کلرڈ گلاسز سے یہ تپتا ہوا موسم بھی رنگین اور حسین لگے گا۔“ رمیز نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔
" اچھا تم مرو میں لے کر آتا ہوں ۔ " فراز نے جھنجلا کر کہا اور خود دوبارہ گھر میں داخل ہو گیا۔ "بے جی! آپ کو بھی خیال نہیں آیا کہ شہر سے مہمان آیا ہے، اس کے لیے کوئی ڈھنگ کا ناشتہ ہی بنا دیتیں۔" اندر سے چوہدری شجاعت کی غصے سے بھرپور آواز با آسانی با ہر آ رہی تھی۔
"بے جی ! ایناں نوں کہو شہر سے اپنے لیے کوئی پڑھی لکھی میم لے آئیں۔
مجھے نہیں آتے شہری ناشتے بنانے۔ "بھابھی کی روہانسی آواز ابھری۔
" نہ پتر ایسی بات نہیں کرتے، اللہ تجھے ہی سلامت رکھے۔ شہریوں کے نخرے کون اٹھائے گا۔ بڑی تیز ہوتی ہیں یہ پڑھی لکھی لڑکیاں اللہ بچائے بھئی۔ " ماں کی معصومانہ بات یہ فراز کو ہنسی آ گئی۔
" بے جی! آپ کو ہی مبارک ہو اپنی جاہل بھتیجی، مجھے تو ہر ایک کے سامنے شرمندہ ہی ہونا پڑتا ہے۔ آپ کو یہی سوغات ملی تھی میرے لیے۔۔۔۔"