QUFL - قُفل

قسط نمبر: 2

اردو کہانیاں

Bushra Rehman

2/4/20251 منٹ پڑھیں

” اماں بی مچان لگائے بیٹھی رہتی ہیں۔ " اس نے دل میں سوچا۔ " انہیں شیر کے شکار کا شوق ہے شاید۔۔۔۔؟"

" کیا بات ہے فہمیدہ ؟" وہ خوف کے مارے اٹھ کر بیٹھ گیا۔

"جی۔۔۔ جی۔۔۔ خالہ بی نے آپ کے لیے کھانا بھیجا ہے۔"

" مگر میں تو کھانا کھا کے آیا ہوں۔" امان نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔

" اچھا۔" وہ زرد ہو گئی۔ " مجھے معلوم نہیں تھا۔"

" کوئی بات نہیں۔" امان نرمی سے بولا۔

" ویسے تم یہ ٹرے اندر باورچی خانے میں رکھ دو۔ صبح اٹھ کر کھا لوں گا۔ اور بی اماں سے کہہ دینا' وہ میری فکر بالکل نہ کریں۔ اور کچھ بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صبح چائے پینے کے لیے خود نیچے آ جاؤں گا۔"

وہ ٹرے اٹھائے باورچی خانے میں آ گئی۔ اندر ٹرے رکھ دی اور پھر انگلی پر ڈوپٹہ لپیٹتے ہوۓ واپس آ گئی۔

باہر جاتے جاتے ایک دم پلنگ کی پائنتی کی طرف بیٹھ گئی۔

"ارے یہ کیا کر رہی ہو ؟"

" میں آپ کے پاؤں دبا دوں؟"

" میں کوئی کھیتی باڑی کر کے آیا ہوں۔ موٹر میں ہی تو بیٹھ کر آیا ہوں۔"

" موٹر چلانے سے بھی ایک پیر تو دکھنے لگتا ہے۔"

(سب بی اماں کی ہدایات پر عمل ہو رہا ہے۔)

اس نے بڑے غور سے فہمیدہ کی جانب دیکھا۔ وہ بڑے سبھاؤ سے بستر کی پائینی پر بیٹھی تھی۔ اس کی عمر کوئی بائیسں ، تئیس برس کی ہو گی۔ یہ اماں بی کی دوسری لاڈلی بھانجی تھی۔ پہلی بھانجی رشیدہ تھی جس کو انہوں نے بچپن میں مانگ لیا تھا، مگر باسمہ نے امان کو اسیر کرکے یہ مانگ توڑ دی تھی۔ پھر اس کی شادی ہو گئی۔ اب اماں بی نے اپنی ساری امیدیں فہمیدہ پر مرکوز کر دی تھیں۔ ان کے لیے بارہ' تیرہ برس کا فرق کوئی فرق نہ تھا۔

امان جب اسے غور سے دیکھ رہا تھا تو اس کی پھیلی پھیلی ناک پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ابھر رہی تھیں۔ اس وقت امان کو احساس ہوا کہ جوان لڑکی کو غور سے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ فہمیدہ بوٹے سے قد کی لڑکی تھی۔ جسے بہت چھو ٹا قد کہتے ہیں۔ قد کی مناسبت سے اس کا جسم فربہ تھا۔ گداز اور بھرا بھرا۔۔۔ رنگ سانولا تھا۔۔۔۔ آنکھیں موٹی اور پھیلی پھیلی تھیں جن میں اس نے بھر بھر سلائیاں سرمے کی ڈال رکھی تھیں۔ سرمہ تھا کہ چھلک رہا تھا اور رنگ تھا کہ دمک رہا تھا۔

اس کے چہرے پر اس وقت وہ ملاحت تھی جو جوانی کا خاصا ہوتی ہے۔ اور نقش و نگار سے ماورا ہوتی ہے۔ وہ اس کا باسمہ سے مقابلہ کرنے لگا۔ باسمہ اب بھی اس کے مقابلے میں بے انتہا حسین تھی۔ اس کے باوجود امان نے فہمیدہ کو وہاں سے اٹھنے کے لیے نہ کہا۔ یکایک فہمیدہ نے ہاتھ بڑھا کر امان کے پاؤں کو چھو لیا۔ ( یہ ہدایت نمبر 2 تھی شاید)

امان کو ایسے لگا جیسے بجلی نے چھو لیا ہو۔ اس کے گرم گرم گیلے ہاتھ ۔۔۔ بچوں کے ہاتھوں کی طرح عجیب لگے تھے۔ اچھے بھی اور گدگدی کرنے والے بھی۔ امان نے جھٹ اپنا پاؤں اٹھا لیا اور بولا۔

"کیا کرتی ہو؟"

"اللہ آپ ہمیں دبانے دیں نا۔" نئی نئی طوائف زادی کی طرح فہمیدہ نے اٹھلا کر کہا۔

" دیکھو' تم اس وقت اپنے کمرے میں چلی جاؤ ۔"

امان اٹھ کر بیٹھ گیا۔

" آپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟" اس نے اپنی کاجل بھری نظریں اٹھا کر امان کی آنکھوں میں جھانکا۔ " کہ مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہیں۔ میں جب سے آئی ہوں۔ میری طرف دیکھتے بھی نہیں۔ کیا میں اتنی بری ہوں۔"

(یہ ہدایت نمبر 3 تھی شاید۔)

امان احساس کا جنگلہ پھلانگ کر نکل جانا چاہتا تھا؟ مگر خاردار تاروں میں الجھ گیا۔

کم بخت کی آنکھیں کتنی کالی تھیں۔ اماوس کی رات کی طرح۔۔۔ کالی کالی۔۔۔۔ اور ہو حق بولتی۔ رات کے پچھلے پہر آنکھوں کا کاجل رات کے اندھیرے سے جا ملتا ہے۔ امان نے اپنے دل میں ایک لہرسی محسوس کی۔ کسی نوجوان لڑکی سے شادی کے نو سال بعد یوں ملاقات کرنا عجیب لذت دیتا ہے۔ جس طرح ہر روز سگریٹ پینے والا آدمی ایک روز ولایتی سگار کا کش لے۔ کڑوا' سخت مگر پر لطف۔

ایک دو کش نے لینے سے سگار کی عادت نہیں پڑتی۔ پھر بھی وہ اچھے شوہروں کی طرح ایک دم کھڑا ہو گیا۔ اور بولا۔

" آؤ' میں تمہیں نیچے چھوڑ آؤں۔ اچھی پچیاں ایسی باتیں نہیں کرتیں۔"

( ہوں تو اچھی بچیاں رات کی چپ ندی میں کنکر پھینک کر ہلچل مچا سکتی ہیں۔)

جانے اس نے " اچھی بچی " والی اصطلاح کس خوف سے استعمال کی تھی۔ مگر اس "اچھی بچی" کا ہاتھ پکرتے ہوئے ڈر رہا تھا۔ معلوم تھا، ہتھیلی میں گرم عورت ہوگی۔ اچھی بچی تو کب کی رخصت ہو چکی ۔ گیا تو نیچے چھوڑنے تھا اس کو مگر اپنی نیت نیچے چھوڑ آیا۔ واپس آیا تو باسمہ کی طلب کچھ اور بھی بڑھ چکی تھی۔ جلدی سے دروازہ بند کر کے اس نے کنڈی لگائی۔ گویا وہ چغل خور ہے، اور در در پہ جا کے اس کی نیت کا ڈھنڈورا پیٹتی پھرے گی ۔

کمال ہے۔۔۔۔ اس نے اپنے دل میں پہلی مرتبہ ایک مبہم سا خطرہ محسوس کیا۔ انسان کا نفس بڑا کمزور کیڑا ہے۔ دنیا میں کوئی شے اتنی کمزور اور بے اعتبار نہیں جتنا یہ کم بخت نفس ہوتا ہے ۔

صبح تیار ہو کے نیچے گیا تو فہمیدہ ناشتہ تیار کر کے میز کے پاس کھڑی تھی، جانے اتنی صبح وہ کیسے تیار ہو گئی تھی۔ وہی دھلا دھلایا صبیح چہرہ اور کاجل کے حصاروں میں پھیلی کالی کالی آنکھیں۔ چھوٹے سے سراپا پر چپکا ہوا پھول دار سوٹ' امان آ کر بیٹھا تو اس طرح ناشتہ کرانے لگی جیسے جنم جنم سے اسے جانتی ہو۔ اونہہ۔۔۔۔ تو یہ بھی اماں بی کی کارستانی ہے۔

ناشتہ کرتے کرتے اس نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ وہ اپنے دونوں سانولے سلونے ہاتھ گود میں رکھے چپ چاپ بیٹھی تھی۔ امان کی نظر اس کے ہاتھوں پر اٹک گئی۔ کوئی خاص بات نہیں تھی ان ہاتھوں میں۔ انگلیاں بھدی اور پوریں موٹی تھیں۔ ٹیڑھے میڑھے ناخنوں پر گہری عنائی نیل پالش لگی تھی، مگر وہ ہاتھ انگاروں کی مانند دہک رہے تھے۔

امان کا دل چاہا چھو کر دیکھے۔

اس نے گھبرا کر نظریں فہمیدہ کے چہرے پر ڈالیں۔ قریب بیٹھنے سے شاید اس کی گول مول ناک پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمک رہے تھے۔ سرمئی گردن کے تلے جہاں دوپٹہ ابھاروں کو ڈھانپے ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ دل کے اندر ایک حشر سا بپا تھا۔ جانے وہ حشر امان کیوں محسوس کر بیٹھا؟ امان کھڑا ہو گیا۔ منہ پونچھا۔

خدا حافظ کہنے باہر تک آئی۔

" لو میاں۔ آج تک ایک معمولی سی لڑکی سے خوف کھا بیٹھے ہو۔۔۔۔ ڈر رہے ہو۔۔۔۔"

ڈر کس بات کا ہے؟

امان نے جھک کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہر انسان اپنی بربادی کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔

اتنی سی بات یا د رکھنا۔

دفتر سے سیدھا باسمہ کو لینے چلا گیا۔ مگر وہ تو ابا جی کو لے کر اسپتال چلی گئی تھی۔ ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ جسم کا ایک حصہ ناکارہ ہو گیا تھا۔ حالت سنورنے کے بجائے بگڑ رہی تھی۔ ڈاکٹروں کی ہدایت پر انہیں اسپتال لے جانا پڑا۔

اسپتال میں کوئی کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو۔ زیادہ دیر نہیں بیٹھا جا سکتا۔ وہاں سے اٹھ کر وہ دوستوں کے ساتھ آوارگی کرتا رہا۔ کھونٹے سے بندھے بندھے نو سال ہو گئے تھے۔ اس لیے آوارگی بھی کچھ مزہ نہیں دے رہی تھی۔ نو سال بعد بازاروں، ریستورانوں اور سنیماؤں کی طرف آیا۔ تو یوں لگا زمانہ بدل گیا ہے۔ خوش فکروں کی کمی نہیں' زمانہ کتنا تیز رفتار ہے۔ رک جانے والوں کا انتظار نہیں کرتا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ زمانے سے پیچھے رہ گیا ہے۔ گھر جانا چاہتا تھا۔ مگر گھر جانے کے خیال سے ہی ڈر لگ رہا تھا۔

پھر بھی جب رات کے بارہ بجے وہ ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا۔ تو وہ کالی کالی آنکھیں بلی کی سی تیزی لیے اس کی طرف بڑھیں۔

جانے کیوں وہ جانتی تھی کہ آج بھی امان اکیلا آئے گا۔

" آج بھی آپ کھانا کھا آئے ہیں یا کھا ئیں گے -؟"

" کھاؤں گا۔ " بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا۔

" آجائیے پھر۔ " وہ جادو کے زور سے اس کے پیچھے باورچی خانے کی طرف کھنچتا چلا گیا۔

بی اماں نے اپنے کمرے سے نکل کر اس طرح جھانکا جیسے حملہ کرنے سے پہلے دانا جرنیل محاذ کا جائزہ لیتا ہے اور پھر تسلی کر کے اندر چلی گئیں۔

" میاں ! اندھے ہو کے نہ چلو۔ یہ تمہاری ڈگر نہیں ہے۔"

"خالہ بی نے بتایا تھا ، آپ گوشت میں بڑیاں بہت پسند کرتے ہیں۔ آج میں نے اپنے ہاتھوں سے پکائی ہیں۔"

بے اختیار اس نے فہمیدہ کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ گہرے سانولے ہاتھ ۔ گہری نیل پالش' کوئی دل کشی نہ تھی ان ہاتھوں میں مگر انگارہ کیوں لگ رہے

تھے۔

اماں بی کی ساری ہدایات سامنے آ رہی تھیں اور کچھ جھانک رہی تھی اور کہہ رہی تھی۔

" ہرعورت ایک نیا جزیرہ ہوتی ہے، جسے "دریافت " کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دریافت کے بعد پتا چل جاتا ہے کہ عورتیں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مگر دریافت کرنے کا عمل کس قدرخوبصورت ہے۔ ہر نوجوان لڑکی گم نام جزیرے کی طرح خواب ناک 'اچھوتی' پراسرار اور انجانی بن کر آتی ہے۔ اور چاہتی ہے، مرد اپنی دیوانگی کا کولمبس بن جاۓ۔ اور دیوانہ وار اسے کھوجے ۔۔۔۔۔ تلاش کرے۔۔۔۔ فطرت کے پردے اٹھاۓ۔

لباس کی طرح عورت کے سب رنگ نرالے ہوتے ہیں۔۔۔ اور جانے یہ لڑکیاں ان دیکھے جزیرے بن کر مردوں کے ارد گرد کیوں منڈلاتی ہیں؟

ذرا سی دیر کو باسمہ سائے میں چلی گئی۔ بیوی خواہ کتنی بھی حسین کیوں نہ ہو جب سائے میں چلی جاتی ہے تو اس کو گرہن لگ جاتا ہے۔

ذرا سی آنکھ مچولی کھیلنے کو کس مرد کا دل نہیں للچاتا؟

اگر عزرائیل کسی جوان عورت کے روپ میں آتا تو مرد نزع کے وقت بھی آنکھ مچولی کھیلنے سے باز نہیں اتا۔

فہمیدہ تو ایک جوان لڑکی تھی۔ آتے جاتے کبھی آنچل لہرا جاتی' کبھی کندھا چھولیتی۔ کبھی کوئی چیز پکڑاتے ہوۓ انگارہ سی انگلیاں چبھو دیتی۔

ہدایات ساری اماں بی کی تھیں۔ ورنہ کوئی لڑکی یوں شادی شدہ مرد کے لیے اتنی بے باکی سے جال نہیں بچھاتی۔

باسمہ جب گھر آئی تو تقدیر کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔ اسے اسپتال میں پندرہ دن رہنا پڑ گیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اپنے شوہر سے پندرہ دن کے لیے جدا ہوئی تھی ۔ اسی لیے تو وہ انگلی پکڑ کر چلنے والا اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکا تھا۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں۔ کبھی کبھی شوہر کو مکمل آزادی دے کر کھلا چھوڑ دینا چاہیے۔ کھلے جانور کو اسیر کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ جن گلے میں ہمہ وقت ایک رسی ہو' وہ جانور بہت جلد اسیر کر لیے جاتے ہیں۔

ادھر ابا کا دم آنکھوں میں اٹکا تھا۔ اب نکلا کہ تب نکلا۔ شاید ان کا دم نکل جانے سے اتنا دکھ نہ ہوتا۔۔۔ جتنا اپنے بھرم کے نکل جانے کا ہوا تھا۔

پندرہ دن؟ ان پندرہ دنوں میں پندرہ مختلف راستے سانپوں کی صورت میں ادھر ادھر سے نکل آئے تھے۔ اور وہ کھڑی تلاش کر رہی تھی کہ اس کا اپنا راستہ کون ساتھا۔

اماں بی نے ایک دن تاک کر چاند ماری کی اور نشانہ ٹھیک دائرے کے اندر چلا گیا۔

ہنستی مہکتی فہمیدہ اٹھ کر چلی گئی تو اپنے لہجے میں شیرینی سمو کر ذرا قریب آ کے سرگوشی کے انداز میں بولیں۔

"میرے بچے! آج کل تیرے چہرے پر میں ایک خوب صورت سی شگفتگی دیکھ رہی ہوں۔۔۔ بانجھ عورت کے ساتھ رہ رہ کر میرا بیٹا مرجھا گیا تھا۔ " (زندگی میں پہلی بار امان کو بانجھ کا لفظ باسمہ کے ساتھ لگانا برا نہیں لگا ورنہ تو وہ اس لفظ سے سیخ پا ہو جایا کرتا تھا۔)

" سچ ہے' دنیا میں سب سے بڑی خوشی اولاد کی خوشی ہے' مجھے امید ہے اللہ میرے بیٹے کو بہت سے بچے دے گا اور یہ گھر بچوں سے بھرا نظر آئے گا۔" اس بار بھی امان چپ رہ تو وہ بولتی گئیں۔

" ابھی تو' تو خیر سے جوان ہے۔ اور لڑکی بھی گھر ہی میں ہے۔ کتنی سلیقہ شعار' حلیم اور منکسر المزاج لڑکی ہے۔ دن رات تیری خدمت کرے گی۔ جہاں تو پاؤں رکھ دے وہاں اپنا سر رکھتی ہے۔ بھلا اس زمانے میں کوئی ایسی لڑکی ہے جو سوتن والے گھر میں جانا چاہتی ہے؟"

امان نے اس بات پر حیران ہو کر اماں بی کو دیکھا۔

" ہاں' یہ بات تو بس ہماری فہمیدہ میں ہے۔ باسمہ کے ساتھ مل جل کر رہنے پر تیار ہو گئی ہے اور میں کون سا کہہ رہی ہوں کہ تو باسمہ کو طلاق دے دے۔ اس کو بے آسرا کر کے مجھے کتنا ثواب ملے گا۔ نہ نہ۔۔۔۔ اس بے چاری کا اس میں کیا قصور؟ تو اس کو بھی اپنے ساتھ رکھ ۔ اسی گھر میں تم اور باسمہ پہلے کی طرح اوپر والے حصے میں رہنا۔ فہمیدہ میرے ساتھ رہے گی۔ ایک دو بچے ہو جائیں تو ہم ماں بیٹی مطمئن ہو جائیں گے۔ تم ہماری خبر لو نہ لو۔۔۔ ہمیں پروا نہ ہوگی۔ ہاں میں تم دونوں کو جدا کرنے کا گناہ کیوں کروں۔ مجھے تو صرف تمہاری اولاد سے غرض ہے۔ اور فہمیدہ بہت بڑی قربانی دینے کو تیار ہو گئی ہے۔ ذرا سوچ کے بتاؤ آج کل کی لڑکیوں میں اتنی محبت ہے؟ گھر کی لڑکی ہے۔ اس لیے تم اس کی قدر نہیں کر رہے۔"

اماں بی نے تو یہ مسئلہ خود ہی حل کر دیا ہے۔" امان نے دل میں سوچا۔ بڑا اچھا بندوبست ہے۔ ذرا دریافت کا چکر بھی پورا ہو جائے گا۔ اور باسمہ کا بھی ساتھ رہے گا۔"

" رند کے اندر رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔"

امان چپ رہا۔۔۔۔ تو اماں بھی سمجھ گئیں کہ لوہا گرم ہے۔ جدھر چاہوں موڑ لوں گی۔ اٹھ کر اپنی صندوقچی نکال لائیں۔ اور اپنی ایک پرانی سنبھال کر رکھی ہوئی انگوٹھی نکال کر فہمیدہ کو پہنا دی۔ اسی رات باسمہ گھر آ گئی۔

فہمیدہ کی پُراسرار مسکراہٹ اور سیدھے ہاتھ کی دوسری انگلی میں چمکتی ہوئی پرانے طرز کی انگوٹھی اسرار کے سب پردے اٹھانے لگی۔

بہت ذہین تھی۔ نو سال سے زندگی کے نشیب و فراز دیکھ رہی تھی۔ لاشعوری طور پر ہمیشہ ایک خطرہ محسوس کیا کرتی تھی۔ خطرے کی موجودگی سونگھ چکی تھی۔

رات جب وہ اپنے کمرے میں آئی تو کمرے کا حلیہ ہی بدلا ہوا تھا۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ اس کی عدم موجودگی میں فہمیدہ کمرہ سنوارتی رہی ہے۔ یہ بات تعجب کی نہیں تھی۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ امان نے یہ ساری تبدیلی پسند کرلی تھی۔ ہر شے اپنی جگہ سے ہلا دی گئی تھی۔ حتی کہ بستر کے تکیے بھی اپنی جگہ پرنہیں تھے۔

باسمہ نے سراٹھا کر امان کی طرف دیکھا۔ آیا اس کا دل اپنی جگہ پر ہے یا نہیں۔

امان رک رک کر بولا۔ ”دیکھو نا؟ باسمہ! نو سال سے میں اماں بی کو ٹالتا رہا ہوں۔ آخر تو مجھے ان کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ بھی تو میرے فرائض میں سے ہے۔ اولاد کی ضرورت کسے نہیں ہوتی ؟ تم جانتی ہو ، میں تمہیں کس قدر چاہتا ہوں۔ تمہیں چھوڑ نہیں سکتا ۔ تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے بیچوں بیچ اگر کوئی حل نکل آئے تو تمہیں بھی اسے قبول کر لینا چاہیے۔"

باسمہ چپ ہو گئی۔

آئی تو تھی پھر سے سہاگ رات منانے' بہت دنوں کی جدائی نے اسے تڑپایا تھا۔ مگر اب جذبات کے برانگیختہ توے پر امان کی کج ادائی نے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ڈال دیے تھے۔ سینے پر ہاتھ رکھا تو چپ کی سل کلیجے میں اتر گئی۔

"باسمہ' باسمہ۔۔۔۔"

امان نے دو' تین مرتبہ پکارا۔ پھر اٹھ کر اس کے چہرے پر جُھک گیا۔

" خدا کے لیے مجھے غلط نہ سمجھو باسمہ۔۔۔ میں تمہیں ہرگز چھوڑنا نہیں چاہتا۔ میں تمہارے ساتھ آج بھی محبت کرتا ہوں۔ تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ مگریہ بچہ۔۔۔۔ بچہ۔۔۔۔ یہ ایک خلش کہیں خلیج نہ بن جائے۔"

" بچہ خلیج نہیں بنے گا امان اللہ خان !"

" یہی بچہ ہمارے درمیان خلیج بنے گا۔"

" کتنا ستم ہے کہ جب میں ٹھیک ٹھیک سمجھ رہی ہوں، تم کہہ رہے ہو میں تمہیں غلط نہ سمجھوں۔ اوہ۔۔۔۔ اسی موڑ پر تو مرد بے نقاب ہوتا ہے۔"

میں نے تو تمہیں اماں بی کی خواہش بتائی ہے۔ میں تمہاری اجازت کے بغیر شادی نہیں کروں گا۔ ہرگز نہیں۔ یونہی تمہارے قدموں میں رہوں گا۔"

"جب کسی مرد کے دل میں دوسری شادی کا خیال آ جاتا ہے۔ وہ اسی لمحے شادی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔۔۔۔ خیانت ہو چکی۔۔۔ عملی کارروائی تو بالکل زمانہ سازی ہوتی ہے، میرے محبوب! دل بدلتے ہیں تو لہجے بھی بدل جاتے ہیں۔ اور وہ جو تم میرے نصیب کی راتیں چرا چرا کر اس پر نثار کرو گے! اور وہ جو مجھ پر چلائے ہوئے تیر اس پر آزماؤ گے اور وہ جو مجھ پر برستے ہوئے فقرے اس کی جھولی میں ڈالو گے اور وہ جو ہر رات ایک اسٹیج پر دو ڈرامے کرو گے۔۔۔۔ کیا اس سے تمہارا دل مطمئن ہو گا ؟"

اور وہ جو ذرہ ذرہ کر کے تمہیں مجھ سے چرا لے گی۔ اور میں اپنے ذبح ہونے کا نظارہ ہر رات کس طرح دیکھا کروں گی۔۔۔۔ دیکھو تو مرد کی محبت کی انتہا۔۔۔۔ عورت کے گلے پر چھری پھیر کر اس کی رضا مانگتا ہے۔ اس کا مزار بناتا ہے۔ پھر اس پر جشن چراغاں کرتا ہے۔ اس کی روح کھینچ لیتا ہے۔۔۔۔ اور چاہتا ہے وہ مسکراتی رہے۔

اور ظلم کو احسان کی چادر میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے۔

کاش! کبھی کوئی عورت کسی مرد کو اتنی بڑی تکلیف دے سکے۔

اور صاف کہہ دے کہ میں تم سے سدا محبت کرتی رہوں گی۔ مجھے دوسرے مرد کی بیوی بننے کی اجازت دے دو۔ تقسیم ہونے سے کیا الفت مٹ جائے گی؟ باسمہ کو مات ہو چکی تھی۔

آگے چلنے کو اس کے پاس کوئی مہرہ نہ تھا۔

وہ برف کے تودے کی طرح پڑی رہی۔۔۔۔ نو سال کا ہر ہر لمحہ اس پر اذیت بن کر اتر تا رہا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے گذشتہ نو سال کا ہر پل ڈیپ فریزر میں رکھا رکھا ٹھٹھر گیا ہے۔ اسی طرح اسی عالم میں منجمد ہوا پڑا ہے۔ جب چلانے کا کوئی جواز نہ ہو مگر آدمی بے اختیار چیخنا چلانا چاہے۔ اس وقت منہ پر کیسے ہاتھ رکھا جائے؟

اس نے اپنی سن ہوتی ہوئی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسایا اور اٹھ کران ہاروں کی کلیاں مسلنے لگی۔ جو وہ آتے ہوئے بازار سے خرید لائی تھی۔ اس نے ملن کی رات کا ایک انداز بنا رکھا تھا۔ رات جب بھی امان اپنے بیڈ روم میں داخل ہوتا۔ اسے یوں احساس ہوتا جیسے آج ہی اس کی شادی ہوئی ہے۔ چھپر کھٹ کو نئے انداز سے سنوار کر پتی پتی سے سجانا اس کی پرانی ادا تھی۔ آج بھی وہ ڈھیر سارے گجرے' کلیاں اور پھول لے کر آئی تھی۔ بہت دن بعد ملن رت آ رہی تھی۔

پر یہ بیچ میں سرخ دھاری کیسے آ گئی؟

اسی وقت بی اماں نے اچانک امان کو پکار کر بلا لیا اور وہ نیچے اتر گیا تو باسمہ کو سوچنے کا موقع مل گیا۔ اس نے اپنی ساری ہمت اور ذہانت مجتمع کی اور اپنے آپ سے بہت سے سوالات کیے۔

ہر بار اس کے دل نے یہی جواب دیا۔ سب کچھ اپنے ہاتھ سے کر دے۔ آج یہ شادی رکوا لے گی۔ کل کیا کرے گی؟ جو گھٹا امنڈ گھمنڈ کے چھائی ہے۔ کسی نہ کسی رت میں چھاجوں برسے گی۔ کیا اماں بی باز آ جائیں گی۔ یا امان کے دل کی گرہ کھل جائے گی۔ مرد لڑکھڑایا ہے تو گرے گا ضرور۔۔۔ بی اماں محتاط شکاری تھیں۔ فہمیدہ کو اس کے سرہانے لا بٹھایا تھا ۔۔۔۔ سرہانے کی طرف آگ ہو تو سینک پہلے چہرے کو پہنچتی ہے اور وہ ہاتھوں میں پھول لیے اس آگ کو بجھانے کا تہیہ کیے کھڑی تھی۔ پھول آگ کو بجھاتے نہیں۔ ہاں انہیں اس آگ کو معطر کر دینا چاہیے۔ لیکن کیا تقسیم شدہ مرد مخلص رہ سکتا ہے؟ اور کیا کوئی مرد دونوں بیویوں کا حق برابر ادا کر سکا ہے، آج تک سنا تو نہیں؟

دیکھ بھی لیں گے۔

اماں نے اوپر بھیجنے سے پہلے امان کو اچھی طرح پڑھایا تھا۔ اور جب وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا تو کہیں سے فہمیدہ نے نکل کر ہاتھ ماتھے پر لے جا کر سلام بھی کر دیا تھا۔ اس ہاتھ میں منگنی کی انگوٹھی جھلمل کر رہی تھی پروہ ہاتھ امان کو ایک انگارہ سا لگا تھا۔ اس یاد دہانی پر امان لرز سا گیا۔ دھیرے دھیرے اوپر چڑھنے لگا۔ ایک عورت کنارے کے اس پار کھڑی تھی۔ اس کا سراپا ٹھیک سے نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر اشارے سے اسے بلا رہی تھی۔ مرد کو اشارہ ہی تو تباہ کر دیتا ہے۔

ایک مبہم سے اشارے پر وہ اپنی زندگی کا دھارا یونہی بدل دیتا ہے۔ دوسری عورت اس کے پہلو میں کھڑی تھی۔ اس کا دل گرما رہی تھی۔ مزاج داں تھی۔ محبوب تھی، چراغ کی طرح اسے ہتھیلیوں پر اٹھائے چلی جا رہی تھی۔۔۔ مگر۔۔۔

مرد کو پہلو میں بیٹھی ہوئی عورت کبھی نظر نہیں آتی، اس لیے وہ ہمیشہ سامنے دیکھتا ہے۔ قریب نہیں دیکھ سکتا۔

ذہن اس کا کمرے میں بھٹک رہا تھا۔ دل وہاں ایک مبہم سے اشارے میں اٹک گیا تھا۔

ایک رات زندگی کی ان گنت راتوں میں سے نکال کر' باسمہ نے اپنی نصیب کی چادر سجا لی۔ اس ایک رات کو وہ محبت کے زور پر جیت لینا چاہتی تھی۔ بھلا مرد کا ایمان بدلتے کون سی دیر لگتی ہے۔ باسمہ نے اپنا شب خوابی کا بہترین لباس پہنا۔ بالوں میں موتیا کی سفید کو کلیاں گوندھیں اور گلاب کی پتیوں سے تکیوں پر امان لکھ دیا۔۔۔۔ یوں وہ اکثر کیا کرتی تھی۔ امان جب کمرے میں آتا تو سفید بستر پر گلاب کی پتیوں سے اس کا نام لکھا ہوتا۔ اور اسے پاگل کر دینے کو یہی کافی ہوتا۔ آج تو جنوں سامانی کے لیے اس نے سارے محاذ کھول دیے تھے۔ سارے کمرے میں سہاگ رات التجا بن کر اتر آئی تھی اور باسمہ دھیمے دھیمے سروں میں گنگنا رہی تھی۔

آج ہے پیار کا فیصلہ او صنم۔۔۔

امان کمرے میں آیا تو مبہوت ہو گیا۔

" باسمہ تھی یا قیامت۔ شعلہ بداماں سی' ویسی ہی پراسرار - کلیوں میں گوندھی چاندنی کی طرح۔

"باسو! مجھے بچا لو۔"

اس نے باسمہ کے بازوؤں میں چھپتے ہوئے کہا۔

یہی کچھ یاسمہ سننا چاہتی تھی۔ اپنی دعاؤں کا اثر دیکھنا چاہتی تھی۔

" باس۔۔۔ باس۔۔۔" وہ اسے چلا چلا کر پکارنے لگا۔۔۔۔ یونہی باسمہ اسے بے خود کیا کرتی تھی اور جانتی تھی۔ کہ جب شہزادہ جال میں پھنسے تو پھر کون سا منتر پھونکا جاتا ہے۔ پر آج نہ جانے کیا ہوا۔ ہونٹوں سے نغمے پھوٹنے کے بجائے آنکھوں سے جھرنے پھوٹ بہے۔

باسمہ نے پہلے تو اس کے چہرے کو آنسوؤں سے غسل دیا اور پھر محبت کی انتہا کر دی۔ یہی ایک رات تو مانگی تھی اس نے امان سے۔

جب بے اختیار امان کہہ اٹھا۔

" بد نصیب ہے باسمہ ! وہ مرد جو تمہیں بھول جائے۔"

"امان ----"

" باسمہ ! تم میری جنت ہو۔ اور جنت کو کوئی منتشر نہیں کرنا چاہتا ۔ "

" امان! اگر اس جنت میں بچے نہ ہوں تب ؟"

" لعنت بھیجو بچوں پر۔۔۔ مجھے تمہارے علاوہ کچھ نہیں چاہیے باسمہ!"

" امان ! تم اماں سے بھی وعدہ کر چکے ہو۔"

" وعدہ توڑا بھی تو جا سکتا ہے نا؟"

" ہاں' مگر یہ زہر کا پیالہ بن جائے گا۔"

" مگرمیں کیا کروں؟ کیا کروں باسمہ ؟ اس نے باسمہ کے لمبے بالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کھینچا۔ میں اپنے آپ کو کیسے تقسیم کروں؟"

" ہاں۔۔۔۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔۔۔۔ منقسم مرد کسی عورت کی امانت نہیں ہوتا۔ بعض اوقات مرد کو تقسیم کیا جائے تو وہ مرجاتا ہے۔ کیا تم میرے بغیر جی سکو گے امان؟"

"تمہارا کیا خیال ہے؟ امان نے نشے میں لدی لدی آواز میں پوچھا۔

"میرا خیال ہے تم میرے بغیر جی نہیں سکتے۔"

"تم ٹھیک کہتی ہو۔ " امان نے اس کے بالوں میں منہ چھپا لیا۔ " اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔"

" صبح ہوگی نا؟" وہ آنکھیں موندے موندے بولا۔ تو میں بی اماں سے صاف کہہ دوں گا۔"

”ہاں، صبح ہوگی جب نا۔" باسمہ نے افسردگی سے کہا۔ " آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے۔"

" تم دیکھ لینا۔"

" کیا کہہ دو گے بی اماں سے ؟" باسمہ نے بہت سی پتیاں اٹھا کر اس کی پیشانی پر سجا دیں۔

" میں کہہ دوں گا، مجھے بچے کی ضرورت نہیں۔ میرا سب کچھ باسمہ ہے۔"

" وہ تو تم نو سال سے کہتے آ رہے ہو۔"

" نو سال تک اور کہتا رہوں گا۔"

" امان! میں تم پر نو صدیاں اور نثار ہوتی رہوں گی۔"

" باسمہ۔۔۔ باسمہ۔۔۔۔ باسم۔۔۔"

صبح جب وہ دونوں رات کی مرجھائی ہوئی پتیوں سے کھیل رہے تھے۔ تو بی اماں تاریخ مقرر کرنے کے لڈو لے کر اوپر آ گئیں۔

باسمہ نے امان کی طرف دیکھا' امان کے ہونٹوں کو تالا لگ گیا۔

کیا ان لڈووں میں کوئی طلسماتی طاقت تھی۔ باسمہ نے گزری رات کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

اور اپنے آنسو چھپانے غسل خانے میں چلی گئی۔ مرد کی صبح اور رات میں بہت فرق ہوتا ہے۔

نیچے بی اماں کے ساتھ والا کمرہ سجاتے ہوئے باسمہ سوچ رہی تھی۔

کیا یہ سب کرنا بھی محبت میں رقم تھا۔ جب تقدیر اس کے خلاف ہو گئی تو اس نے سوچا یہ سب اپنے ہاتھوں سے کردے۔ مرد طوطا چشم بن جائے تو عورت کو چشم پوشی کرنی چاہیے ۔ یہ امید کیا کم تھی کہ وہ اب بھی امان کی تھی۔ اور امان نے سدا اسے اپنے سے قریب رکھنے کا وعدہ کر لیا تھا، قدرت کی بعض ستم ظریفیوں کے ساتھ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اپنے شوہر کی شادی اپنے ہاتھ سے کرنا اور پھر اپنی سوتن کا چھپر کھٹ سجانا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یوں کبھی کسی نے گرم سیخوں پر اپنا دل چڑھا کے اس کے کباب بنائے ہیں۔ مگر کبھی کبھی ایسا کرنا پڑتا ہے۔ محبت کے نام پر یا مجبوری کے نام پر ۔ وہ فہمیدہ کا چھپر کھٹ نہیں سجا رہی تھی، بلکہ اپنے مزار پر پھول چڑھا رہی تھی۔

اسی وقت گلے میں لمبا سا ہار پہنے امان سامنے نمودار ہوا۔

اس نے جن نظروں سے باسمہ کو دیکھا۔ باسمہ لرز گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے اس کا دل چاہا۔ یہ جو انسانیت کا مصنوعی لبادہ اس نے اوڑھ رکھا ہے اسے چاک کردے۔ ہر فرض سے منہ موڑ لے۔ باغی ہو جائے اور امان کو اپنے دونوں بازووں میں چھپا کر یہاں سے کہیں فرار ہو جائے۔ اس میں اور امان میں ابھی صرف دو قدم کا فاصلہ تھا۔ یہ فاصلہ بڑھتے بڑھتے سانپ بن جانے والا تھا۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے پھول اسے بچھوؤں کی صورت ڈسنے لگے۔

کل رات آخری رات تھی جو امان نے اس کے زانو پر سر رکھ کر بتا دی تھی۔ ساری شب وہ امان کے چہرے پر اپنی زلفیں پھیرتی رہی تھی اور امان مسلسل قسمیں کھاتا رہا تھا' ثابت قدمی کی وفا شعاری کی۔

واہ ! وہ ہر بار ہنس پڑتی۔

"کیسے عیسی ہو کہ بیمار کیے دیتے ہو؟"

کل شب بڑی تاریک، بڑی پر سوز تھی۔۔۔۔ جب بھی امان بے تاب ہو کر قسم کھاتا، ستارے شرارت سے آنکھیں مارتے۔۔۔ ستاروں کی اس شرارت آمیز بد شگونی پر وہ دل مسوس کر رہ جاتی ۔

اور آج وہ نیند کی گولیاں خرید لائی تھی۔ یوں رات اس لیے تو نہیں آتی کہ ضرور سونا چاہیے۔ مگر کبھی کبھی تو رات کے بغیر بھی سوجانے کو جی چاہتا ہے۔ ایک لمبی نیند اور آج امان اسے کیسی عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ان نظروں میں بے بسی تھی یا فریب کے چاک ہو جانے کا ڈر' اس کا شکی دل ہر ایک سے بد گمان ہو رہا تھا۔

باسمہ نے اپنی آنکھوں کے آنسو چھپانے کے لیے یوں نظریں پھیر لیں، جس طرح ہرجائی مرد نئی عورت کی آمد پر پھیرتا ہے۔ ان مہکی کلیوں کو اپنے آنسوؤں کی شبنم سے بھگوتی وہ اوٹ میں ہوئی جا رہی تھی کہ بی اماں لال جوڑا پہنے نمودار ہوئیں۔

بارات جانے کی جلدی تھی اور بی اماں باسمہ کو بارات کے ساتھ لے جانا چاہتی تھیں۔ ان کو ڈر تھا کہ اگر اس کو گھر میں چھوڑ گئے تو شاید عروس نو کے چھپر کھٹ پر وہ کوئی نا مرادی کا ٹونا ٹو ٹکا کر دے گی، بھلا نا مرادوں کے پاس گھر جلانے کے لیے تعویذ کہاں سے آئیں گے؟

وہ بارات کے ساتھ جانا نہ چاہتی تھی۔ مگر جانا پڑا۔ یوں جیسے کوئی اپنے ہی جنازے کے ساتھ چل رہا ہو۔

لوگ ہمدردی نہیں کرتے۔ ہمدردی کے بہانے زبان کا چھرا گھونپ کے تڑپنے کا تماشا دیکھتے ہیں۔ اسی لیے تو ایسے موقعوں پر الٹے سیدھے سوال کرنے سے

باز نہیں آتے۔" یہ ہے پہلی بیوی۔۔۔۔"

" ہائے کتنی خوبصورت ہے؟"

" اُف اللہ ! اتنی سندر مورت کے ہوتے ہوئے دوسری شادی رچا رہا ہے۔"

" سچ کہا ہے کسی نے سہا گن وہی جسے پیا چاہے ۔۔۔۔"

" بچہ نہیں ہے بے چاری کا! چہ چہ۔۔۔؟

"ہائے ہائے' بد نصیب بے چاری۔ اس خوبصورت جوانی کا کیا فائدہ؟ اللہ کے کام بھی نیارے ہوتے ہیں۔"

" واہ میرے مولا تیرے صدقے۔ "

"ویسے ہے دل گردے والی۔ خاوند کی بارات لے کر آئی ہے۔ اور کس طرح ہنس ہنس کے ہر ایک کو بری دکھا رہی ہے۔"

(کاش اپنا دل دکھا سکتی۔)

" فہمیدہ تو اس کے پاؤں کی جوتی بھی نہیں۔" مگر جب اس کے بچے ہو جائیں گے تو اس پر بھی راج کرے گی۔"

یوں ایسی باتیں سن کر مسلسل مسکرائے جانا بھی حوصلے کی بات ہے۔ لوگ تو بار بار مسکراہٹ کا پردہ چاک کرنا چاہتے ہیں، لوگ تو چاہتے ہیں دل میں نشتر چبھو کے بوند بوند لہو ٹپکنے کا نظارہ بھی اپنی آنکھوں سے کرلیں۔ لیکن لدے ہوئے بادل کم ظرف نہیں ہوتے' زمین دیکھ کر برستے ہیں۔

مسکراتے مسکراتے اس کے جبڑے دکھنے لگے۔ اور جبر کرتے کرتے اس کا دل پھوڑا بن گیا۔ تب کہیں بارات گھر آئی۔

پھر وہ نیچے نہیں رک سکی۔ دوڑ کر اوپر آ گئی۔ . اوپر کمرے میں رات اندھیری تھی اور امید کا کوئی ستارہ بھی خالی آسمان پر نظر نہیں آ رہا تھا۔

سیج کی اوٹ میں جو ڈرامہ ہوتا ہے اسے وہ بھول جانا چاہتی تھی۔ اور مرد کے اس روپ کو بھی۔۔۔ جانے کیسے پل پل بیٹھی اندھے کنویں میں پھنک رہی تھی کہ ایک شور سا اٹھا۔ پھردھڑ سے دروازہ کھلا اور امان اندر آ گیا۔

ایک ثانیے کے لیے اس کی دھڑکنیں رک گئیں۔ اگر دل کے رشتوں کی مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ امان خوبصورت لمحات کی زنجیر توڑ کر پرانی صحبتوں کی آغوش میں چلا آیا ہے۔ تو آج شب کے بعد وہ زندہ نہ رہے گی۔ اور اس خوشی کی قیمت اپنی زندگی دے کر چکائے گی۔ اور امان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایسا انعام دے جائے گی کہ وہ تروتازہ پھول کی طرح اسے یاد رکھے گا۔ مگر امان تو بڑا ہراساں دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے سر اور کندھوں پر جو پھول لٹک رہے تھے۔ وہ لرز بھی رہے تھے۔ گریبان کے بٹن کھلے تھے۔ آنکھیں چڑھی چڑھی تھیں۔ جیسے کسی دشمن نے پلائی ہو۔۔۔۔ سانس بے ترتیب تھی۔ اور ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔ وہ ڈرتی کانپتی کھڑی ہو گئی۔ پیچھے بی اماں اور چند عورتیں بھی کمرے میں داخل ہوئیں۔

خداوند!

" کیا کوئی اور قیامت بھی آئے گی؟

اب کون سا کھیل دھرتی پر رچایا جائے گا؟

وہ دوڑ کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

”بیٹا! بولونا ؟ بی اماں کی آواز آئی۔

تو وہ اپنی بھاری' لرزاں لرزاں آواز میں بولا۔

" باسمہ ! میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔"

" نہیں امان نہیں۔۔۔۔ اپنے الفاظ واپس لو۔۔۔۔ تم میرے بغیر جی نہ سکو گے اور نہ میں تمہارے بغیر۔"

" باسمہ میں ان سب لوگوں کی موجودگی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔"

تین ہی بار بمباری کرنا تھی اسے۔

اماں بی بازو سے پکڑ کر اسے باہر لے گئیں۔ یہ بہادری کا کارنامہ کرنے کے بعد وہ بھی نڈھال نظر آ رہا تھا۔

باسمہ کی چیخیں اس کی اپنی حالت زار پر ہنسنے لگیں۔ یہ آخری ہدایت بھی فہمیدہ کو اماں بی کی طرف سے تھی۔۔۔ کہ جوں ہی اسے سرشار کر لو۔۔۔ ہوش اور بے ہوشی کے کنارے پر لے آؤ' تو ایک قدم آگے بڑھنے سے پہلے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ دیکھو' طلاق دلوائے بغیر اسے اپنا شوہر نہ بننے دینا۔ چاہے اس کے لیے کتنی ہی راتیں غارت کرنا پڑ یں۔ ورنہ اس کے بعد بازی جیتنے والا سب سے بڑا پتہ ضائع کر دو گی۔ "

" امان ' امان۔"

باسمہ سسک نہیں رہی تھی ، رو نہیں رہی تھی، اس کی یہ بے ترتیب سانس امان ' امان کا ورد کر رہی تھی' اور کہہ رہی تھی۔

یک دم ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے۔

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر!

جب تک ہوش رہا، یہی کہتی رہی، نیند کی گولیاں کھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ ایک بار جو بے ہوش ہوئی تو پھر دن کی دھوپ نے ہی اسے ہوش دلایا۔ اور اماں بی نے بھی نئے دولہا دلہن کے اٹھنے سے پہلے اسے میکے پہنچا دیا۔ سامان بعد میں پہنچ گیا، شام تک وہ حصہ' وہ چھپر کھٹ نئی دلہن کے لیے سجا دیا گیا تھا۔

یہ سب کتنا ناممکن سا لگتا تھا۔ مگر جب موت اور زندگی میں صرف ایک سانس کا فاصلہ ہے اور پل بھر میں یہ فاصلہ پاٹ جاتا ہے۔ آنکھیں موند تے ہی دوسرا جہان آ جاتا ہے تو وہ کس طرح ایک دن میں اپنا طویل سفر نہیں طے کر سکتی؟

اس وقت امان ایک جنرل اسٹور کے باہر کھڑا اپنے دوست کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا۔ اب وقت بے وقت فضول گوئی کرنا' دفتر سے اٹھ کر آوارگی کرنا' جدھر چاہتا منہ اٹھا کے چل دینا اس کی عادت بن چکی تھی۔ زندگی کا کوئی رویہ رہا تھا نہ اصول۔۔۔۔

جونہی اس نے نظر اٹھا کر دیکھا سامنے گاڑی میں باسمہ جا رہی تھی۔ جانے کیوں اب بھی' جب بھی وہ باسمہ کو دیکھ لیتا تو جیسے کوئی اس کے دل میں ایک چٹکی لیتا؟ دو' چار سال تو اسے باسمہ کہیں نظر نہ آئی تھی۔ ویسے اس نے سن لیا تھا کہ اس نے کسی امیر آدمی سے شادی کرلی ہے۔ اس نے اپنی کینچلی بدل لی ہے اور بڑی خوش و خرم رہتی ہے۔ جانے کیوں اسے باسمہ کی شادی کی خبر نے دکھ پہنچایا تھا' کیا وہ چاہتا تھا ساری عمر باسمہ بھکاریوں کی طرح نادار ہی زندگی گزار دیتی؟

مگر کس برتے پر ؟

پھر ایسا ہونے لگا کہ شہر کے کسی چوراہے پر' کسی ریستوران میں' کسی مارکیٹ میں اسے باسمہ نظر آ ہی جاتی۔ اپنے نئے شوہر کے ساتھ' کسی نئی سہیلی کے ساتھ' کبھی تنہا اپنی نئی کار میں۔ اس کے تن پر دیدہ زیب لباس ہوتا اور چہرے پر اتنا اطمینان ہو تا کہ امان کا دل جل کر کباب ہو جاتا۔ ایسا اطمینان اور ایسا سکھ تو امان کے نصیب میں نہیں آیا تھا، حالانکہ وہ بامراد تھا اور باسمہ کی کوکھ ابھی تک خالی تھی۔

جب کبھی وہ باسمہ کو اس عالم میں دیکھ لیتا۔ اس کا دل چاہتا وہ جا کر سر راہ باسمہ کو پکڑے اسے کوئی کچوکا لگائے۔ اسے بے وفائی 'کج ادائی کا طعنہ دے۔ کوئی ایسی بات کہے کہ ہنستی ہوئی باسمہ رو پڑے۔

آج بھی جب باسمہ بڑے وقار سے گاڑی چلاتی ہوئی اس کے آگے سے گزر گئی تو بے اختیار اس کا دل چاہا وہ اس کا پیچھا کرے۔ بالکل اس طرح جس طرح جوانی کے اولین دونوں میں وہ اس کا پیچھا کیا کرتا تھا۔ باسمہ ان دنوں کالج کے آخری سال میں تھی۔ اور امان یونیورسٹی کے آخری سال میں تھا۔ دوسرے نوجوان لڑکوں کی طرح وہ بھی چھٹی کے وقت زنانہ کالج کے گیٹ کے باہر کھڑاہوجاتا تھا۔ پھر ایک دن اس کی نظر باسمہ کے لمبے بالوں میں الجھ کر اس کی خوبصورت گہری براؤن آنکھوں پر ٹھہر گئی۔

اس دن کے بعد سے وہ صرف باسمہ کا انتظار کیا کرتا' اس کا پیچھا کرتا۔ اس بس اسٹاپ تک جاتا جہاں سے باسمہ گھر کے لیے سوار ہوتی تھی۔ یوں اس کی رسائی باسمہ کے گھر تک ہوئی۔ پیچھا کرنے کا یہ عمل پانچ سال تک جاری رہا حتی کہ باسمہ کے دل میں جیسے چنگاری پھوٹ نکلی جو آتش عشق کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ تب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا تھا اور باسمہ دل کے جذبوں پر ایمان لے آئی تھی۔ مگر کسی لڑکی کا پیچھا کرنے میں کس قدر مزہ آتا ہے' اسے اب تک یاد تھا۔ گو وہ اب نوجوان جوشیلا قسم کاعاشق نہیں تھا، مگر باسمہ ابھی تک اتنی ہی خوب صورت تھی کہ کوئی مرد اسے دیکھے تو اس کا پیچھا کرنے پر مجبور ہو جائے۔

وہ بے کلی میں ٹہلتا سڑک پر دور تک نکل آیا۔

کے اور مضطربانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اور مضطربانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ سڑک کے پار' بڑے چوراہے کی بغل میں اس کی نظر ٹھٹک گئی۔ بینک کی لیڈیز برانچ کے باہر باسمہ کی پیلے رنگ کی کرولا کھڑی تھی۔ غالباََ وہ بینک کے اندر گئی تھی۔ جنرل اسٹور کا مالک امان کا دوست تھا۔ امان اس کے پاس گیا اور بولا۔

" یار! میری گاڑی باہر کھڑی ہے۔ دھیان رکھنا۔ میں ذرا سٹرک کے پار بینک تک جا رہا ہوں۔" وہ سڑک پار کر کے بینک تک چلا گیا۔ گو بینک تک کہکشاں راستہ نہیں بنا رہی تھی ، مگر جانے اسے ان راہوں پر جانا اچھا لگا۔

پھر وہ موٹر کے قریب چلا گیا۔ اور بے اختیار جھانک جھانک کر اندر کی طرف دیکھنے لگا۔ موٹر کی پچھلی سیٹ پر بلوچی کام والی دو گدیاں پڑی تھیں۔ ونڈ اسکرین کے آگے، ایک خوبصورت سنہرے بالوں والی گڑیا لٹک رہی تھی۔ آگے انگریزی کے دو تین ناول پڑے تھے۔ ایک ڈبہ ٹشو پیپرز کا اور ایک ایئر فریشنر کی بوتل بھی نظر آ رہی تھی۔ باسمہ خوشبو کی دیوانی تھی۔ اس لیے موٹر میں بیٹھتے ہی چاروں طرف خوشبو چھڑک لیا کرتی تھی۔ اور بار بار ٹشو پیپر سے اپنا پسینہ صاف کیا کرتی تھی۔ اس کی آج بھی وہی عادت تھی۔ اجلی' اجلی ، مہکی' مہکی۔۔۔