قرض(Qarz)
ایک ایسی سمجھدار عورت جس نے بہت عقلمندی سے اپنے خاندان کے مسائل کو حل کیا۔
اردو کہانیاں


داور کے کمرے سے آتے میں میں مسلسل اضافہ ھوتا جا رہا تھا۔ اور جہاں آرا کی پریشانی بھی اسی قدر بڑھتی جا رہی تھی۔ صرف داور کی ہی نہیں بلکہ کہ اس کی بیوی کی آواز بھی کافی واضح تھی۔ محلے والوں کا سوچ سوچ کر انہیں اندر ہی اندر شرمندگی گھیر رہی تھی۔
ان کی بہو نے سویرے داور سے ماں کے گھر جانے کی فرمائش کی تھی۔ داور جلدی میں تھا اس لیے بات ان سنی کر دی اور آفس کے لیے نکل گیا۔ ردا نے نہ صرف اس کے جانے کے بعد شور مچایا بلکہ فون کر کے ماں کو بھی بلوا لیا۔ اور رو رو کر ان کو ساری بات بتائی۔ جہاں آرا اسے سمجھاتی ہی رہیں۔
شام کو تھکا ہارا داور گھر آیا تو ردا اور اس کی ماں تو جیسے اس کے لیے ہی بیٹھی تھیں۔ کمرے میں جاتے ہی دونوں ماں بیٹی نے اسے خوب سنائیں۔ تھکا ہارا داور کچھ دیر تو خاموشی سے سنتا رہا مگر اسے بھی غصہ آ گیا۔ اب وہ بھی ان کے مقابلے پر آ گیا۔ ساتھ والے گھروں کی عورتیں چھتوں پر چڑھ چڑھ کے تماشا دیکھنے لگیں۔ جہاں آرا دھڑکتا دل لیے کھلے دروازے سے اندر چلی آئیں۔
"ارے خدا کی پناہ! ابھی تو ایک ماہ بھی نہیں ہوا تم لوگوں کی شادی کو اور میری بیٹی کو اتنا کچھ سہنا پڑ رہا ہے۔" جہاں آراء کو دیکھتے ہی گلزار بیگم مزید تیز ہوئیں۔
" یہی تو میں کہہ رہا ہوں ہو آپ سے آنٹی! کے ذرا ہمیں بھی تو پتہ چلے کے کیا کیا سہہ لیا آپ کی لاڈلی نے اس ایک ماہ میں ہمارے گھر میں۔" داور نے حتی الامکاں اپنے لہجے کو مہذب رکھنے کی کوشش کی۔ورنہ وہ کس قدر غصے میں تھا اس کی آنکھوں اور لال چہرے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
" جب کھڑے کھڑے تم میری اتنی بے عزتی کر سکتے ہو تو میری بیٹی کے ساتھ تم کیسا سلوک رکھتے ہو گے۔ بچی ہوں جو نہ سمجھ سکوں۔'' گلزار بیگم ہاتھ نچاتے ہوئے بولیں۔ ردا ان کے ساتھ لگ گئی۔ رونے میں مزید تیزی آ گئی۔
"داور تم باہر چلو!" جہاں آرا نے اسی میں عافیت سمجھی کے ان سب کو الگ کر کے سمجھایا جائے۔
"ہاں ہاں۔ لے جاؤ۔ تمہارا ہی تو سبق ہے۔ بہو بیٹے کی خوشی تم سے دیکھی نہیں جاتی۔ ارے تم جیسی مائیں بیٹوں کو سہرا باندھتی ہی کیوں ہیں اگر اس کی خوشی برداشت نہیں کر سکتیں تو۔" گلزار کی بات پر جہاں آرا منہ کھولے رہ گئیں۔ وہیں داور ضبط سے ہونٹ کاٹنے لگا۔
"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں گلزار بیگم ! میں تو۔" انہوں نے صفائی دینی چاہی کہ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر ٹوک دیا۔
" بس بس۔ یہ ڈرامے صرف بیٹے کے سامنے ہی کرو تم۔ میں ان اداکاریوں میں آنے والی نہیں۔"
" آنٹی پلیز!" داور کی برداشت جواب دے گئی۔
جہاں آرا نے فورا اس کا بازو پکڑ کے اسے قابو میں کیا تھا۔
"بس۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔ ردا! تم سب سامان پیک کرو اپنا۔ اب تم یس گھر میں تب ہی قدم رکھو گی جب اس گھر کو تمھاری قدر ھو گی۔" گلزار بیگم کی بات پر داور ایک غصیلی نگاہ ردا پہ ڈالتا باہر نکل گیا۔ اور پھر جہاں آرا کے لاکھ روکنے کے باوجود وہ دونوں نہیں رکی تھیں۔
وہ نڈھال سی برآمدے میں پڑی چارپائی پہ آ کر سر تھامے بیٹھ گئیں۔ ڈرائنگ روم سے نکلتے داور نے ایک نظر اپنی ماں پر ڈالی اور بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا.
"امی دروازہ بند کر لیں میں شام تک آ جاؤں گا".وہ کہہ کر باہر چلا گیا مگر وہ وہاں ہوتیں تو سنتیں.
" آپ بات کی نزاکت کو نہیں سمجھتے."اماں نے نے تھکن زدہ لہجے میں کہا تو وہ جو دروازے کے قریب سے گزر رہی تھی ٹٹھک کے رک گئی.
" بات کی نزاکت کو تم نہیں سمجھ رہی نہیں بیگم ! جہاں آرا میری اولاد ہے اس کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں وہ مجھ پر بھاری نہیں۔" بابا نے دو ٹوک لہجے میں کہا.
" میں مانتی ہوں وہ آپ کو بے حد عزیز ہے۔ آپ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر اس کا گھر برباد نہیں کر سکتے ناں۔" اماں کی بات پر جہاں بابا چونکے وہیں دروازے سے لگی جہاں آرا کا دل بھی کانپ گیا.
" ابھی اس کی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور بجائے اسے اپنے گھر میں دیکھنے کے آپ اسے اپنے پاس رکھنے کا سوچ رہے ہیں۔" اماں بولتی رہیں۔ " بیٹیاں کسی پر بوجھ نہیں ہوتیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیٹیاں اچھی اپنے گھر میں ہی لگتی ہیں۔ میں مانتی ہوں کے اس کی ساس کو اتنا سخت رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا مگر کچھ قصور ہمارا بھی ہے۔ جہاں آرا کے ابا اگر آپ مجھے اسے گھر گر ہستی سکھانے دیتے تو آج اسے ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا.ماں باپ کی سب سے بڑی غلطی یہی ہوتی ہے کہ بیٹیوں کو وداع تو کر دیتے ہیں مگر انہیں سمجھانا بھول جاتے ہیں کہ ان کا اصل گھر شادی کے بعد ان کا سسرال ہوتا ہے. چھوٹی موٹی لڑائیاں تو ہر جگہ ہوتی ہیں۔ نو مہینے پیٹ میں پالنے والی ماں تو غصے میں کبھی ہاتھ بھی اٹھا لیتی ہے تو ساس کی ذرا سی گرمی پر اتنی آنا کیوں! اور میں جانتی ہوں کہ آزر بہت اچھا لڑکا ہے اس کے گھر والے بھی بہت اچھے ہیں۔ زرا سی رنجش کو دل کا میل نہ بنائیں۔ میں جہاں آرا سے بات کروں گی اور اس کی ساس سے بھی بات کروں گی دیکھئے گا سب ٹھیک ہو جائے گا.ابھی آزر کا فون آیا تھا لینے آئے گا جہاں آرا کو شام میں۔ آگے آپ کی مرضی۔"
اماں بات ختم کر کے چپ ہو گئیں۔ بابا نہ جانے کیا سوچ رہے تھے وہ بھی چپ چاپ دروازے سے ہٹ گئی.
"اماں بابا نے کیا سوچا؟"
اماں آزر کے آنے سے پہلے ہی اس کی خاطر مدارات کی تیاری میں لگی ہوئی تھیں کہ اچانک جہاں آرا نے ان کو پیچھے سے پکارا۔ انہوں نے مڑ کر ایک نظر اس کے پریشان چہرے پر پر ڈالی اور دوبارہ کباب بنانے لگیں۔
" یہ اہم نہیں بیٹا کہ بابا نے کیا فیصلہ کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ تم نے کیا فیصلہ کیا۔" انہوں نے کبابوں کی پلیٹ فریزر میں رکھی اورسنک میں ہاتھ دھونے لگیں۔ جہاں آرا شیلف سے ٹیک لگائے انہیں دیکھتی رہی۔ وہ ہاتھ دھو کر اس کے پاس چلی آئیں۔
" تمہیں یاد جہاں آرا! میں گھر کے کام کاج سے متعلق جب بھی تمہیں ڈانٹا کرتی تھی تم ہمیشہ بابا کو ڈھال بنا لیتی تھی۔ اگر اس وقت انہوں نے بھی تمہیں سمجھایا ہوتا یا مجھے سمجھانے دیا ہوتا تو آج تم یہ پریشانی نہ دیکھتیں۔ لیکن تمہیں پتہ ہے تم سے سب سے بڑی غلطی کیا ہوئی' تم نے چھوٹی سی بات کا ایشو بنا لیا اور ایشو جتنی جلدی کری ایٹ ہوتے ہیں اتنی ہی دیر لگتی ہے انہیں حل کرنے میں' اگر تم اسے معمولی بات سمجھ کراگنور کر دیتی تو آج سکون سے گھر بیٹھی ہوتی لیکن سچ کہوں تو ایسی چھوٹی چھوٹی بات کو ایشو بنانے میں میں تمہارے بابا کا بھی کردار ہے۔ تمہیں اب پہلے کی طرح ہر بات ان سے شیئر نہیں کرنی چاہیے بیٹا! تم اب ٹھنڈے دماغ سے اب پہلے خود سوچو اور اگر کسی مسئلے کا حل نہیں نکال سکو تو مجھ سے شیئر کرلو۔ مگر یوں چھوٹی سی بات پہ جھگڑ کر میکے چلے آنا یا ماں باپ کو دخل اندازی پر مجبور کرنا ٹھیک نہیں ہوتا بیٹا!"
انہوں نے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرا تھامتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا تو وہ رو دی۔ واقعی اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔
اور پھر وہ یس ی آخری غلطی تھی۔ اس دن جب بابا کو راضی کر کے وہ آزر کے ساتھ واپس چلی گئی تو دوبارہ کبھی اس نے اپنے گھر کی بات گھر سے باہر نہ نکالی تھی۔ جیسی بھی صورت حال ہوتی' وہ محبت اور ہمت سے ہینڈل کر لیتی۔ اپنی ماں کی ایک نصیحت باندھ لینے سے اس کی زندگی آسان تر ہوتی چلی گئی اور اس کا گھر خوشیوں کا گہوارا بن گیا۔
لیکن آج' اتنے سالوں بعد وہی چھوٹی غلطی ان کی بہو کر بیٹھی تھی۔ اور بد قسمتی یہ تھی کہ اس کی ماں' جہاں آرا کی ماں کی طرح اسے سمجھانے کی بجائے چھوٹی سی بات کو بڑھا رہی تھی۔
وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ جب بیٹیاں ماں باپ کا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر جاتی ہیں تو یہ ان کے لیے زندگی کی ایک نئی شروعات ہوئی ہے۔ اور بلکل اسی طرح جیسے بچپن میں انہیں بے انتہا نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدم قدم پہ انہیں سمجھانا پڑتا ہے۔ بالکل ویسے ہی شادی کے بعد بنا گھر اور ان کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کے لیے بھی انہیں ایک بہترین دوست اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جس قسم کا رویہ ردا کی امی نے ان کے گھر دکھایا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ردا کی مدد تو دور کی بات' الٹا اس معاملے کو بڑھا سکتی تھیں۔
انہیں اپنا گھر بہت عزیز تھا اور اپنا بیٹا اپنے گھر سے بھی زیادہ' اسی لیے انہیں اپنی بہو بھی عزیز تھی۔ وہ صرف ایک چھوٹی سی بات پہ یوں اپنے بیٹے کا گھر اجڑتا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ نہ ہی بیٹے بہو کی پریشانی ان سے برداشت ہو رہی تھی۔انہیں گلزار بیگم سے اب کسی قسم کی کوئی توقع نہ رہی تھی۔ انہوں نے تو الٹا معاملے کو سنگین بنانے کی کوشش کی تھی۔ کیونکہ جس قدر غصے میں وہ تھا' اس سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ مزید بگڑ جاتا۔
" مجھے خود ردا سے بات کرنی ہو گی۔ امی نے مجھے سمجھایا تھا کہ شادی کے بعد بچیوں کا سسرال ہی ان کا اصل گھر ہوتا ہے۔ ان کی حقیقی جائے پناہ ' اور ساس سسر اس کے ماں اور باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سسرال اور میکے کا فرق میں ختم کروں گی۔ میں ردا کو وہ سب سمجھاؤں گی جو میری ماں نے مجھے سمجھایا' مین اپنی پوری کوشش کروں گی کہ میری طرح ہی ردا پہلی ٹھوکر پر ہی سنبھل جاۓ۔ اور یہ غلطی اس کی بھی آخری غلطی ثابت ہو۔ اللہ میرے داور اور ردا کو ہمیشہ خوش رکھے۔"
وہ سوچتے ہوۓ کچن کی طرف چل دیں۔
" اور پھر مجھے اماں کا قرض بھی تو اتارنا ہے۔ اس سے بہتر موقع بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔" دل ہی دل میں مطمئن ہو کر فیصلہ کرتے ہوۓ وہ رات کا کھانا بنانے لگیں' ایک مرتبہ پھر سے خوشیوں بھرے گھر کی نئی امید لیے۔
The End