آسرا-Aasra
بے مثال قربانی دینے والے شخص کی کہانی
اردو کہانیاں


" چھوٹے چاچو فری ہوں گے چلو ان کے پاس چلتے ہیں۔" ٍیہ صلاح مروا کی تھی' وہ چیزیں سمیٹتی چاچو کے کمرے میں پہنچ گئی تھی' جہاں چاچو دادا کے حکم پر نواڑی پلنگوں کی قطار لگاۓ انہیں بننے میں مصروف تھے' جھاڑ پونچھ بھی انہوں نے خود ہی کی تھی' صاف ستھرے پایوں والے پلنگ کہیں سے بھی پرانے نہیں لگ رہے تھے' صفائی کرنے والے ماہر ہاتھوں نے انہیں چمکا دیا تھا۔
حماد' ذیشان اور فری بڑی تیز طرار بھابی کے بچے تھے اور درمیان والی چلتر فرحین بھابی کی مروا اور سلمان پانچوں قطار بنائے کھڑے تھے جو باری باری ان کی منتیں کیے جا رہے تھے کہ انہیں آئس کریم کھلانے لے جایا جائے مگر وہ شام کا وعدہ کر کے دوبارہ کام میں مگن ہو گئے تھے۔ گرمیوں کی آمد آمد تھی۔ کمروں میں مچھر گھس کرراگ راگنیاں سنانے کی تیاری کر چکے تھے اور ابا جی کو ساری چارپائیاں سارے پلنگ تیار چاہیے تھے' ایک دم تیار۔ وہ صبح سے برس رہے تھے کہ کسی کو خیال ہی نہیں کہ سب باہر صحن میں کیسےسوئیں گے' نہ پنکھے صاف کیے اور نہ چارپائیاں ٹھیک کی ہیں۔
"بد تہذیب اولاد۔" وہ غصے سے دھاڑے۔
دادا جی کو غصہ ہروقت آتا تھا اور بے حد آتا تھا۔
چھوٹے چاچو ہمیشہ ان کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھتے تھے' آج بھی اٹھے تھے اکیلے اسٹور سے سارے پلنگ نکالے اور کام شروع کر دیا' کوئی نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے کھانا بھی کھایا تھا کہ نہیں۔ سب کو یہ نطر آ رہا تھا کہانہوں نے پلنگ کسی نہ کسی طرح نکال لیے تھے۔
بڑا عماد اور چھوٹا عباس دونوں باہر کسی کام سے نکلے ہوۓ تھے چھوٹے چاچو جن کا نام دادی نے مغیث علی رکھا ہوا تھا لیکن وہ انہیں ببلی کہا کرتی تھیں' کتنی بار انہیں ٹوکا بھی مگر وہ اس پیار کے نام سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھیں' چھوٹے چاچو نے ایم اے۔ بی کام اور نجانے کیسے کیسے کورس کر رکھے تھے' نوکری اچھی تھی مگر ان کی بوسیده حالت سے ہرگز بھی یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ بہت اچھا کماتے ہیں۔
بھابیاں مہینے کے مہینے شکل دکھاتیں۔ بڑی فرحین محبت سے بال سنوارتی اور اپنی کم تنخواہ کا رونا رو رو کر ان کا پیڑول تک کا خرچہ تک لے جاتی' چھوٹی بھی ایسے ہی صفایا کرتی تھی پھر دونوں لڑ پڑتی تھیں بالاخر ساری تنخواہ آدھی آدھی کرنے والا فیصلہ ہو گیا۔
چاچو جی لڑائی جھگڑے اور تنگدستی دور کرنے کے لیے اوور ٹائم کرنے لگے' اپنا خرچا صبر شکر کر کے نکالنے لگے مگر ان کی صحت کگرتی چلی گئی' کھانا کچن سے مل گیا تو ٹھیک ہے نہیں تو ویسے ہی سو گئے' وہ کسی کو اپنے کپڑے دھونے کی بھی تکلیف نہیں دیتے تھے۔ دادا جی اور دادی جی کے کپڑے بھی چپکے سے دھو کر تہہ کر کے رکھ دیتے۔
چھوٹے بھائی کے بچوں کو ہوم ورک کروانا ' چھوٹے بچوں کو چپ کروانا ہو' دوائی پلانی ہو' وہ سگھڑ سیانی خواتین کی طرح سالن پکانے سے لے کر چھوٹا موٹا بٹن لگانے تک کے ماہر تھے' چھوٹی بھابی کی کمر میں درد ہوتا تو وہ حاضر ہوتے۔ بڑی بھابی کا بی پی لو ہوتا تو وہ اچھا سا پلاؤ بنا لیتے۔
سب کی زندگی میں سکھ بھرنے والے چاچوسب کا خیال رکھتے تھے۔ بڑی بہن کے بچہ ہوا تھا انہوں نے آفس سے کچھ لون لے کر اچھی سی چھوچھک تیار
کی۔ بہنوئی' بہن کے جوڑے لیے گئے ۔ چھوٹی کوساس نے فریج نہ لانے کا طعنہ مارا توہ کئی دن تک پلاننگ کرتے رہے کہ وہ کیسے آپی کی ساس کا منہ بند کریں۔ بالاخر ایاز اپنے کولیگ کے توسط سے ایک اچھی کمپنی کا فریج قسطوں پہ مل گیا اور ساس کا منہ بند ہو گیا تھا۔
دادی بھی بلائیں لیتے نہ تھکتیں اور بہن نے خوشی سے لال چہرے سے رونا شروع کر دیا تھا' ایک ہی بھائی تھا جس کو ان کا خیال تھا۔ جو بھائی تھا تو بھائی بن کے بھی دکھایا تھا۔ بڑے عباس اور عماد کی طرح بے حس نہیں جنہیں اپنا بینک بیلنس بنانے اور نت نئی چیزیں خریدنے سے ہی فرصت نہیں تھی یہ اور بات تھی کہ فریج کی قسط اور لون والے پیسوں کی ادائیگی نے ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے کر دیا تھامگر فرائض کی ادائیگی اور ماں کی دعائیں انہوں نے سمیٹ لی تھیں۔
ابا جی کاغصہ تھا تو سوا نیزے پر مگر انہیں خبرہی نہیں بھی کہ چھوٹے چاچو نے ان کو کس درد سے نکالا تھا۔ انہوں نے تو بچپن سے محنتی سے چاچو کے ذمے ہر کام لگا کر مطمئن زندگی گزاری تھی۔
بڑی بھابھی نے اچار کے لیے لسوڑے تڑوانے ہوں' اچار کے لیے تیل منگوانا ہو' چھوٹی بھابھی نے باریک قیمہ جو ایک دم تازہ اور تندرست جانور کا ہو اس کی تلاش میں بھی چھوٹے چاچو ہی نکلتے۔ آج کیا پکنا ہے اور کس جگہ کیا سستا ملتا ہے اور کیسا مل سکتا ہے یہ بھی چاچو کوپتا ہوتا دادی کے پاؤں دبانے کو بھی رات گئے تک چھوٹے چاچو ہی میسر ہوتے وہ فرماں بردار جو تھے باقی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔
چھوٹے چاچو کوبتا دیا تو ٹھیک ورنہ بچوں کی طرح ناراض ہوتے شکوہ کرتے پاۓ جاتے۔ کچن میں تب تک بڑ بڑ کرتے رہتے جب تک کہ کوئی آ کر منا نہ لیتا۔ وہ چپ نہیں ہوتے تھے مہینے کے مہینے بھابیاں آ کردکھ سکھ بانٹتیں اور غائب ہو جاتیں کیونکہ پیسے مل جاتے تھے۔ بٹ جاتے تھے برابر اور چاچو اتنے گھٹیا اور گرے پڑے نہیں تھے نہ سوچ چھوٹی تھی کہ بڑوں کی طرح اپنی بیوی کے لیے بھی کچھ بنوا کے چھپ چھپا کے رکھ لیتے۔
بڑے اور چھوٹے نے تو دو دو تولے کےکنگن نکالے تھے اور ماں کئی دنوں تک کلستی رہی تھی' چھوٹے چاچو نے تواتنی بد دعائیں اور اماں کے دکھ میں دیکھ کر کنگن تو کیا شادی کا نام لینا بھی گناہ سمجھ لیا تھا۔
بہنوں کے دکھ سکھ میں پیش پیش رہتے' ادھر سے پکڑے ادھر سے مانگے
اپنے لیے سستے سے کپڑے' سیل والی جوتی اور سگریٹ پان کی عادت نہیں تھی ۔ سب کچھ بچ بچا کر سب کو خوش رکھتے مایوس کسی کو نہ کیا۔
یہ اور بات تھی کہ احسان نہ بیاہی بہنوں نے مانا ' نہ بھائیوں نے بلکہ پیسوں اور چیزوں میں ذرا سی دیر ہوئی تو بے حسی کا خطاب' دوسرے کو زیادہ دینے کا طعنہ فٹ سے دے مارتے۔ مگر چھوٹے چاچو نے کبھی برا نہیں مانا وہ برا ماننے والے نہیں تھے' بہنوں کے بچوں کی چھوچھکوں پہ چھوچھک تیار کرتے اور بروقت پہنچاتے رہے بلکہ کئی بار بھابیوں کے لیے دائی کا انتظام بھی رات گئے انہوں نے کیا۔ پریشانی میں ٹہلتے پھرے۔ اپنے بھتیجے بھتیجوں کی پریشانی بھائیوں کے گھروں کے بکھیڑے۔
وہ اپنی ذات میں انجمن تھے وہ بہت بڑی انجمن۔ جس میں خود ان کی اپنی جگہ ہی نہیں تھی۔ حماد' ذیشان اور فری بھی ان سے پیسے اینٹھتے رہتے تھے۔ بڑوں کی دیکھا دیکھی وہ بھی اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل لے کر ان کے پاس ان کے کمرے میں آتے جہاں وہ لوہے کا بڑا صندوق پلنگ کے نیچے رکھے لیٹے ہوتے۔
(وہ اپنے کپڑے اسی صندوق میں رکھتے تھے) اور اپنے دکھ درد بیان کر کے کچھ نہ کچھ مانگ کر لے جاتے اور باغیچے میں بیٹھ کے چھوٹے چاچو کو بیوقوف بنانے کے قصے لیے ایک دوسرے کو سناتے اور محظوظ ہوتے مگر مروا اب سولہ سال سترہ سال کی ہو چکی تھی۔
وہ بچپن سے چاچو کو اسی طرح دیکھتی ائی تھی' کسی کو چاچو کی فکر نہیں تھی وہ سب کی فکر میں اپنے آپ کو بھول چکے تھے۔ اسے ان پر ترس اتا تھا۔ کبھی دادی چاچو کو باتیں سناتیں تو کبھی دادا' کبھی بھابی اپنی پریشانیاں شئیر کرتیں اور وہ آبدیدہ ہو جاتے۔ وہ نجانے کہاں کہاں اوور ٹائم کرتے تھے۔
بچے اچھے اچھے سکولوں میں پرھتے تھے ' اچھا کھاتے پہنتے تھے مگر ان کے رونے پھر بھی کم نہیں ہوتے تھے۔ وہ شوہروں کی بجاۓ چاچو کو تھکاتی تھیں وہ جان مارتے تھے' حقیقت میں اور حاصل کچھ بھی نہیں کوئی خوش نہیں تھا۔
مروا ان سے پیسے نہیں مانگتی تھیبلکہ ان کے لیے کھانا چھپا کر رکھتی تھی' رات گئے جب وہ لوٹتے تو مروا ہی نہیں ملتی جو کھانا گرم کرتی اور چاۓ بنا دیتی۔ وہ اتنے سادہ تھے کہ اس طرح اپنا خیال رکھے جانے پر بھی شرمندہ ہو جاتے۔ وہ کماتے تھے تو ان کا بھی حق تھا مگر انہوں نے خود کو پہچانا ہی نہیں ' پڑھ لکھ کر گنوایا تھا بس۔
کبھی کبھار وہ اکتا جاتے ' انہیں ذرا سا غصے میں دیکھ کر دادی چڑھ دوڑتیں' ہان کر لے تو بھی شادی' تیرے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں جو بڈھا بڈھی پر ضائع ہو رہے ہیں' چھوڑ دے بھائی' ہمیں جتنا کھلایا ہے احسان ہے تیرا۔" دادی کی اس بات پر وہ اپنے بال نوچ لیتے' یہی بات انہیں کئی سالوں تک خاموش کروانے کی تدبیر تھی۔ وہ طعنہ نہیں سن سکتے تھے یہ بات برداشت نہ تھی اور ان کی یہ خامی سب کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بے قصور ہو کر بھی مجرم بن جاتے اور وہ واقعی مجرم تھے' اپنے مجرم۔
ان کے سامنے اپنے سفید ہوتے بال تھے ' وہی بچے جن کی پیدائش پہ وہ فکر مند تھے آج ان کی شادیوں کی بات چیت چل رہی تھی اور ان کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا تھا ' سب کو اپنے عیش اور سکون کی فکر تھی ان کی نہیں کسی طرح نہیں۔ پھر چاچو کو محبت ہو گئی تھی عنایہ سے۔ عنایہ ان کی زندگی میں یوں داخل ہوئی کہ انہیں خود کی خبر نہ ہو سکی تھی' دل نے عجیب لے پر دھڑکنا شروع ہو گیا تھا۔ ایک سرد سی شام فرحین بھابھی نے انہیں نسرین خالہ کے ہاں بریانی دینے بھیجا تھا وہیں ان کی ملاقات عنایہ سے ہوئی' اس کا رسمی سا انداز انہیں ہے اختیار کر گیا تھا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے تھے۔
" دل بغاوت میں ہے۔"
ان کی واپسی بھی بڑے بوکھلائے ہوئے انداز میں ہوئی تھی - ہروقت مصروف رہنے والے چاچو اب کھوئے کھوئے رہتے۔ ایک دم سے سب کو فکر مندی
نے گھیر لیا تھا۔ سارے کام تلپٹ ہونے لگے تھے اور وہ جو سنجیدہ سنجیدہ پھرا کرتے تھے' ایک دم سے ہنستے مسکراتے پائے جا رہے تھے' بے رونق چہرا
بہار کی آمد کا پتا دیتا تھا۔
عنایہ کوئی بہت خوب صورت لڑکی نہیں تھی۔ پچیس چھبیس سال کی خوش مزاج سی لڑکی تھی اور اوپر سے پڑھائی کا تڑکا۔ وہ بلا کی شوخ لڑکی تھی مگر بری نہیں تھی اسے بھی چاچو اچھے لگتے تھے مگر چاچو کی طرح ہوش نہیں اڑے تھے۔ نسرین خالہ' عنایہ کی طرف سے فکرمند تھے۔ ایک دھماکہ تھا جو سب کے پرخچے اڑا کے رکھ گیا تھا' سب تڑپ اٹھے تھے' بنہیں فون پر ہیلو ہیلو کرتی رہ گئیں' بھابیاں آنکھیں پھاڑے ' صدمے سے چاچو کی طرف دیکھے جا رہی تھیں
مروا نے دیکھا اور چاچو کی ہلکی سی ضد نما التجا۔ مروا نے سنی جو کسی نے نہ سمجھی نہ سنی۔ سب ان کے ہمدرد بنے انہیں سمجھا رہے تھے' زمانے کے حالات گوش گزار کر رہے تھے اور وہ بے بس ہو کر ہاررہے تھے۔
پلک پہ آ کے سوچا کہ اب کدھر جاۓ
سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو گر پڑا آنسو
ان کے خواب ٹوٹ کے پلکوں پہ ٹکے تھے' سب اپنے اپنے گھروں میں آباد تھے' وہ کیوں نہیں' کیا محبت کرنا ان کا حق نہیں تھا' عباس بھائی نے محبت کی' محبت کا دم بھرا۔ عماد اور فرحین نے زور دارعشق کے بعد زبردستی امی سے منگوایا تھا مگر وہ کب تک دوسروں کا بوجھ اٹھاۓ پھرتے۔
وہ تو یہ بوجھ شادی کے بعد بھی اٹھانا چاہتے تھے' کوئی ان پر یہ نیا حسین بوجھ بھی آنے دے مگر سب کے سپاٹ چہرے اور دادی کی التجاؤں اور بد دعاؤں کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا وہ سب کے درمیان گھرے بیٹھے تھے اور چپ تھے۔ سب دیکھ رہے تھے' نوٹ کر رہے تھے۔
" چاچو' چاچو وہ دیکھیں' مروا کی ہلکی سی آوازان کے کانوں میں آئی تھی وہ ان کے کمرے کے سامنے دادی سے چھپ کے انہیں بلا رہی تھی' وہ جلدی سے چپل پہن کر باہر آ گئے۔ اس نے جلدی سے انہیں بازوسے پکڑا تھا اور چپ رہنے کا اشارہ کرتی‘ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی' وہ بھی بادل نخواستہ
آ ہی ر ہے تھے۔ پتا نہیں کیا دکھانا تھا' وہ اوپر ہی جانا چاہتے تھے مگر مروا
نے انہیں وہیں روک لیا تھا اور فرحین اور ثمینہ بھابھی (اس کی امی) محو گفتگو تھیں۔
" بدھو نہ ہو تو' بخار ہوا ہے شادی کا' اس سڑی شکل والی کو کیا سوجھی اچھا خاصا کھیل بگاڑ دیا اس مردود عنایہ نے اور یہ بد بخت مغیث کب سے ہیرو سمجھنے لگا خود کو' اے بھابی اس کو روک لو اس کو ورنہ تو یہ گیا ہاتھ سے۔" سب سے محبت کی چاہ رکھنے والے چاچو دھڑام سے نیچے آ گرتے جو مروا انہیں سنبھال نہ لیتی۔
وہ قدموں کی چاپ سمیٹے آرام سے نیچے اتر آئے تھے۔
" سن لیا چاچو آپ نے خیر خواہوں کی باتیں' کچھ ایسے ہی خیالات پھوپھو اور دادی کے بھی ہیں۔ اب تو یقین آ گیا نا ۔ آپ کو۔" وہ بنا رکے بولے گئی۔
اس رات چھوٹے چاچو ساری رات نہیں سوۓ۔ دوسروں کے لیے نہیں اپنے لیے۔ کیا مستقبل تھا ان کا' ان کے جیسے بدھو کا ' وہ واقعی بدھو تھے ' اب تک بیوقوف بنتے آۓ تھے۔ مروا سمجھاتی تھی ڈھکا چھپا کہتی بھی تھی مگر وہ ہی ان سنی کر دیا کرتے تھے۔
بڑی بھابی چھوٹی بھابی سب کے چہرے کتنے خوفناک تھے' وہ انہیں آج پتا چلا تھا' اپنے سے آدھی سے بھی کم عمر بھتیجی نے وہ راہ دکھائی تھی جو انہوں نے کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔
صبح ہی صبح وہ تیار ہوئے تھے ' بڑی بھابھی نے میٹھے میٹھے تیرمارنا شروع کیے تھے چھوٹی نے بنا لاگ لپٹ کے مہنگائی کا رونا رونا شروع کیا تھا مگر وہ اپنے بال ترتیب سے جما رہے تھے بس۔ دونوں نے بچوں اور شوہروں کے لیے میز سجائی تو وہ بھی بنا ناشتہ کیے جانے کے' بیٹھ گئے اور اچھی طرح ناشتہ کر کے اٹھ گئے۔ آج انہیں کوئی اوور ٹائم نہیں کرتا تھا بس ایک کام کرنا تھا' نسرین خالہ کی طرف جانا تھا۔
عنایہ اور چھوٹے چاچو کی شادی زیادہ دھوم دھام سے نہیں ہوئی تھی' ببلی
سے آج وہ مغیث احمد ہوگئے تھے۔ کوٹ پینٹ میں آج ان کے جیل سے جمے بال اورہی چھب دکھلا رہے تھے۔
گیٹ پرایک کار آ کے رکی تو ماورا سجی سجائی کار میں جا گھسی۔ اور چاچو کو چاچی کے ہمراہ دیکھ کر چیخ اٹھی۔
انہوں نے عنایہ کا ہاتھ تھاما اور اندر چلے آئے۔ آج کمرا ویسا ہی تھا مگر سارے سامان نے آ کے سیٹ ہوجانا تھا۔ دادی' بھابھی سب حیران ہو کر دیکھ رہے تھے۔ دادا نے آ کر دلہن کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا' انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی تھی مگر باقیوں نے نہیں۔
چاچو کے مضبوط قدم بتاتے تھے کہ آسرا دینے والے کو بھی آسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی حسین آسرے کی!