خاموش چیخ
کزن کا چھوٹی لڑکی کے ساتھ نامناسب سلوک
اردو کہانیاں


1 بجے دوپہر
ماہم کمرے سے بھاگتی ہوئی صحن کی طرف آ رہی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا، اور وہ جانتی تھی کہ گھر میں کوئی نہیں ہوگا، سوائے نانی ماں کے۔ وہ جلدی سے ان کے پاس پہنچنا چاہتی تھی، جو برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی چاول چن رہی تھیں۔ کمرے سے برآمدے تک کا فاصلہ آج بہت لمبا محسوس ہو رہا تھا۔
بھاگتے ہوئے وہ نانی ماں کے پاس پہنچی۔ نانی ماں نے نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور پریشان ہو کر پوچھا، "ماہم، تجھے کیا ہوا رے؟ اتنا کیوں ہانپ رہی ہے؟ کہاں سے بھاگتی آ رہی ہے؟ اور بھائی کہاں ہے؟ اس نے دوا دی تھی تجھے؟" ماہم سے جواب نہیں دیا جا رہا تھا۔ اسے عجیب سا خوف محسوس ہو رہا تھا، لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ خوف کیوں ہے۔
یکم مئی - 7:45 صبح
آج ماہم بہت خوش تھی۔ یہ اسکول کا پہلا دن تھا، اور وہ تیسری جماعت میں پہنچ چکی تھی۔ اسے پیدل اسکول جانا بہت پسند تھا۔ اسکول پہنچنے سے پہلے اس نے شاہ میر بھائی کو اپنی گاڑی میں جاتے دیکھا۔ وہ میٹرک میں تھے، اس لیے ان کا اسکول الگ تھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے ماہم کی طرف دیکھا اور ہاتھ ہلایا، لیکن ماہم کو یہ اچھا نہیں لگا۔
اسے ایک عجیب سا ڈر محسوس ہوا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ شاہ میر بھائی کو دیکھ کر اسے گھبراہٹ کیوں ہو رہی ہے، حالانکہ وہ تو اس کے فیورٹ کزن تھے۔ اسی لمحے اس کی دوست نے کہا، "ماہم، جلدی چلو، اسمبلی شروع ہونے والی ہے۔" اور وہ اپنی دوست کے ساتھ اسکول کی طرف بھاگ پڑی۔
4 جون - 5:00 شام
گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ سب کزنز نانی ماں کے گھر جمع تھے۔ سب نے مل کر چھپن چھپائی کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ شاہ میر بھائی کو تلاش کرنے والا بنایا گیا، اور باقی سب چھپ گئے۔
ماہم اسٹور روم میں جا کر ڈبوں کے پیچھے چھپ گئی۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ شاہ میر بھائی اندر آئے اور دروازہ بند کر دیا۔ ماہم کو سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کا جسم پسینے سے بھیگ چکا تھا۔ اسی وقت اسے سب یاد آنے لگا کہ وہ شاہ میر بھائی سے کیوں ڈر رہی تھی۔
25 اپریل - 12:30 دوپہر
"نانی ماں، مجھے ابھی بھی پیٹ میں درد ہو رہا ہے،" ماہم نے شکایت کی۔
نانی ماں نے جھنجھلا کر کہا، "کہا تھا تمہاری ماں کو کہ چھٹی کر لو یا بچی کو ساتھ لے جاؤ، لیکن نہیں! اب یہ مجھ کو تنگ کرے گی۔"
اسی وقت شاہ میر بھائی گھر میں داخل ہوئے۔ نانی ماں نے انہیں آواز دی، "شاہ میر بیٹا، ذرا ماہم کو دوا دے دو۔ یہ بار بار شکایت کر رہی ہے۔"
شاہ میر بھائی مسکرا کر بولے، "کیوں نہیں، نانی۔" انہوں نے ماہم کا ہاتھ پکڑا اور اسے نانی کے کمرے میں لے گئے، جہاں ہلکا سا اندھیرا تھا۔
شاہ میر نے ماہم سے پوچھا، "کہاں درد ہو رہا ہے؟" ماہم نے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ شاہ میر نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا، "ابھی ٹھیک کر دیتا ہوں۔" اور اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لے آئے۔ ماہم کو یہ چھونا بالکل اچھا نہیں لگا۔ اس نے خود کو پیچھے ہٹایا اور چیخنے لگی۔ شاہ میر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور دھیمی آواز میں کہا، "شش... کسی کو کچھ مت بتانا۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔"
ماہم خوفزدہ ہو گئی اور بھاگتی ہوئی باہر آ گئی۔
یکم جون - 5:20 شام
ماہم کو سمجھ آ گیا کہ وہ شاہ میر بھائی سے کیوں ڈر رہی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ جو خواب اسے روز ڈراتا تھا، وہ صرف خواب نہیں تھا بلکہ حقیقت تھی۔
ماہم نے فوراً اسٹور روم کے ڈبوں کے پیچھے سے نکل کر چیخنا شروع کر دیا، "آپ برے ہیں، شاہ میر بھائی!" اور وہ بھاگتی ہوئی نانی کے پاس پہنچ گئی۔
یہ کہانی خوف اور ہمت کے درمیان کشمکش کی عکاسی کرتی ہے، جہاں ماہم نے اپنی خاموشی توڑ کر اپنے خوف کا سامنا کیا۔