قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں اچانک اضافہ: عوامی ردِعمل اور اقتصادی تنقید کا مرکز

وائرلکاروبارخبریں

2/2/20251 منٹ پڑھیں

قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں اچانک اضافہ: عوامی ردِعمل اور اقتصادی تنقید کا مرکز

پاکستان میں مہنگائی، ٹیکس اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے تناظر میں اس خبر نے خاص طور پر عوامی شعور کو جھنجھوڑا ہے کہ عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کے سپیکر نے اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق ہر رکن کو یکم جنوری 2025 سے نظرثانی شدہ ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ 19 ہزار روپے فراہم کی جائے گی، جبکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور وہ اب بھی 2 لاکھ 18 ہزار روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں۔

پارلیمانی ذرائع کے مطابق یہ نوٹیفیکیشن آئندہ چند روز میں جاری کر دیا جائے گا، اور مسلم لیگ نون کے سینیٹر طلال چوہدری نے بی بی سی آسیہ انصر سے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے اور جنوری کی تنخواہ اضافے کے ساتھ ممبران کو ادا کی گئی۔ اگرچہ کچھ حلقوں کا موقف ہے کہ اس اضافے کے باوجود اسمبلی کے ارکان کی تنخواہیں سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں سے چھ گنا کم ہیں، لیکن اس فیصلے پر عوامی ناراضگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جب عام شہریوں کو مسلسل مہنگائی اور بڑھتے ٹیکس کا سامنا ہے تو حکمران اپنی آمدنی میں اضافے کو کس طرح جواز فراہم کرتے ہیں۔

عوامی ردِعمل میں سوشل میڈیا صارفین نے مختلف آراء پیش کی ہیں؛ کچھ کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے سے اتنا زیادہ ٹیکس لیا جا رہا ہے کہ ملک مقروض ہو چکا ہے، جبکہ دیگر نے الزام لگایا ہے کہ حکمران اپنی ذاتی خوشحالی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایکس پر مصباح اور اشوک سوین جیسے صارفین نے اس اضافے کو غیر متناسب قرار دیا ہے اور کہا کہ عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی بجائے اپنے ہی مفادات کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔

پارلیمانی اُمور کے ماہرین کے مطابق اراکینِ پارلیمنٹ کو سفری ٹکٹس، یومیہ الاؤنس اور دیگر مراعات بھی دی جاتی ہیں جس سے ان کا کُل خرچ ایک فل ٹائم جاب کے برابر ہوتا ہے۔ احمد بلال محبوب کے بقول، اگرچہ اراکین کی محنت اسمبلی کے فلور پر نظر نہیں آتی لیکن ان کی ذاتی اور حلقائی ترقیاتی سرگرمیاں ان کے کام کا حصہ ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے محقق صدام حسین کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وفاقی قانون سازوں کے اخراجات سالانہ اربوں روپے تک پہنچ جاتے ہیں، جس سے سوال اُٹھتا ہے کہ ایسے حالات میں اچانک تنخواہوں میں اتنا بڑا اضافہ کیوں ضروری قرار دیا گیا۔

حکومتی موقف کے مدنظر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی میدان میں قابل افراد کو راغب کرنے کے لیے مناسب مراعات فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ سیاست میں صرف امیر طبقہ ہی نمایاں نہ ہو۔ لیکن عوام کے نظریے میں یہ فیصلہ ایک طرف حکومتی مفادات کو ترجیح دینے کا اشارہ ہے جبکہ عام آدمی کی مشکلات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔