بکھرے خوابوں کی تعبیر

قسط نمبر: 2

وائرلاردو کہانیاں

ناہید چوہدری

1/30/20251 منٹ پڑھیں

بڑے بھائی کی غصے سے بھری شکایتی آواز پہ فراز نے گھبرا کر بیرونی دروازے کی سمت دیکھا کہ کہیں رمیز نہ آ جائے۔ وہ دوڑ کر اپنے کمرے میں گیا اور ڈارک گلاسز لے کر باہر نکلا۔

" کہاں رہ گئے تھے یار!" رمیز گرمی کے ہاتھوں حال سے بے حال ہو رہا تھا۔ تپش سے سرخ چہرے پہ پسینہ قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا۔

" ارے تم تو بالکل ٹماٹر بن گئے ہو۔" فراز نے گلاسز اس کی آنکھوں پہ لگاتے ہوئے چھیڑا ۔

" کہیں کھا نہ لینا لہذا اب چل دو۔“ رمیز نے پسینہ پونچھتے ہوئے جلدی سے کہا۔

" واہ بھئی' آج تو واقعی ناشتے کا مزہ آ گیا۔ " صبا نے ندیدے پن سے انگلی بھر کر مکھن منہ میں ڈالتے ہوئے چٹخارہ لیا۔

"ہائے اللہ۔۔۔۔۔ " ثمین بے ساختہ اچھل پڑی۔

" اب کیا ہوا۔ ثمین ! تم تو مجھے دل کا مریض بنا کر بنا چھوڑو گی ۔" فرحین نے ناشتے سے فراغت کے بعد سفید چادر اپنے گرد لپیٹتے ہوئے جھنجلا کر کہا۔ آج میں نے دو پراٹھے کھا لیے ہیں اس لیے۔ " ثمین نے بسورتے ہوئے گویا ندامت کا اظہار کیا تو فرحین ہنستے ہوئے ملازمہ کے ساتھ اسکول کے لیے نکل گئی۔

" ہائے ۔۔۔۔ وہ تو میں نے بھی کھائے ہیں۔" صبا بھی پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر پریشان ہو گئی۔

" ساری ڈائٹنگ کا ستیا ناس ہو گیا۔ " ثمین نے اپنے ندیدے پن کو کوسا۔

" ارے کچھ نہیں ہوتا، کبھی کبھی خالص غذا بھی کھانی چاہیے۔ ہمارے وقتوں میں تو ہر چیز دیسی گھی میں بنتی تھی اور چوری پراٹھے تو روزانہ ہوتے تھے' تب ہی تو آج کے جوانوں سے زیادہ طاقت ہے۔" پھپھونے فرحین کے چھوڑے ہوئے پراٹھے کو کھاتے ہوئے گویا انہیں تسلی دی۔

" لیکن پھپھو! اگر ہم اسی طرح یہاں آتے اور کھاتے رہے تو بہت جلدی ڈھول بن جائیں گے ، آخر کب تک آپا یہاں رہیں گی۔ نجانے آپ لوگوں کا دل کیسے یہاں لگ گیا ہے اور اگر آپ کو گاؤں میں ہی جاب کرنی ہے تو اپنے گاؤں میں کرتیں۔ اس گاؤں سے کہیں بہتر ہے۔ " ثمین نے منہ بناتے ہوئے ناگوار لہجے میں کہا۔

" لو بیٹے! اس بہتر کو کوئی اور مزید بہترین بنا دے گا۔ اس گاؤں کے بچوں کو فری کی زیادہ ضرورت ہے' مجھے تو یہاں بہت مزہ آ رہا ہے۔ بڑے اچھے پُر خلوص لوگ ہیں یہاں کے' سادہ سے۔ " پھپھونے اب ناشتے کے برتن سمیٹنا شروع کر دیے تھے۔

" سادہ لوگ۔۔۔ " ثمین کو گویا کرنٹ لگا ہو۔ اس بد تمیز لڑکے کے ہاتھوں جو درگت بنی تھی ذہن میں پھر سے تازہ ہو گئی۔

"میرا بس چلے تو ان سادہ لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا دوں۔ " کھڑے ہو کر سیاسی لیڈر کے سے انداز میں ہاتھ لہرا کر کہا۔

" بہت بُری بات ہے بیٹے! آخر ان لوگوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ نماز پابندی سے پڑھا کرو ورنہ شیطان اسی طرح بہکاتا رہے گا۔ چلو اب تم دونوں ذرا گھومو پھرو ، لوگوں سے ملو' جاؤ شاباش۔ "

پھپھو تحکمانہ انداز میں کہتی ماسی سے کام کروانے لگیں۔

" گڈ آئیڈیا۔ چلو آپی کا اسکول ہی دیکھیں۔ کیسے بچوں کو پڑھا رہی ہیں اور بچے کیسے پڑھ رہے ہیں۔" صبا نے جھٹ سے سلیپر پہنے۔

" ہوں۔۔۔۔ چلو۔۔۔۔ لیکن اتنی گرمی میں۔۔۔۔ باہر چمکتی دھوپ دیکھ کر ثمین بدک گئی۔

" بھئی آج کا ہی وقت ہے' کل تو ہماری واپسی ہے۔

" پلیز چلونا' اسی ایڈونچر میں تو مزہ ہے۔" صبا مچل گئی۔"

" اوکے بابا! اب نکلو باہر ۔" ثمین نے گویا ہتھیار ڈال دیے اور دونوں پھپھو کوبتا کر گھر سے نکلیں۔ سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی چھوٹی سی بلکہ تنگ سی گلی جس کے دونوں طرف چھوٹے بڑے کچھ کچے اور کچھ پکے مکان بنے ہوئے تھے۔ گھروں کے سامنے سے گندے پانی کی نالیاں گزر رہی تھیں۔

" اُف۔۔۔۔" ثمین نے کراہیت کے احساس سے ناک اور منہ پر دوپٹہ رکھ لیا۔

دونوں ناک بھوں چڑھاتی تنگ گلیوں کی بھول بھلیوں سے باہر نکلیں تو سامنے پھیلے ہرے بھرے کھیتوں کے سلسلے کو دیکھ کر دونوں نے گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے تازہ ہوا کے ذخیرے کو اپنے اندر جمع کیا۔

"اُف اس گرمی نے سارا مزہ کرکرا کر دیا ہے۔" ثمین نے دوپٹے سے چہرہ رگڑ ڈالا۔

" کسی سے آپی کے اسکول کا پتہ پوچھوں؟ صبا نے کچھ خواتین کو دروازوں سے جھانکتے دیکھ کر ثمین سے سرگوشی میں پوچھا۔

" کوئی ضرورت نہیں ، پہلے ہی مزہ نہیں چکھا؟ میں خود ڈھونڈ لوں گی۔ " ثمین نے ان خواتین کو گھورتے ہوئے جل کر کہا۔

" پہلے ہم کھیتوں کا جائزہ لیں گے کہ آخر کون کون سی فصل تیار ہو رہی ہے۔" ثمین یوں بولی جیسے حکومت کی طرف سے معائنے کے لیے آئی ہو۔ ارد گرد سے گزرتے ہوئے لوگ انہیں گھور رہے تھے ۔

" دیکھا لوگ ہمیں کیسے غصے سے دیکھ رہے ہیں۔" ثمین نے گویا صبا سے شکایت کی۔

" تمہیں نہیں، تمہارے حلیے کو دیکھ رہے ہیں۔" صبا نے ہاتھ کا چھجا آنکھوں پر رکھتے ہوئے سمجھایا۔

" کیا مطلب؟ کیا میں نے منی اسکرٹ پہنا ہوا ہے ؟" ثمین کو کرنٹ چھو گیا۔

" ارے۔۔۔۔ مم۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اس گاؤں کی سادہ حلیے والی خواتین کے مقابلے میں ہمارے کپڑے ذرا ماڈرن اسٹائل کے ہیں، شاید اس لیے۔"

" ایک تو میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس بات سے یہ لوگ سادہ کیسے ہو گئے۔ ہمارے کپڑے جدید اسٹائل کے ہیں تو ہم چالاک ہو گئے؟"

" اچھا دفع کرو یار! یہ دیکھو، مکئی کے کھیت۔۔۔ اف کتنی بڑی بڑی چھلیاں (بھٹے) ہیں۔ " صبا نے جوشیلے انداز میں دو تین چھلیاں توڑ لیں، جبکہ ثمین درمیان میں بنی پگڈنڈی پہ چلتی چلی گئی۔ کھیتوں کے درمیان مختلف سبزیاں لگی ہوئی تھیں۔ کہیں ہے سرخ سرخ ٹماٹر جھانک رہے تھے تو کہیں لمبی لمبی

صاف ستھری بھنڈیاں - سبز سرخ مرچیں۔

"ہائے اللہ ثمین ! یہ دیکھو کتنے سارے تربوز - ہائے کاش ہم کوئی چھری وغیرہ لے آتے۔ " صبا نے للچاتے ہوئے ہونٹوں پہ زبان پھیری کہ جلتی دھوپ نے پیاس کا احساس بڑھا دیا تھا۔ کھیتوں کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ درمیان میں آموں سے بھرا باغ آ گیا۔ گھنے درختوں کا سلسلہ میلوں پہ پھیلا ہوا تھا۔ کچے پکے آموں سے لدے درخت دیکھ کر دونوں دیوانی سی ہو گئی۔

گرمی بھول بھال ایک نزدیکی اور چھوٹے قد کے درخت کو دیکھ کر ثمین نے دوپٹہ کمر میں باندھا اور چپلیں اتار کر درخت پہ چڑھنے کی کوشش شروع کردی۔ صبا نے اس کی تقلید کی اور تھوڑی دیر میں دونوں درخت کی ایک مضبوط اور محفوظ شاخ پہ قبضہ جما چکی تھیں۔ بازو کئی جگہ سے چھل چکے تھے لیکن لالچ اور جوش میں درد کا ہوش کسے تھا۔

" اتنا میٹھا آم میں نے زندگی میں پہلی بار کھایا ہے۔ " ثمین نے ایک چھوٹا سا پیلا آدم دوپٹے سے رگڑنے کے بعد منہ میں دبا کر چوسا۔

" واقعی اس طرح بیٹھ کر کھانے کا تو مزہ ہی کچھ اور ہے۔"

چوکیدار باغ میں داخل ہوا تو سارے درختوں کا جائزہ لیتے ہوئے پستہ قد درخت کے قریب پہنچا اور اس کے نیچے ادھ کھائے کچے اور پکے آم زمین پر گرے دیکھے تو خونخوار نظروں سے چاروں سمت دیکھا کہ گاؤں کے شریر بچے روزانہ اسے تنگ کرنے آ جاتے تھے لیکن جب سے نئی ٹیچر آئی تھی بچوں کا آدھا دن تو اسکول میں ہی گزر جاتا تھا۔

" تو… پھریہ آم چور کون ہیں ؟ گھنے درخت کو اپنی بوڑھی آنکھوں سے کھنگالنے کی کوشش کی تو رنگین کپڑوں تک رسائی ہو ہی گئی۔

چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کی جستجو میں الٹے قدموں دوڑا۔

"چھوٹے چوہدری جی ۔" خوش قسمتی سے فراز اور رمیز ادھر ہی آ رہے تھے۔

"کی گل اے کرم دین ؟" فراز نے پریشانی سے پوچھا۔

" امباں نوں چور پے گئے جی۔ " (آموں کو چور پڑ گئے۔)

" چور اور اس وقت۔ یہ کام تو یار لوگ رات میں کیا کرتے ہیں ۔ " رمیز نے حیرت کا اظہار کیا۔

"بہت تجربہ ہے آپ کو۔" فراز نے طنز کیا۔

"بہرحال دیکھیں تو کون بہادر خان ہے۔ " فراز نے کہتے ہوئے قدموں کی رفتار تیز کردی اور اگلے لمحے وہ اپنے باغ میں داخل ہو رہا تھا۔

"یار سنبھل کے مجھے تو کچھ اور چکر لگ رہا ہے۔" رمیز نے خوف زدہ نظروں سے کڑک تپتی دھوپ میں ساکن کھڑے درختوں کو دیکھتے ہوئے خائف سے لہجے میں کہا۔

"کیسا چکر بھئی ؟" فراز نے کوفت بھرے انداز میں درختوں کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ بالاخر مطلوبہ درخت نظر پڑی گئی ۔ تب ہی اس نے کراہ کر اپنے شانے پہ ہاتھ رکھا۔ ہونٹ دانتوں میں رہاتے ہوئے درخت کی سمت حیرت سے دیکھا۔ "کی ہو یا جی؟" (کیا ہوا؟) کرم دین اور رمیز بے چینی سے اس سے پوچھنے لگے لیکن فراز کے جواب دینے کی نوبت ہی نہیں آئی ان لوگوں پہ گویا آموں کی بارش شروع ہو گئی۔

اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتے' دونوں تیزی سے

اتریں اور درختوں کے جھنڈ میں چھپ گئیں۔ رمیز اور فراز حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔

رمیز کی نیت اتنے آم دیکھ کر خراب ہو چکی تھی' کہ وہ آموں سے انصاف کرنے بیٹھ گیا اور فراز کو بھی دعوت دے ڈالی۔

ثمین اور صبا نے مقع غنیمت جانا اور باغ سے نکل کر گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔

صحن کے آخری حصے میں لگا جامن کا درخت بڑی فراخ دلی سے اپنے سائے میں بیٹھنے کی دعوت دے رہا تھا۔ تین کمروں پر مشتمل یہ کچی پکی دیواروں والا گھر کچی اس وقت کوئی اچھا تاثر نہیں دے رہا تھا۔ شکر کیا کہ کل ان کی روانگی تھی۔ ثمین صبا کی دعوت یہ ہینڈ پمپ سے نکلنے والے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے تپتے ہوئے چہرے پر ڈالنے لگی۔

فرحین آج گھر سے پکا ارادہ کر کے نکلی تھی کہ آج اس بے سہارا اسکول کے نام نہاد مالکوں سے ضرور مل کر رہے گی جو آج کے معصوم پھولوں اور مستقبل کے معماروں کے مستقبل سے کھیل رہے تھے۔ اسکول کی نا گفته به حالت پہ روز ہی اس کا دل جلتا تھا۔ عجیب ہے سرو سامانی کا عالم تھا۔

سوائے ٹاٹ کے بچھونوں اور ایک عدد علامتی بلیک بورڈ کے علاوہ کچھ نظر نہ آتا تھا۔ کہیں کہیں سے چار دیواری بھی غائب تھی۔

اس طرح کے اسکولوں کے بارے میں وہ اخباروں میں پڑھا کرتی تھی یا پھر چند ایک فلموں میں دیکھا تھا کہ گاؤں کے چوہدری صرف اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے اسکولوں کو ہر سہولت سے محروم رکھتے تھے۔ بہانہ یہ کہ اگر سارے بچے اسکول و کالج میں پڑھنے لگئے تو کھیتوں میں کام کون کرے گا۔

" اونہہ۔۔۔۔ " دوپٹہ سر پر جماتے ہوئے نفرت سے ہنکارا بھرا اور ماسی کو آواز دی۔

"جی باجی۔۔۔" صغری دوڑی آئی۔

چوہدری صاحب سے ملاقات کیسے ہو سکتی ہے صغری؟" فرحین نے گھڑی پہ وقت دیکھتے ہوئے پوچھا۔ گھڑی کی سوئیاں بارہ کے ہند سے پہ اکٹھی ہو چکی تھیں۔

"آپ چوہدری جی سے ملیں گی ؟" صغری نے حیرت سے اس دھان پان سی دلکش سراپے والی ماسٹرنی کو بغور دیکھا۔

" ہاں 'کیوں۔ خواتین کے ان سے ملنے پر پابندی ہے یا وہ پردا کرتے ہیں۔ میں آج ہر حال میں چوہدری صاحب سے مل کر رہوں گی۔" فرحین کے خوبصورت چہرے پہ سختی دیکھ کر صغری ہونٹ دانتوں میں دبا کر رہ گئی۔

" شہری لڑکیوں کو کسی کا ڈر و خوف نہیں ہوتا ۔" کسی بڑے بوڑھے کی بات سوچ کر چپ چاپ فرمین کے پیچھے ہو لی۔

" آپ ان کے گھر جاؤ گی باجی جی یا ڈیرے یہ ؟"

" اس وقت وہ کہاں مل سکتے ہیں ؟" فرحین نے تپتی دھوپ سے بچنے کے لیے چھوٹا سا ہینڈ بیگ پیشانی پر ٹکاتے ہوئے پوچھا۔ جوں جوں گھڑی کی سوئیوں کا سفر آگے بڑھ رہا تھا گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ فرحین پسینے میں نہا رہی تھی۔

" اس وخت (وقت) تو باجی وہ ڈیرے پر ہوں گے۔" صغری کا انداز ٹالنے والا تھا۔ ظاہر ہے اسے بھی گھر بار دیکھنا تھا۔ چھوٹے بچے، تنک مزاج ساس' غصیلے شوہر کی ضروریات کا خیال رکھنا تھا۔

" وہیں چلو۔ " فرحین کالجہ فیصلہ کن تھا۔

" پر جی۔۔۔۔ آج تک کوئی عورت ان کے پاس ڈیرے پر نہیں گئی جی۔ " صغری نے بے بسی سے وضاحت کی۔

اب وہ دونوں گاؤں کی تنگ گلیوں سے نکل کر کھلی فضا میں آ گئی تھیں۔ فضا میں تپش کے ساتھ ساتھ جس بھی بڑھتا جا رہا تھا۔

مسلسل چلنے سے فرحین کی سانس بھی پھولنے لگی تھی۔

" اچھا' ڈیرا کہاں ہے ؟" فرحین نے تھکے تھکے لہجے میں پوچھا۔

" وه۔۔۔۔ صغری نے " وہ" کو لمبا کھینچ کر انگلی سے جس سمت اشارہ کیا، یعنی وسیع و عریض کھیتوں کے درمیان مٹی کے کمرے کے گرد بنی چار دیواری کے بیچ لگے گھنے درختوں کے نیچے بچھی ہوئی چارپایوں پہ چند لوگ بیٹھے نظر آئے۔ ان تک پہنچنے کا راستہ فرحین کی سانس روکنے کے لیے بہت تھا۔

اس نے وہیں سے پلٹ جانا غنیمت سمجھا۔

" تو پھر چوہدری صاحب سے ملاقات کیسے ہوگی ؟"

وہ جیسے ہار گئی۔

" شام کو جی وہ اپنے گھر میں پنچایت لگاتے ہیں میں آپ کو لے چلوں گی جی۔ " صغری اس کا فیصلہ بدلنے پر چمک کر بولی۔

" میں خود ہی چلی جاؤں گی ۔ " منہ ہی منہ بر بڑاتے ہوئے اس نے اپنے گھر کی راہ لی۔

" یہ بڑے لوگ بھی نا۔ اپنی حکومت میں اپنے اور اپنے احباب کے لیے سب کچھ ضروری اور ناجائز کو بھی جائز سمجھیں گے لیکن جیسے ہی کسی کام میں غریب کا مفاد نظر آیا، فورا اپنے بے جا اور بودے اصولوں کی فولادی دیوار ان کے راستے میں کھڑی کر دیں گے کہ غریب بے چارہ اس دیوار سے سر ٹکرا کر مر تو سکتا ہے لیکن اس دیوار میں تو کیا اپنے سخت دل حکمران کے دل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ " اونہہ۔۔۔ دیکھ لوں گی ان بڑے میاں کو۔" فرحین کے تصور میں ڈرامہ "وارث" کے چوہدری حشمت کا حلیہ آ گیا۔ سر پر بڑی سی سفید پگڑی ، سرخ آنکھوں یہ سفید اور گھنی بھنویں اور سفید ہی بڑی بڑی اوپر کو مڑی ہوئی مونچھیں کافی ڈراؤ نا منظر پیش کرتی تھیں۔

اپنے بچے چاہے امریکہ میں پڑھتے ہوں' یہ لوگ اپنے علاوہ کسی کو ترقی کرتا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ آخر کسی کو تو آواز اٹھائی ہے۔ بے بس اور مجبور لوگ اپنے حق کے لیے بھی آواز اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ میں دیکھوں گی کہ ان بے بس لوگوں کے لیے کیا کر سکتی ہوں۔"

تھکی ہاری گھر میں داخل ہوئی تو پھپھو ، بیسن کی روٹیوں پہ دیسی گھی لگائے اور لسی کا جگ تیار کیے منتظر تھیں۔ پودینے کی چٹنی بھی تیار تھی۔ لنچ کے مینیو پر ثمین کا منہ بن گیا جبکہ فرحین ندیدوں کی طرح کھانے پہ ٹوٹ پڑی۔

" تینوں خواتین کو شوق و رغبت سے کھاتے دیکھ کر نا چار ثمین نے بھی نوالہ توڑ کر منہ میں رکھا۔ ڈرتے ڈرتے چبایا اور پھر "بڑا مزا آیا " کے مصداق کھانے کی رفتار بڑھا دی۔

ا! آج کا دن کیسا گزرا اسکول میں ؟" صبا نے دلچسپی سے پوچھا۔

" انتہائی تکلیف دہ' تلخ اور غصے میں کھولتے ہوئے۔ " فرحین نے سرد آہ بھرتے ہوئے پر سوچ لہجے میں بتایا۔

" ویری گڈ! اس کا مطلب ہے کہ آپ ہمارے ساتھ چل رہی ہیں۔ " ثمین نے خوش ہو کر بچوں کی طرح تالی بجائی۔ اس کا خیال تھا کہ فرحین خستہ حال سرکاری اسکول سرکار کے حوالے کر کے اپنے پُر آسائش شہر اور بہترین اسکول کی طرف لوٹ چلے گی۔

" جی نہیں، ہم آج ہی چوہدری صاحب سے ملنے جائیں گے۔" فرحین نے کھانے سے انصاف کرتے ہوئے حتمی لہجے میں فیصلہ سنانے کے بعد لسی کا دوسرا گلاس چڑھایا اور پیٹ پہ ہاتھ رکھے وہیں چٹائی پہ لیٹ گئی کہ کھانا ضرورت سے زیادہ ہی کھا لیا تھا۔

پھپھو نے کھانے کے برتن صبا کی مدد سے اٹھائے اور وضو کرنے چلی گئیں۔

عصر کی نماز کے بعد پھپھو نے ثمین سے کہا کہ وہ چائے بنائے۔

"میں پھپھو!" ثمین صدمے سے گویا نڈھال ہو گئی۔ چائے وہ بھی لکڑی کے چولہے پہ جبکہ چولہا بالکل ٹھنڈا ہو۔

"جی تم۔۔۔۔ کہ تمہارا نام ہی ثمین ہے۔ " فرحین نے جائے نماز تہہ کرتے ہوئے چڑانے والے لہجے میں کہا تو صبا اس کی حالت دیکھ کر زور سے ہنس پڑی۔ " بے فکر رہو۔ چولہا میں جلائے دیتی ہوں۔" ثمین پہ ترس کھاتے ہوئے مدد کی آفر کی تو ثمین کی جان میں جان آ گئی۔

اور پھر لکڑیوں کو سلگاتے ہوئے آنکھوں سے بہتے آنسو اور دھوئیں کو پینے کے بعد کھانستے ہوئے اس کی گاؤں سے نفرت میں اضافہ ہی ہو تا چلا گیا۔

" جلدی کرو چائے کے بعد ہمیں چوہدری صاحب کی حویلی بھی جانا ہے۔ " فرحین نے ہانک لگائی۔

" ہونہہ" نجانے انہیں کون سے سونے کے میڈل مل جائیں گے۔ ہم نے کوئی ٹھیکہ لے رکھا ہے اس گاؤں کی بھلائی کا۔ " ثمین نے لکڑیوں کے ساتھ سلگتے ہوئے اس گاؤں یہ زور دیا ۔

" اچھا بس بے کار باتیں بند کرو، اچھی سوچ اور اچھے عمل کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔ جس وقت اور جہاں بھی آپ کی ضرورت پڑے دوسروں کی مدد کرو ۔" فرحین نے ناصحانہ لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی جس کا جواب "اونہہ " کی صورت ملا تو شا نے جھٹک کر اپنے کپڑوں کا جائزہ لینے لگی۔ سرخ اور آسمانی پرنٹڈ لان کا سوٹ اور ہم رنگ دوپٹہ بالکل مناسب لگا۔ صبا پھونکیں مار مار کر ادھ موئی ہو رہی تھی ۔

" پھپھو پلیز۔۔۔ ماسی کو فل ٹائم کے لیے رکھیں نا' ہم تو کل چلے جائیں گے لیکن آپ کو کتنی مشکل ہو گی۔ " ثمین نے ساس پین چولہے پہ رکھتے ہوئے متفکر لہجے میں مشورہ دیا۔ لکڑیوں نے بالا آخر آگ پکڑ لی تھی۔

" رکھ لوں گی بیٹے' تم فکر نہ کرو۔" پھپھونے تار سے دھلے کپڑے اتارتے ہوئے اسے دلاسا دیا۔

" لاؤ ' چائے میں نکالتی ہوں۔ تم لوگ جلدی سے اپنے حلیے درست کر لو اور سنو' بڑے بڑے دوپٹے یا پھر چادریں اوڑھ لینا۔" فرحین نے بھاپ اڑاتی چائے کپوں میں انڈیلتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

" واٹ' چادریں۔" ثمین اچھل پڑی۔ صبا بھی اس انوکھے حکم پہ جزبز ہو کر پہلو بدلنے لگی۔

" تو اس میں ایسی کون سی غلط بات ہے ثمین ! انسان کو اپنے ماحول کے مطابق رہنا چاہیے۔ تم نے سنا تو ہوگا کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ اب ان سیدھی سادی گھریلو ماحول کی خواتین کے سامنے تمہارے یہ اوٹ پٹانگ فیشن کتنے برے لگیں گے۔ ویسے بھی تم لوگ ایک بزرگ سے ملنے جا رہی ہو ، نیک مقصد ہے۔ اگر ہماری چھوٹی سی بات سے کسی بزرگ کا دل خوش ہوتا تو ہے اس میں بھلا ہمارا کیا نقصان ہے۔"

پھپھو نے کپڑوں کی تہہ لگاتے ہوئے انہیں سمجھانے کے لیے اچھا خاصا لیکچر دے ڈالا تو ثمین خاموش ہو گئی۔

" کم آن گرلز ۔ میں چاہتی ہوں ہم لوگ مغرب سے پہلے پہلے واپس آ جائیں۔ وہاں نجانے کتنی دیر لگ جائے۔ ایک تو پرانے وقتوں کے روایت پسند بوڑھوں کو کچھ سمجھانا بھی ایک عظیم مرحلہ ہے۔" فرحین روانی سے بول گئی تو پھپھو نے اسے تنبیہی نظروں سے گھورا۔

" اوہ سوری۔۔۔" فرحین اپنے الفاظ پر غور کر کے شرمندہ ہو گئی۔

" میرا خیال ہے آپا! آپ خود ہی چلی جائیں اور۔۔۔ ساتھ میں پھپھو کو بھی لے جائیں۔ " ثمین نے جھٹ سے کہہ دیا۔

"اچھا ٹھیک ہے پھر تم لوگ رات کا کھانا پکا لینا۔" پھپھو نے آخری کپڑے کو سمیٹتے ہوئے اطمینان سے کہا تو چائے کا آخری سپ ثمین کے گلے میں پھنس گیا۔ اس کے کھانسنے پر پھپھو اور فرحین کو ہنسی آ گئی۔

" میں چادر لے کر آتی ہوں۔" صبا کی فرمانبرداری پروه ہنس دیں۔

خدا خدا کر کے تینوں گھر سے روانہ ہو گئیں۔ فرحین کو بھی پھپھو کی سفید چکن کی چادر لینا پڑی۔

اپنی گلی سے نکلتے ہی ایک گھر کے سامنے عورتوں کا ہجوم انہیں پریشان کرنے کے لیے بہت تھا۔ دل بے ساختہ دھڑک اُٹھے۔

زیادہ تر خواتین ہی تھیں اور سب کی خواہش تھی کہ کسی طرح گھر میں گھس جائیں۔ تیز تیز قدموں سے وہ قریب آئیں تو اندر سے دھواں دھار ہنگامے کی

آوازیں آ رہی تھیں۔

" کیا ہوا خیر تو ہے؟" فرحین نے ایک تیرہ چودہ سالہ لڑکی سے پوچھا۔

"خیر۔۔۔۔ تو اس گھر میں مشکل سے ہی ہوتی ہے جی۔ آپا رضیہ اور پاء شیدا تو لڑتے ہی رہتے ہیں۔ لڑکی نے خاصی بیزاری سے بتایا۔

" کیوں، میرا مطلب ہے کس وجہ سے لڑتے ہیں۔" فرحین سارا کچا چٹھا جاننے کو بے قرار ہو گئی جبکہ ثمین نے مارے کوفت کے اس کا بازو گھسیٹا۔

" رکو تو ذرا ۔ " صبا کا تجسس بھی عروج پر تھا۔ اندر سے خوب گالم گلوچ اور مارکٹائی کی آوازیں آ رہی تھیں۔

" اُف کس قدر جہالت ہے۔ " ثمین ناگواری سے بڑبڑائی۔

" آج کس بات پہ جھگڑا ہوا ؟" صبا نے دلچسپی سے پوچھا۔

" آج آپا رضیہ کھیتوں یہ کھانا نہیں لے کر گئی تھی' اس کی طبیعت خراب تھی۔ بس پاء شیدے نے آتے ہی لڑائی شروع کر دی اور پاء شیدے کے ہاتھ چلتے ہیں اور آپا رضیہ کی زبان۔" لڑکی نے انہیں بغور دیکھتے ہوئے بتایا۔

" اونہہ۔۔۔۔ زہر لگتے ہیں ایسے مرد مجھے جو عورت پے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اپنی بیوی کو سب کے سامنے تماشا بنا دیتے ہیں۔ ایک دن کھانا نہیں کھاؤ گے تو مر تھوڑی جاؤ گے۔ بیوی کے بھی مساوی حقوق ہیں' کیا کبھی کسی عورت نے شوہر پہ ہاتھ اٹھایا کہ آج تو کچھ کما کر کیوں نہیں لایا۔ یا یہ کہا کہ آج بچوں کی دیکھ بھال تم کرو۔" غصے اور جوش سے ثمین کی آواز اونچی ہو گئی تو بہت سی خواتین اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

" ٹھیک کہندی اے۔ " (ٹھیک کہہ رہی ہے) ایک جوان عورت چھوٹے سے بچے کو شانے سے لگائے ہوئے اس کی حمایت میں بولی۔

" کی ٹھیک کہندی اے۔" ایک بوڑھی خاتون چمک کر بولیں۔ " مرد ذات اچی (اونچی) ذات۔۔۔۔ اللہ نے اودا درجہ اُچا رکھیا اے' عورت دا کی کم کہ مرد دے اگے زبان چلائے۔ " (مرد کا درجہ اللہ تعالی نے بلند رکھا ہے۔ عورت کا کیا کام کے مرد کے سامنے زبان چلائے۔)

دونوں خواتین ایک دوسرے کے سامنے لڑاکا انداز میں تن کر کھڑی ہو گئیں اور بحث و تکرار میں دوسری خواتین بھی حصہ لینے لگیں۔

فرحین نے گھبرا کر انہیں دیکھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔

"یہ کیا آگ لگا دی تم نے۔ " فرحین نے پریشانی سے بڑبڑاتے ہوئے ثمین کو گھورا۔

"میرا کیا قصور۔۔۔۔ یہی تو جہالت ہے۔ " ثمین نے لاپروائی سے شانے جھٹکے۔

" نکل چلو یہاں سے' کہیں ہم ان کی جہالت کی نذر نہ ہو جائیں۔" فرحین نے رش میں سے نکلتے ہوئے تیز آواز میں کہا تو وہ دونوں بھی چل پڑیں۔

چوہدری صاحب کی حویلی ڈھونڈنے میں بھلا دشواری کیسے ہو سکتی تھی۔

پرانے طرز کی لال اینٹوں سے بنی ہوئی وسیع و عریض حویلی ان کی نظروں کے سامنے تھی۔ ڈوبتے سورج کی سرخی آسمان یہ تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی اور گاؤں کی سادہ زندگی گھروں کی چار دیواری میں سمٹ رہی تھی۔ تندوری دہکائے جا رہے تھے۔ دھوئیں کے مرغولے فضا میں تحلیل ہو رہے تھے۔ جب فرحین نے حویلی کے بڑے سے دروازے پہ لگی لوہے کی موٹی سی زنجیر کو زور سے بجایا۔ تینوں کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ نجانے وہ پرانے وقتوں کے بزرگ اس جرات کو کس انداز میں دروازہ کھولنے والی ملازمہ نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"ہمیں چوہدری شجاعت سے ملنا ہے۔" فرحین نے با ادب لہجے میں کہا۔

" اس وخت (اس وقت) ؟ " سوال کرتے ہوئے ملازمہ نے سر سے پیر تک اسے بغور دیکھا۔

" ماضی میں کردار ہی ایسا رہا ہو گا۔ " ثمین نے صبا کے کان میں سرگوشی کی۔

" ہم بہت ضروری کام سے آئے ہیں۔ بس چھوٹی سی بات کرنی ہے۔ آپ ان سے کہیں اسکول کی استانی آئی ہیں۔ " فرحین نے لجاجت بھرے لہجے میں اس کی

آسانی کے لیے بتایا۔

" استانی جی۔۔۔ "نذیرا جو پتا کرنے باہر آ رہا تھا استانی جی کا سن کر چوہدری صاحب کے پاس دوڑا گیا جبکہ ملازمہ شکیلہ چوہدرانی کے پاس بھاگی ۔

" اب ہم کیا کریں ؟ تینوں ہونق ہو کر ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔

"کچھ بھی ہو بات تو کر کے جائیں گے۔" فرحین کا اطمینان قابل دید تھا۔

گلی میں سناٹا ہو چکا تھا لہذا ڈھٹائی دکھائی جا سکتی تھی۔ تب ہی گلی میں ایک اور دروازہ کھلا۔

"آؤ جی، آپ اندر آؤ۔۔۔۔ چوہدری جی بھی آ رہے ہیں۔" نذیر نے بیٹھک کا دروازہ کھول کر پر جوش انداز میں استقبال کیا تو تینوں حیران حیران سی جھجھکتے ہوئے اندر آ گئیں۔ چوہدری شجاعت نے کمرے سے نکلنے سے پہلے شیشے میں بغور اپنا جائزہ لیا۔ پگڑی کچھ جچ نہیں رہی تھی۔ لگ رہا تھا جیسے وہ بہت بڑے بزرگ ہوں۔ لہذا پگڑی اتار کر میز یہ رکھی اور گھنگھریالے بالوں میں اچھی طرح کنگھی پھیری ، مونچھوں کو تاؤ دیا اور آف وہائٹ کلف والے کپڑوں میں اکڑتے ہوئے بیٹھک میں داخل ہوئے۔

ثمین اور صبا بیٹھک کی سجاوٹ کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں البتہ فرحین چوہدری شجاعت کو دیکھ کر ہڑبڑا کر کھڑی ہو گئی۔ کچھ بڑھتے اندھیرے اور گمبیھر خاموشی سے خائف بھی ہو رہی تھی۔ دوسرے اس وقت پرائے گھر میں اپنی موجودگی بھی نامناسب محسوس ہو رہی تھی۔