QUFL - قُفل

قسط نمبر: 3

اردو کہانیاں

Bushra Rehman

2/4/20251 منٹ پڑھیں

پھر ایک اندرونی ابال اور تجسس کے مارے وہ موٹر کے نزدیک چلا گیا۔ موٹر کی سطح پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ جیسے کہ باسمہ کو چھو رہا ہو۔ پھسلتے پھسلتے ہاتھ دروازے کی کنڈی کو جا لگا۔۔۔۔ دروازہ کھٹ سے کھل گیا' وہ ڈر گیا۔

پھر مسکرایا۔ یہ عورتیں کتنی بھی ہوشیار بننے کی کوشش کیوں نہ کریں۔ عورتیں ہی رہتی ہیں۔ بھلا اس طرح ایک چالو سڑک پر گاڑی لاک کیے بغیر چھوڑ جانا کہاں کی سمجھ داری ہے۔ کوئی مرد یہ غلطی نہیں کر سکتا کہ وہ جانتا ہے کوئی کس حد تک " کمینہ " ہو سکتا ہے۔

اپنے اس فقرے پر وہ خود ہی چونک بھی گیا اور دروازہ پورا کھول دیا۔ اور بالکل غیر ارادی طور پر موٹر کے اندر اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اندر چھڑکی خوشبو کے علاوہ باسمہ کی مخصوص خوشبو بھی آ رہی تھی۔

عین اسی وقت باسمہ بینک کے اندر سے نکلی اور پرس جھلاتی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔ امان سیٹ پر بیٹھا بیٹھا منجمد ہو گیا۔ وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھتی بڑھتی رک گئی۔ اور پھر چاروں طرف یوں دیکھنے لگی جیسے اپنا مغالطہ دور کرنا چاہتی ہو ۔ اگر یہ گاڑی جس میں کوئی اجنبی بیٹھا تھا، کسی اور کی تھی تو اس کی اپنی گاڑی کہاں تھی؟ پھر جھک کر اس نے نمبر پلیٹ کو دیکھا اور جھنجلاتی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔ کسی اجنبی کی دیدہ دلیری پر اس کا خون کھول اٹھا۔۔۔ نہ جانے کون احمق انسان تھا؟ اس کی پریشانی بھانپ کر امان نے سر باہر نکالا اور معذرت کے سے انداز میں بولا۔

"یہی آپ کی گاڑی ہے ؟"

باسمہ نے چابی کو مٹھی میں گھمایا اور اسے گھورتی ہوئی آگے بڑھی۔ جھٹکے سے دروازہ کھول کر تنی تنی سی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی کہ شاید کوئی منچلے صاحب خوامخواہ لفٹ لینا چاہتے ہیں۔ اسٹارٹ کرنے سے پہلے ان کا مزاج درست کرنا ضروری تھا۔ سر اٹھا کر غور سے دیکھا تو اس کی پیشانی کے بل لرز کر رہ گئے' منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، چابی اشارٹ تک جا نہ پائی' اب منجمد ہونے کی اس کی باری تھی۔

وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس طرح امان سے ملاقات ہو جائے گی' اتنے ڈرامائی انداز میں' امان کی اس بے تکلفی پر اسے حیرت ہوئی اور گاڑی کھلی چھوڑ کر جانے کا افسوس ہوا۔ بولنے کے قابل نہ ہو سکی۔ بھلا چھوڑ کر جانے پر افسوس ہوا' کچھ لمحوں تک وہ بالکل بولنے کے قابل نہ ہو سکی۔

تھوڑی دیر بعد امان رک رک کر بولا۔ " اس طرح گاڑی کھلی چھوڑ کر نہیں جاتے، کوئی بھی ناخوشگوار حادثہ ہو سکتا ہے۔"

باسمہ نے کار اسٹارٹ کر دی۔ اب وہ حواسوں میں آ چکی تھی۔ بڑے نپے تلے لہجے میں بولی۔

" یہ بھی۔۔۔ ایک نا خوشگوار حادثہ ہے۔"

امان آیا تو تھا باسمہ کو کچوکے لگانے' دل کی آگ بجھانے' مگر اس کے قریب بیٹھتے ہی موم کی طرح پگھلنے لگا' الفاظ پگھل پگھل کر اس کی گویائی کو سلب کرنے لگے تو باسمہ بولی۔

" مہربانی کر کے آپ اتر جائیں۔"

" اگر میں یہ کہوں کہ نہیں اتروں گا تو پھر تمہارا ردعمل کیا ہو گا؟"

باسمہ نے گھور کر اسے دیکھا اور بولی۔

"مجھے یقین ہے، آپ ضرور اتر جائیں گے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کو اس گاڑی میں بیٹھنے کا حق نہیں ہے۔ اس کے لہجے میں اعتماد اور زہر دونوں تھے۔

" امان لرز گیا' اسے یوں لگا آج پہلی باروہ نصیب کی بلندیوں سے گرا ہے۔

روتے ہوئے لہجے میں ٹوٹ کر بولا۔

" چند باتیں کرنے کی اجازت دو باسمہ ! پھر میں خود ہی اتر جاؤں گا۔"

"کچھ عرصہ ہوا' مجھے ڈرامائی انداز سے بالکل نفرت ہو گئی ہے۔ " باسمہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر گاڑی چلا دی۔ "میں نہیں جانتی' کون سی باتیں رہ گئی ہیں جو پ کو پانچ ' چھ سال کے بعد یاد آ گئی ہیں اور اگر ہیں تو آپ کو قانون کی رو سے میرے وکیل کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے تھا۔"

" بالکل امیر عورتوں کی طرح گفتگو کر رہی ہو۔ تمہارا تو لب و لہجہ ہی بدل گیا ہے۔" امان نے بڑے یتیم سے انداز میں کہا۔

" کسی کا دل بدلتا ہے، کسی کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ دنیا کی ہر شے بدل جانے پر قادر ہے۔"

" باسمہ!"

یکایک امان کے لہجے میں روٹھا ہوا' ٹوٹا ہوا بچہ آن بیٹھا۔

" ایسے لگتا ہے جیسے تم اپنی موجودہ زندگی سے بہت خوش ہو۔ تم بہت مطمئن نظر آ رہی ہو۔ کیا تمہارا شوہر بہت اچھا ہے' بہت پیار کرتا ہے تم سے؟"

" الو کے پٹھے یہ کیا کہہ رہے ہو۔" امان نے اپنے کان خود کھینچے۔ " تم اس عورت کو تکلیف پہنچانے آئے تھے اور گھگھیا کیوں رہے ہو؟ ذلیل لگ رہے

ہو۔"

" جی، میرا شوہر بہت اچھا ہے اور مجھ سے بہت پیار کرتا ہے اور اسے بچے کی آرزو بھی نہیں۔ " اب کے برچھی باسمہ نے پھینکی تھی۔ اور اس کے سارے تیر خطا ہو گئے تھے۔

وہ جھوٹ نہ بول سکا ' کوئی بات نہ بنا سکا' مجبور چور کی طرح اپنے دل کا ہر راز اگلنے لگا۔

"باسمہ مجھے دیکھو۔ میں خوش نہیں ہوں ۔ " باسمہ نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ واقعی خوش نہیں لگ رہا تھا۔ اس کا تو حلیہ ہی بدل گیا تھا۔ نہ چہرے پر شگفتگی تھی ' نہ شادابی۔ آنکھوں کے گرد اور ٹھوڑی کے نیچے بے شمار لائنیں پڑ گئی تھیں۔ آدھے بال سفید ہو گئے تھے۔ جسم موٹا اور بھدا لگ رہا تھا۔ کوٹ میں سے توند باہر نکلی ہوئی صاف نظر آ رہی تھی۔ ہاتھ بے ڈھب اور ناخن پیلے تھے۔ کپڑے بھی کوئی خاص صاف نہیں تھے۔ جوتے پر پالش نہیں تھی۔ جس طرح پرانے گھر کا فرش ہر جگہ سے اکھڑا ہوا ہوتا ہے۔ اسی طرح امان کی شخصیت پر ادھڑ جانے کے نشانات تھے۔ تبھی تو اس ادھیڑ عمر آدمی کو باسمہ دور سے پہچان نہ سکی تھی۔ اس کی شخصیت بڑی دلکش اور موہنی صورت تھی۔ بانکا چھبیلا تھا۔ خوش مذاق اور پھرخوش مزاج تھا۔ صبح کو خوشبوؤں میں نہا کر جاتا تھا۔ باسمہ نے اسے ایسے رکھا ہوا تھا جیسے ماں اکلوتے بیٹے کو بنا سنوار کے رکھتی ہے۔ اب تو وہ کسی غریب گھر کا گیارہواں بچہ لگ رہا تھا۔ ذرا چربی چڑھتی تو باسمہ اس کے لیے پر ہیزی کھانا بنانے لگتی۔ زرا جسم ڈھیلا ہو تا تو وہ صبح کو ایکسر سائز کرواتی۔ ذرا حلقے نمایاں ہونے لگتے تو رات کو اسے دودھ جلیبیاں کھلاتی اور صبح گلاب کے عرق سے منہ دُھلاتی۔ جس طرح کوئی موتیا کا نازک پودا اپنے کچے صحن میں لگا لیتا ہے اور پھر اسے ہاتھوں کی اوٹ دے دے کر سینچتا ہے۔ اس طرح باسمہ اسے سینچ رہی تھی۔ جس طرح تند ہواؤں میں کوئی بیراگن اپنا چراغ اوڑھنی کی اوٹ میں کرلیتی ہے اسی طرح باسمہ نے اسے حالات کی گرمی سے بچایا ہوا تھا'حالات سے بچایا ہوا تھا۔

اف کس قدر بد صورت اور تباہ حال لگ رہا تھا یہ آدمی' جیسے باسمہ جیسی شہزادی کا ملازم ہو۔

" باسمہ ۔ " وہ شرمندہ سے لب و لہجے میں بولا۔ "یہ تو ٹھیک ہے کہ بچے اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہیں اور کسی انسان کی خوشیوں کی معراج ہیں۔ جب تم میرے ساتھ رہتی تھیں تو کبھی کبھی بچے کی خلش مجھے بھی تڑپایا کرتی تھی۔ مگر محض تمہاری خوشنودی کی خاطر میں اس حقیقت سے آنکھیں پھیر لیا کرتا تھا۔ جب اماں بی نے میرا گھیراؤ کر لیا اور میرے اردگرد فہمیدہ کا دائرہ تنگ کرنے لگیں تو میری خفتہ خواہش بھی جاگ اٹھی، ایک جوان عورت کا قرب اور ایک بچے کی آرزو دونوں نے مل کر میری آنکھیں بند کردیں۔ میں نے اپنے ذہن کی آواز سننے سے انکار کر دیا اور دل کے اشاروں پر چلنے لگا۔ مرد کی سوچ دور تک نہیں جا سکتی۔ اسے صرف "آج" نظر آتا ہے۔ عورت کی طرح کل اس کا خزانہ نہیں ہوتا۔ کہ وہ اسے سنبھال کر رکھ لے، میں وہ۔۔۔ نا اہل بازی گر تھا جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی خواہشات کو اپنی انگلیوں پر نچاتا رہے گا۔ تھوڑی پر دیر کے لیے وہ چپ ہو گیا۔ جب باسمہ کچھ نہیں بولی تو پھر شروع ہو گیا۔

"شاید تم جانتی ہوگی کہ اب میرے چار بچے ہیں اور پانچواں پیدا ہونے والا ہے، میں نے دنیا کی سب سے بڑی خوشی دیکھ لی ہے۔ پھرمیں کیوں ٹوٹ پھوٹ گیا ہوں' اجڑ گیا ہوں؟ منزل پر پہنچنے کے بجائے بھٹک کیوں رہا ہوں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں، فہمیدہ جتنی بدصورت لڑکی ہے اتنی ہی بد مزاج بھی ہے۔ ہر بچے کی آمد اس کی تنک مزاجی میں اضافہ کرتی جاتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے بچے پیدا کر کے اس نے مجھے خرید لیا ہے۔ اسے اپنی ذات کے سوا کسی کا خیال نہیں ہوتا۔ وہ انتہائی بد اخلاق' پھوہڑ اور بد سلیقہ لڑکی ہے۔ وہی گھر جو تمہاری موجودگی میں جنت کا ٹکڑا لگتا تھا۔ اب گندگی کا نمونہ لگتا ہے۔ مجھے چاندنی کے سائے میں رہنے کی عادت تھی۔ مجھے تم نے کہکشاں پر لٹایا تھا' مجھے تم نے ذہنی و جسمانی آسودگی کا امرت پلایا تھا۔

تم نے میرے اتنے ناز اٹھائے تھے کہ میں شیشے کا شہزادہ بن گیا تھا۔ جو ٹھیس لگنے سے چٹخ جاتا ہے۔ فہمیده کم فہم اور جھگڑالو عورت ہے۔ وہ چاہتی ہے میں اس کے ناز اٹھاؤں۔ نہیں اٹھا سکتا تو اپنی بد زبانی سے میرا جگر زخمی کر دیتی ہے۔ میں گھر سے دور رہتا ہوں۔ باہر آوارگی کرتا ہوں، رات بھر سکون سے سو نہیں سکتا۔ گندے' غلیظ بچے مجھے خوشی نہیں دے سکتے۔ کوئی میرا خیال نہیں رکھتا' کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا۔“

وہ چُپ ہو گیا۔

جیسے کوئی گلے میں اپنی چیخ دباتا ہے۔

پھر اپنی آواز پر قابوپا کر بولا۔

"بہت دنوں کے بعد مجھے پتا چلا کہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ایک خوش اخلاق نیک اطوار، شفیق اور خدمت گزار بیوی ہے۔ تمہارا سلیقہ' تمہارا طریقہ' ایک' ایک بات مجھے یاد آ کر رلاتی رہی' میں تمہیں کبھی نہیں بھول سکا باسمہ اور آج تمہیں دیکھ کر بے اختیار ادھر آ گیا ہوں۔ اور اعتراف کر رہا ہوں کہ بچے کا نہ ہونا اتنی بڑی محرومی نہیں جتنی بڑی بد نصیبی تمہارے جیسی عورت کو ٹھکرانا ہے۔"

" اب آپ کہاں اتریں گے؟" بوی بد

اسی سکون سے باسمہ نے پھر پوچھا۔

" کیا یہ میری بات کا جواب ہے؟" امان نے غرا کر کہا۔ " اس وقت سے میں جھک مار رہا ہوں؟"

" کیا یہی وہ باتیں تھیں جو آپ کرنا چاہتے تھے ؟؟ اس کا لہجہ کیسا اجنبی تھا۔

امان کو شرم سی آنے لگی" ہاں۔۔۔۔" اس نے کہا۔ "کہنا تو اور بھی بہت کچھ تھا۔ مگر تمہاری بے حسی نے میری زبان بند کر دی ہے۔"

باسمہ تھوڑا سا مسکرائی۔

" تم نے کہا تھا نا ؟" امان جلدی سے بولا۔ " کہ تم میرے بغیر جی نہ سکو گے۔ تم نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اب میں زندہ تو ہوں' مگر پھر اس نے باسمہ کو غور سے سر سے پیر تک دیکھا اور تلخی سے بولا۔ مگر تم خوش ہو؟ مسرور ہو ، تمہارے چہرے سے نظر آ رہا ہے۔ ورنہ تم اتنی بنی سنوری کبھی نہ ہوتیں ، تم نے بھی تو کہا تھا اگر میرے علاوہ کوئی اور مرد تمہیں چھو لے گا تو تم مرجاؤ گی ، عورتیں کس قدر جھوٹی اور ہر جائی ہوتی ہیں۔ سچ ہے' عورت صرف دولت پر مرتی ہے' تم نے ایک امیر آدمی سے شادی کرلی اور تمہیں وہ غریب آدمی بالکل بھول گیا۔ گاڑی لیے پھرتی ہو، اپنا چہرہ دیکھو اتنا میک اپ تم پہلے کبھی نہیں کیا کرتی تھیں۔ اتنی دیدہ دلیر اور فیشن ایبل تم پہلے کبھی نہ تھیں۔ سچ بتاؤ کیا تمہیں میرا نعم البدل مل گیا ہے؟"

" امان صاحب!" باسمہ نے گیئر بدلا اور بولی۔ سب سے بڑی دولت قناعت کی دولت ہے۔ پر مرد دینا میں اللہ کا خلیفہ بن کر بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ جبکہ ایک عورت اگر بانچھ پیدا کر دی جائے تو وہ اپنی قسمت پر صابر و شاکر ہو جاتی ہے۔ مرد کو اللہ کی رضا پر صبر نہیں آتا۔ اللہ کی بنائی ہوئی دنیا میں دخل اندازی کرتا رہتا ہے اس لیے بے سکون رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بہت مطمئن اور مسرور ہوں اور اللہ کی احسان مند بھی۔"

" کیا تمہارا شوہر تم سے بہت محبت کرتا ہے؟" امان نے شکست خوردہ لہجے میں پوچھا۔ اور پھر اپنے سوال کا زخم خودہی کھا کر جواب دے بیٹھا۔

" کوئی بد قسمت مرد ہو گا۔ جو تمہیں حاصل کر کے تم سے محبت نہ کر سکے۔ تم تو خود سرتاپا محبت ہو۔"

اسٹیئرنگ پر باسمہ کے ہاتھ لرز تھے۔ اب معاملہ برداشت سے باہر ہوا جا رہا تھا اور ممکن تھا کہ ضبط کے اس سنگم پر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے۔ بڑی دیر سے وہ اپنے آپ کو سنبھال رہی تھی۔ اور الفاظ ڈھونڈ رہی تھی اپنی کہانی کے حسب حال -۔۔۔

اس دن جب اماں بی نے اسے نیم غشی کے عالم میں باپ کے گھر پہنچا دیا تو دنیا اس کے آگے اندھیر ہو گئی۔ ماتم کرنے کی ستمگر نے مہلت نہ دی تھی اور جلدی جلدی کتاب زندگی کے ورق پلٹ گئے تھے۔ اس لیے اس نے چُپ کا روزہ رکھ لیا ۔ مگر کئی دن تک وہ بستر پر بڑی امان کا انتظار کرتی رہی تھی کہ شاید صبح کی بھول امان کو یاد آ جائے۔ نو سال کی تین ہزار دو سو پچاسی راتیں اس کے ساتھ بسر کی تھیں، ان ہی راتوں میں کوئی شوخ رات ضدی بالک بن کر اس کی انگلی پکڑ لائے، اپنی کج ادائی پر اسے رونا آ جائے اور خود چلا آئے۔ مگر اماں بی کا انتظام کچھ ایسا کچا نہیں تھا۔ انہوں نے پورے چار ماہ کے لیے امان اور فہمیدہ کو اس شہر سے باہر اپنی بہن کے پاس بھیج دیا تھا۔ فہمیدہ کے ساتھ ہدایات کی گٹھڑی بھی تھی۔ البتہ طلاق کے باقاعدہ کاغذات گھر آ گئے تھے۔

ابا جی کی زبان مفلوج ہو چکی تھی ۔ وہ بول نہیں سکتے تھے' مگر دیکھ تو سکتے تھے۔ باسمہ جانتی تھی کہ ابا جی جانے والے ہیں مگر اس نے ان سے یہ خبر چھپائی نہیں بلکہ انہیں سب کچھ بتا دیا۔ ابا جی کی بولتی آنکھیں لمحے بھر کو ساکت ہو گئیں پھر انہوں نے اپنے وکیل کو بلوا بھیجا؟ پہلے اپنی ساری جائیداد وقف کر کے جا رہے تھے۔ اس میں سے کچھ فلیٹ اور دکانیں باسمہ کے نام کر دیں۔ نئے سرے سے وصیت نامہ لکھوایا۔ نئے سرے سے ہدایات جاری کیں ۔

باسمہ کی عدت ختم ہو گئی۔ مگر ابا جی کا دم اٹکا رہا۔ باسمہ کو اکثر یوں محسوس ہوتا کہ ابا جی پرواز کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کے پراڑنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ شاید وہ اباجی کی پرواز میں حائل ہو رہی تھی۔ ان کی مردہ آنکھوں میں ایک زندہ سوال تھا جیسے کہنا چاہتے ہوں۔

" مرنا چاہتا ہوں۔ مر نہیں سکتا۔ یوں میرے سامنے بیٹھی رہوگی تو کیسے مروں گا؟"

ابا جی کے پاس جو وکیل صاحب آئے تھے ان کا نام بھی عبد الوکیل تھا۔ اور وہ شہر کے نامی گرامی وکیل تھے۔ عمر میں ابا جی سے چھوٹے تھے۔ مگر ابا جی کے ساتھ دوستانہ مراسم ایک عرصے سے تھے۔ بہت زیادہ لمبے اور دبلے پتلے تھے۔ ہاتھوں کی رگیں بھی صاف نظر آ تی تھیں۔ رنگت ان کی زرد زرد سی اورآنکھیں بجھی بجھی نظر سی تھیں۔

ایک دن جب وہ کاغذات کے پلندے اباجی کے پاس رکھ کر جانے لگے تو باسمہ ان کے پیچھے لپکتی چلی گئی اور بولی ۔

" وکیل صاحب! ایک ذاتی سا سوال کرنا چاہتی ہوں۔"

" فرمائیے۔ " وکیل صاحب گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے رک گئے۔

" آپ نے شادی کیوں نہیں کی اب تک ؟" وکیل صاحب کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ناگواری ان کی پیشانی پر نمودار ہوئی مگر آہستہ سے بولے۔ "کوئی مجبوری تھی۔" اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ باسمہ دوسری طرف سے دروازہ کھول کر ان کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

"کیا آپ نے کسی کو وچن دے رکھا تھا؟" وکیل صاحب کو باسمہ کی یہ دخل اندازی بری لگ رہی تھی۔

" نہیں۔" وہ سختی سے بولے۔ بعض لوگ محرومیوں کے ساتھ پیدا کیے جاتے ہیں۔ اگر میں شادی کا اہل ہوتا تو مناسب وقت پر رشتوں کی کمی نہ تھی۔

”ہاں وکیل صاحب! " باسمہ جلدی سے ہوئی۔

" قدرت بہت انصاف پسند ہے۔ وہ صرف مردوں پر ایسے ظلم نہیں ڈھاتی' عورتوں پر بھی ڈھاتی ہے۔ میں بھی پیدائشی بانجھ ہوں۔ اسی وجہ سے مجھے طلاق ہو گئی' آپ نے شادی نہیں کی کہ ایسی بدمزگی سے بچنا چاہتے تھے۔ میں نے ہر ممکن طریقے سے شادی کو نبھانے کی کوشش کی مگر بربادی میرا مقدر بن گئی۔"

وکیل صاحب نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا تو وہ بڑی دیانت داری سے بولی۔

" آپ میرے ساتھ شادی کرلیں۔"

"بی بی! آپ ہوش میں ہیں؟"

بہت سوچ سمجھ کر یہ بات کہہ رہی ہوں۔ میرے باپ کا دم مجھ میں اٹکا ہے۔ ان کو سرخرو کرنا چاہتی ہوں۔

آپ تو خود قانون داں ہیں اور جانتے ہیں کہ ایک عورت جوان ہو۔ خوبصورت ہو اور پھر طلاق شدہ بھی ہو اوراس کے اوپر شرعی سائبان نہ ہو تو یہ دنیا اسے الزامات کے خنجر سے لہولہان کرتی رہتی ہے۔ اس کو ناکردہ گناہوں کی سلاخوں سے داغا جاتا ہے۔ اس کے اجلے دامن پر پاپ کی پیک پھینکی جاتی ہے۔ اگر آپ مجھ سے شادی کرلیں گے تو مجھے ایک باعزت اور شریف آدمی کا تحفظ مل جائے گا۔ معاشرے کی سب سے بڑی سیکیورٹی مل جائے گی۔

ہے تو میری خود غرضی ، مگر آپ سے کیا چھپانا؟ میں نے ہوش سنبھالتے ہی امان کو اپنا دین و ایمان سمجھا تھا۔

میں تصور بھی نہیں کر سکتی کہ کوئی دوسرا انسان مجھے چھو بھی سکتا ہے۔ اگر کسی دن کسی نے مجھے غلطی سے بھی چھو لیا تو میں مرجاؤں گی' اس بات کا خطرہ آپ کے ساتھ رہنے میں تو نہیں نا؟ اس لیے تو جھولی پھیلا کے سوالی بن کے بھیک مانگتی ہوں؟

اس کے عوض میں آپ کو کیا دوں گی؟ آپ کے گھر میں آپ کی خادمہ بن کر رہوں گی۔ آپ بیمار رہتے ہیں' آپ کو ایک نرس کی ضرورت ہوگی۔ ایک تنہا مرد ایک نرس رکھنے کا الزام کہاں اٹھا سکتا ہے۔ مجھے نرس بنا کے رکھ لیجیے۔ رہتا تھا۔ بی ۔ اے تک میری تعلیم ہے۔ آپ کے دفتر کا بہت سا کام کر سکتی ہوں۔ آپ کے موکلوں سے مل سکتی ہوں۔ اور بھی کئی چھوٹے موٹے کام

نکل آئیں گے۔ بڑھاپے میں کسی دوست کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنہا گھر میں دم گھٹتا ہے اور کیا آپ کے اطمینان کے لیے اتنا کافی نہیں کہ آپ ایک بے آسرا عورت کو سہارا دے رہے ہیں۔ میں اپنی ہر سانس کے ساتھ آپ کو دعا دوں گی۔ دعا کی تو ہر خاکی کو ضرورت ہوتی ہے۔

" دعا لینا چاہتے ہیں آپ وکیل صاحب؟" باسمہ نے سب کچھ ایک ہی سانس میں اگل کے وکیل صاحب کی طرف رحم طلب اور پر امید نظروں سے دیکھا۔

وکیل صاحب نے باسمہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ تبھی اس کے سچے اور صبیح چہرے کو پرکھا اور پھر مسکرا دیے۔

دوسرے دن چند احباب کی موجودگی میں نکاح ہو گیا۔

ابا جی بول نہ سکے۔ مگر ٹکر ٹکر باسمہ کو دیکھتے رہے کہ اس نے ایک مریض اور بڑی عمر کے آدمی کا ہاتھ کیونکر پکڑ لیا اور تیسرے دن ابا جی نے زبان کے ساتھ آنکھیں بھی بند کر لیں۔ جانے خوشی تھی یا صدمہ ؟

اطمینان پاتے ہی چلے گئے۔

باسمہ وکیل صاحب کے گھر آ گئی۔ گھر ویسا ہی تھا جیسا عورت کے بغیر ہوتا ہے۔ میلا کچیلا کچن اور دوائیوں کی بے شمار خالی اور بھری ہوئی بوتلیں۔ باسمہ کو صاف ستھرائی اور پاکیزگی کا جنون تھا۔ گھر دلہن بن گیا تو وکیل صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

بولے۔

" کون بد قسمت تھا وہ جس نے تمہیں طلاق دے دی۔ مجھے یوں لگتا ہے اب سے پہلے میں قبرستان میں رہتا تھا۔ اگر ایک خوبصورت گھر میں ایک سلیقہ شعار عورت رہتی ہو اور لوگ اسے تمہاری بیوی کہیں تو زندہ رہنے کے لیے یہی احساس کافی ہے۔ باسمہ تم نے میری عمر بڑھا دی ہے۔"

ویسے لوگوں نے وکیل صاحب اور باسمہ کو کم باتیں نہیں بنائی تھیں۔

" کھوسٹ کو عشق کا سودا ہوا ہے۔ قبر میں پاؤس لٹکاۓ تو سہرا باندھنے کا خیال آ گیا۔"

" ارے نہیں۔ ایک آدمی کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ روز آنا جانا تھا وہاں اس کی بیوی اڑا لا یا ۔ "

" دیکھو تو اس کے کرتوت کسی شادی شدہ جوڑے کو طلاق پر آمادہ کر لینا ان وکیلوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سچ ہے مرد کا کسی عمر میں اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔"

اور پھر باسمہ سے کون خوش تھا؟

" چار دن بھی نہ گزارے گئے شوہر کے بغیرعدت ختم ہوتے ہی شادی رچالی۔ سنا ہے پہلی شادی بھی عشق بازی کا نتیجہ تھی۔ خوبصورت عورتوں کو شادیاں رچانے کا شوق ہوتا ہے۔"

" اللہ جانے بیچ میں کیا بات تھی۔ سنا ہے وکیل صاحب سے اس کا پرانا یارانہ تھا۔ باپ کے پاس آیا تھا بس وہیں سے کوئی گڑبڑ شروع ہو گئی اور بات طلاق تک پہنچ گئی۔ تب ہی تو جھٹ اس نے باپ کی عمر کے آدمی سے شادی کرلی۔"

"باپ بے چارا اسی صدمے سے مر گیا۔ اب دوسرے شوہر کو کھائے گی۔"

باسمہ ان سب باتوں سے بے پروا۔ دن بھر گھر کو بناتی، سنوارتی ، شام کو وکیل صاحب دفتر گھر پر ہی لگاتے تھے' ان کی منشی گیری کرتی۔ ان کے مہمانوں کو چائے بنا بنا کر پلاتی۔ ان کی فائلیں ترتیب دیا کرتی۔ رات گئے ان کو بہت سی دوائیاں کھلا کر پانی کی بوتل میز پر رکھ کے شب بخیر کہہ کے اپنے بیڈ روم میں آ جاتی۔ بیڈ روم کی ہر شے سفید تھی۔ مصفا اورمعصوم۔۔۔ بستر پر رات گئے تک لیٹ کروہ کتا ہیں پڑھا کرتی۔ اور پھر اپنی پرانی محبت کو خراج دینے کے لیے بلا ناغہ آنسو بہاتی اور سوجاتی۔

کبھی کبھی وکیل صاحب رات کو اٹھ کر اسے دیکھنے آتے تھے۔

وہ سوتے میں انہیں بہت اچھی لگا کرتی تھی۔ ہلکے زرد رنگ کے نرم تکیے کو دونوں بازوؤں میں سینے سے لگا کے اپنا ایک رخیار اس پر ٹکا دیتی تھی۔ سوتے میں وہ معصوم بچی لگا کرتی تھی۔ جس کا کھلونا ٹوٹ گیا ہو اور وہ روتے روتے سوگئی ہو۔ کبھی کبھی اس کی لمبی پلکوں میں اٹکے ہوئے آنسو وکیل صاحب کو صاف نظر آ جاتے تھے کیونکہ وہ جاگتے میں مسلسل نظر آجاتے۔ شاید وہ سوتے میں مسلسل روتی تھی۔ وکیل صاحب بے خودی کے عالم میں اسے دیکھتے رہتے۔ بڑھ کر کبھی نہیں چھوتے تھے۔ وہ جانتے تھے، چھونے سے یہ پری مر جائے گی۔ بڑی نازک ہے۔ سانس کی گرم ہوا بھی نہیں سہہ سکتی۔ وہ اسے ہمیشہ زندہ دیکھنا چاہتے تھے، اس لیے اکثر دیکھ کر چلے جاتے تھے۔

رات بھر رونے والی باسمہ صبح تازہ دم ہو کر اٹھتی۔ نئے سرے سے کاموں کی ابتدا کرتی۔ دس گیارہ بجے کاموں سے فارغ ہو کر وہ بہترین لباس پہنتی۔ خوب قرینے سے میک اپ کرتی اپنی آنکھوں کو مسکارے سے سجاتی۔ ہونٹوں رخساروں، پپوٹوں پر گلابیاں پھیر دیتی۔ وکیل صاحب کے کورٹ جانے کے بعد وہ بھی اپنے اور خوشبوؤں کی بارش کرتی اور پھر گاڑی نکال کر باہر نکل جاتی۔ وکیل صاحب نے اپنے بہت سے کام اس کے سپرد کر رکھے تھے۔ یعنی بینکوں میں جانا' ڈاکٹروں سے رابطہ رکھنا' گاڑی کا لائسنس بنانا' وکیل صاحب کے دفتر کا حساب کتاب رکھنا۔

ضروری خطوں کے جواب دینا' ان کے عزیزوں سے رابطہ رکھنا' وکیل صاحب کی زندگی کے کئی شعبے اس نے سنبھال رکھے تھے۔ ہر کام خوش اسلوبی سے کر رہی تھی۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر نظر آتی تھی ' وہ وکیل صاحب کی بہت مشکور تھی ۔ اگر وہ اس پر پر چادر نہ ڈالتے تو اس کا کیا حشر ہوتا ۔ خوب میک اپ کرتی تاکہ چہرے کی کوئی سلوٹ دل کی شکستگی کا راز نہ فاش کردے۔ ہر وقت مسکراتی رہتی تھی کہ اس کا نام باسمہ تھا۔ اور باسمہ کا مطلب ہے "مسکرانے والی۔" مسکرانے والیاں تو ہر دل کو اچھی لگتی ہیں۔ ان کا دل مسکرائے یا نہ مسکرائے۔

اس پر آج اس ظالم نے سر راہ اسے پکڑ لیا تھا اور اس کے پُر سکون سمندر میں لہروں کا مدو جزر پیدا کرنا چاہ رہا تھا۔

"امان!" باسمہ نے پر سوز ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔

" اماں بی کہا کرتی تھیں' بانجھ عورت آسیب زدہ مکان کی طرح ہوتی ہے، جس میں کوئی مرد صرف پل دو پل ہی ٹھہر سکتا ہے۔

وہ ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ آسیب زدہ مکان کو کتنا بھی سجائیں، قمقموں اور فانوسوں سے مالا مال کر دیں' آرام دہ بنا دیں' جنت کا نظارہ بنائیں ، خوشبوؤں میں بسائیں تب بھی کون بسیرا کرتا ہے ایسے مکان میں۔ سنسناہٹوں کی چچنیں اور وسوسوں کی آہٹیں اسے بھاگ جانے پر مجبور کرتی ہیں۔ نو سال تک میں اپنے جسم کے مکان کو سچا کے بیٹھی رہی۔

پھر ایک دن تم نے بھی مجھے آسیب زدہ ہونے کا احساس دلا دیا۔ کیا جینے کے لیے اتنا حوصلہ کافی نہ تھا۔

ایسے مکان کی مالیت اور کرایہ کم کر دینے سے کچھ مجبور لوگ بلاؤں کے ساتھ بسر کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔"

"باسمہ۔۔۔" اب کے امان نے بڑی محبت سے کہا۔ خوش تم بھی نہیں ہو شاید' میں نے تمہیں ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے بچھڑ کر کچھ ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، آؤ اچھے دوستوں کی طرح دوبارہ ملا کریں۔"

" اچھے دوستوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟"

ہونی انہونی تو نہیں ہو سکتی۔ مگر ہم اپنی زندگی کا کچھ وقت خوبصورتی سے ضرور گزار سکتے ہیں۔ ایک دم باسمہ کا پاؤں بریک کو لگ گیا اور گاڑی پچھلی گاڑی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ تب اس نے آہستہ سے اپنی گاڑی اس خطرناک موڑ سے نکالی اور ایک کونے میں کھڑی کردی۔ اور اپنی را بصورت گیلی گیلی آنکھوں پر اجنبیت کی کالی عینک چڑھا کر بولی ۔

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے نا کہ لہو رونے والی آنکھوں کو' نت برسنے والی پلکوں کو مسکارے کا غسل دیا جاتا ہے' سسکیاں بھرنے والے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی تہہ جمائی جاتی ہے۔ اور داغ داغ دل کو خوبصورت ملبوسات میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ورنہ یہ دنیا جینے کا حق چھین لیتی ہے۔

تھوڑی دیر کے لیے وہ رک گئی، جیسے اپنے آنسو ضبط کر رہی ہو۔ پھر بولی۔

" امان طوائف اور عورت میں بڑا فرق ہے؟ مرد اس فرق کو نہیں پہچان سکتا۔ اس کے خمیر میں خود غرضی کے عناصر زیادہ شامل ہوتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں ہی ایک مکان کی مانند ہوتے ہیں۔ مگر فرق میں تمہیں بتاتی ہوں۔ مرد ایک ایسا مکان ہے جو بار بار اپنے مکین بدلنا چاہتا ہے۔ نت نئے کرائے دار بدل کے اسے مزہ آتا ہے۔ وہ پرانے لوگوں سے جلدی بیزار ہو جاتا ہے۔ مگر عورت ایک ایسا مکان ہے جو زندگی میں صرف ایک بار آباد ہوتا ہے۔ ایک ہی بار مکین آتا ہے اور اس میں سما جاتا ہے۔ اگر وہ پہلا مکین چھوڑ کر چل دے تو عورت اپنی مرضی سے آسیب زدہ مکان بن جاتی ہے تاکہ کبھی کوئی دوسرا اس کے اندر قدم نہ رکھ سکے۔ میں نے تم پر احسان کرنے کے لیے تمہیں یہ سب کچھ نہیں بتایا۔ ایک فلسفہ سمجھایا ہے کہ میں نے زندگی بسر کرنے کا سلیقہ کیونکر سیکھا۔ تمہارے جانے کے بعد اپنے تن کے اس مکان کو میں نے مقفل کر دیا ہے۔ اور اس کی چابی یادوں کے پچھوڑاے پھینک دی ہے۔ پھر وقتا فوقتا میں نے اس قتل پر اپنی محرومیوں کے اتنے آنسو بہائے ہیں کہ یہ تالا زنگ آلود ہو گیا ہے۔ محبت کے زنگ آلود قفل کو دنیا کی کسی زبان کی حلاوت نہیں کھول سکتی۔ اس کو توڑنا پڑتا ہے۔ جو صرف موت کا پیغامبر اپنی پہلی ضرب سے توڑ دیتا ہے۔

میرا شوہر ایک شریف آدمی ہے۔ میرا اس کے ساتھ ایک معاہدہ ہے۔ میں مقفل در کے اندر بیٹھی ہوں مجھے دنیا کے شور و شر سے کچھ مطلب نہیں اسی لیے تو مطمئن ہوں کہ چوری کا کھٹکا نہیں ہے۔ کل رات تک میں ہر رات تمہاری یاد میں آنسو بہا کر سویا کرتی تھی۔ میں نے اپنے جی میں یادوں کا ایک تاج محل بنا لیا تھا۔ جس میں بچے کی نا آسودہ خواہش ممتاز محل کی طرح پڑی سوتی تھی۔ اور ہر رات میں تمہاری یاد کے چند آنسو پھولوں کی جگہ اس کی نذر

کیا کرتی تھی امان!

ایسی گھٹیا بات کر کے تم نے مجھ سے یادوں کا وہ چراغاں چھین لیا ہے۔ آج کے بعد میں تمہیں اس طرح یاد نہ کر سکوں گی۔

مگر ایک بات یاد رکھنا، قفل میرے تن پر اسی طرح رہے گا۔"

باسمہ نے دوسرے ہاتھ سے دروازہ کھول دیا اور تیزی سے بولی۔

"اب تم جا سکتے ہو۔"