Drama Khatam-ڈرامہ ختم

محبت میں دھوکہ کھانے والی لڑکی کے انتقام کی کہانی

اردو کہانیاں

Sidra Tul Muntaha

2/4/20251 منٹ پڑھیں

زندگی عجیب ہے اور دنیا گول ہے' اسے پتا تھا زندگی عجیب ہے مگر اسے ابھی پتا چلا کہ دنیا گول ہے' جب وہ دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھی تب بھی سب وہی تھا جب وہ گاڑی سے اتر کر مال گئی تب بھی سب ٹھیک تھا۔ مگر واپس آتے ہوئے راستے میں جب بارش ہو رہی تھی اور جب وہ فٹ پاتھ پہ چھتری لیے کھڑا تھا۔ تب اسے لگا جیسے دنیا گھوم رہی ہے جیسے اس کی نظر چکرا رہی ہے۔ مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ وہی تھا' وہ اس کو دیکھ کر حیران تھا۔ شاید اس کی نگاہ میں بھی دنیا گھوم رہی ہو گی شاید وہ بھی یقین کرنے میں اسی مشکل کا شکار ہو گا۔ مگر شاید ایسا نہ تھا۔

وہ دوڑتا ہوا اس کے پیچھے ہوٹل کا دروازہ کھول کر داخل ہوا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی کونے والی میز پہ آ بیٹھی۔ سامنے کی طرف سے اس کی پشت تھی۔ وہ اسے دور سے دیکھتا ٹیبل تک آیا تھا اور کرسی کھینچ کربیٹھ گیا۔

" مبینہ۔۔۔۔ مبینہ ۔۔۔۔ تم کیسی ہو؟ وہ تیز تیز چلنے کے سبب ہانپ رہا تھا۔

" اب یہ مت کہنا کہ تم مجھے نہیں پہچان پائیں۔۔۔۔۔ یہ مت کہنا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ مبینہ تم تو ویسی کی ویسی ہو۔"

وہ بہت ایکسائنٹڈ تھا۔ بہت پر جوش ، بہت خوش خوش سا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کیا کہے۔۔۔۔ وہ اسے دیکھتی رہی جب یقین آ گیا کہ وہ وہی طاہر تھا تو خاموشی سے بیگ میز سے اٹھایا اور گاڑی کی چابیاں مٹھی میں بند کیں ۔ سیل فون پرس میں رکھا اور بغیر ایک لفظ کہے

کھڑی ہو گئی۔

"مبینہ۔۔۔ پلیز رکو مجھ سے بات کرو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ دیکھو ہم بہت عرصے بعد ملے ہیں۔ " وہ اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔

" پلیز مبینہ رک جاؤ۔ دو منٹ' صرف دو منٹ مبینہ؟"

اس کے قدم اس کے ساتھ ساتھ تیز ہو رہے تھے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے باہر آیا ہوٹل سے باہر پارکنگ تک۔

”مبینہ! ایک منٹ' پلیز صرف ایک منٹ۔" وہ گھوم کر آئی گاڑی میں بیٹھی۔

اس نے پھرتی سے دروازہ کھولا اور بیٹھ گیا۔

" اتریں گاڑی سے میں آپ کو نہیں جانتی ' آپ کون ہیں ۔ گاڑی سے اتریں ورنہ میں یہاں کسی گارڈ کو آواز دیتی ہوں۔"

”مبینہ تم ایسا کیوں کر رہی ہو۔۔۔۔ کیا تم میری بات بھی نہیں سنو گی ۔ پرانی دوستی کے ناتے۔ اس تعلق کے ناتے جو ہم میں کئی سال رہا ۔"

" میں نے کہا نا کہ میں آپ کو نہیں جانتی۔ کیا آپ نے سنا نہیں یا سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک بار پھر سن لیں۔۔۔۔ میں آپ کو نہیں جانتی۔ اب اتریں پلیز۔۔۔۔۔ ورنہ مجھے کسی کو بلانا پڑے گا۔"

" تم وہی ہو۔۔۔۔۔ یقین نہیں آ رہا۔"

اس نے ہاتھ بڑھا کر گاڑی کا دروازہ کھولا وہ ناچار اتر گیا۔ اس نے دروازہ بند کیا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔

وہ دور کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ وہ دیکھتا رہا۔

وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے پلیئر آن کیا۔

شام سے پہلے آنا۔۔۔۔۔ عالمگیر کی آواز گونجی گاڑی میں

دھوپ ساری ڈھل رہی ہو

پھول سارے کھل رہے ہوں

موسم سارے لے آنا

اس کی آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی تھی۔

پھر وہی دن آئے ہیں

جانے کیا لے آئے ہیں

جیون میرا۔۔۔۔ سارا تیرا

جینا تو اک بہانہ ہے

اسے بار بار آنکھیں صاف کرنا پڑی تھیں تاکہ سکرین صاف نظر آئے۔

اک تیرے آ جانے سے

مل رہے ہیں زمانے سے

جیون میرا سارا تیرا

دور اب کیا جانا

شام سے پہلے آنا

دھوپ ساری' اس نے ہاتھ بڑھا کر پلئیر بند کردیا۔ آنکھوں سے کتنے دنوں بعد پھر وہی سیلاب باہر آیا تھا۔

جو یاد نہیں کرنا چاہا وہی سب یاد کیوں آنے لگا تھا۔ گاڑی سے گھر تک' گھر سے بستر تک اور رات تک وہ تیز بخار میں جل رہی تھی۔

" کیا میری مشکلوں کا کبھی خاتمہ نہیں ہو گا ؟" بخار میں کروٹیں بدل بدل کر وہ یہ سوال کس سے پوچھو رہی تھی۔۔۔۔ خود سے یا پھر خدا سے۔۔۔۔؟

ساری مشکلیں، سارے کڑے وقت اسے یاد تھے۔ جب وہ بارہ سال کی تھی اور اس کی ماں دو جڑواں بچوں کو جنم دے کر مرگئی تھی، اس کی موت کی اصل وجہ کیا تھی۔ اس کا ٹھیک طرح سے نہ علاج ہونا یا پھر اور کچھ ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تھا۔ انہیں بچہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان کو ٹھیک غذا نہ ملی۔ وہ کمزور تھیں' سوکھی چھڑی کی طرح اور جب ڈاکٹر نے کہا ۔ " بچے کو بچا سکتے ہیں یا ماں کو۔" تو اس کے باپ نے بچے کو ترجیح دی اور اس نے ماں کو کھو دیا۔

زندگی کا سب سے بڑا حادثہ اس کے ساتھ تب پیش آیا تھا۔

وہ اس صدمے سے شاید بہت دیر بعد نکلتی اگر وہ خاتون نہ ہوتیں جنہوں نے اس کی ماں کو بیٹی بنایا تھا ماں کے جانے کے بعد وہ عورت اس کا حوصلہ بنی رہی۔ اسے سمجھاتی رہی' حوصلہ دیتی رہی۔

اس کے باپ نے سمجھا تھا عنقریب وہ دوسری شادی کرلے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا، دوسرا حادثہ اس کے باپ کا ٹرک ایکسیڈنٹ تھا جس میں اس کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔ ماں کا جو بچا کھچا زیور تھا۔ وہ باپ کے علاج پر چلا گیا۔ اس کا باپ کچھ بہتر ہو کر گھر آ گیا تھا۔ مگر معذوری اور محتاجی نے ساری امید تو ڑ دی ۔ تب بھی وہ زندگی سے ہاری نہیں تھی۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اپاہج باپ کی خدمت اور دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور ساتھ میں پڑھائی جسے کسی صورت وہ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔

ابھی تو وہ صرف ساتویں میں تھی۔۔۔۔۔ ابھی تو اسے بہت پڑھنا تھا۔ بہت آگے جانا تھا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے۔ کبھی وہ لکھ رہی ہوتی اور وہ دونوں رونا شروع ہو جاتے۔ وہ پریشان ہو جاتی۔

" ابا! آفاق فیڈر نہیں پی رہا۔ حرا مسلسل روئے جا رہی ہے۔

اور وہ اسے جھڑک دیتا ۔۔۔۔ اپنی بیماری کا سارا غصہ اس پر نکال دیتا۔ سارا دن بڑبڑاتا رہتا اور چھوٹے بچوں کو برابھلا کہتا رہتا جو کبھی اس کی خواہش تھی اب اس کے لیے عذاب اور بوجھ بن گئے تھے۔ پھر وہ بڑی اماں کی طرف دوڑ لگاتی۔

" بڑی اماں! آفاق فیڈر نہیں لے رہا۔ حرا روئے جا رہی ہے۔ میں کیا کروں ؟ انہیں اس معصوم سی ماں پر رحم آ جاتا اور وہ اس کے ساتھ کچھ دیر بچوں کو سنبھال لیتیں جب تک وہ کچھ اور بنا کر آتی۔

بڑی مشکل سے دو تین سال روتے روتے گزرے۔ اب اسے یہ تسلی تھی کہ وہ دونوں بڑے ہو رہے ہیں۔ کچھ تو وہ آسانی سے گھر کا کام کرلے گی یا پڑھ لے گی۔ بورڈ کے امتحانات اس نے کس افرا تفری میں دیے یہ صرف اسے پتا تھا۔ ابا کہتا تھا پڑھائی چھوڑ دے مگروہ کیسے چھوڑ دیتی اس کا بہت سا پڑھنا اس کی ماں کا خواب تھا۔ اگر وہ نہ پڑھتی تو اپنے بہن بھائیوں کو کیسے پڑھاتی۔

ایک دن وہ بھی آیا۔ جب وہ دونوں آہستہ آہستہ چیزیں پکڑ کر چلنے لگے اور بات کرنے لگے۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔ دوڑ کر بڑی اماں کے پاس جاتی۔ ” آج آفاق نے یہ جملہ بولا۔۔۔۔ آج حرا نے یہ کہا۔۔۔۔ وہ تیز تیز دوڑتی ہے۔" وہ اسے خوش دیکھ کر خوش ہو جاتیں۔

ابا کو کچھ بتاتی تو الٹا ییزاری دیکھنے کو ملتی۔ اسے یہی ایک فکر تھی کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں تو ساتھ خرچے بڑھ رہے ہیں۔ گو کہ اس نے سمجھ داری کے ساتھ خرچے کا حساب رکھا ہوا تھا۔ اپنی ضرورتوں سے بچا بچا کر ان کے لیے رکھتی اور ان کی ضرورتیں پوری کرتی۔

ایک دن وہ بھی آیا جب وہ دونوں کے ہاتھ پکڑے اسکول لے جا رہی تھی جب ان دونوں کے ہاتھ میں کتاب تھی اور اس کی خوشی کا تب بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ کتابوں کی بائینڈ نگ کرتی تھی۔ بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی اور ان پیسوں سے وہ ان دونوں کے لیے کہانیوں کی کتابیں ، کلر پنسلز اور کورس کی کتابیں لیتی۔ وہ ساری چیزیں جو لینے کے لیے اس کا دل کرتا تھا اور وہ لے نہ پاتی تھی۔ وہ ساری چیزیں وہ ان کے لیے لیتی تھی۔ ویسے کپڑے جو اسے نہیں ملے تھے وہ ان کو دلاتی تھی۔

پانچویں کے بعد اس نے ان دونوں کو ایک درمیانے درجے کے پرائیویٹ اسکول میں ڈال دیا تھا اور اپنی خواہشیں تو کیا ضرورتیں بھی مار کروہ ان کا خرچا پورا کرتی تھی۔

رات کو سوتے وقت وہ دونوں اس کے بازو پر لیٹ کر کہانی سنتے ہوئے سو جاتے تھے اور وہ دیر تک جاگتی رہتی اور اپنے ذہن میں سارے اخراجات' پیسے' ارادے اور خواب ترتیب دیتی رہتی۔ گنتی پھر الٹی ہو جاتی۔ وہ پھر سے نئے حساب کتاب میں جت جاتی۔ اسے اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے بہت تھوڑی رقم رکھنی ہوتی باقی اضافی اپنے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔

وہ تقدیر کے بنائے سیدھے راستے پر چلتی رہی۔ مگر اگے اس کے لیے مشکلات کا دور تھا۔ رنگین چکا چوند دنیا تھی ، کالج کا دور اور لڑکیوں کے

لیے حسین ترین تھا مگر اس کے لیے ایک کڑا امتحان۔

زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جب اس کی نسبت اس کے ماموں زاد طاہر کے ساتھ طے ہوئی۔ کہنے کو اک اور نئی بات سوچنے کو اک اور فکر ۔ دیکھنے کو اک اور خواب۔ جھیلنے کو ایک اور مصیبت۔ لوگ۔

لڑکیاں۔ سہیلیاں۔ کالج فرینڈزباتیں۔ سرگوشیاں۔ خواب اور چھوٹی چھوٹی خواہشیں ایک طرف۔۔۔۔ اور دوسری طرف ۔ گھر دو بہن بھائی (بچے) ابا۔ کام کاج' ذمہ داریوں کا بوجھ فکر ' احساس پڑھائی اور پل پل رنگ بدلتی زندگی۔ ایک فکر نہیں ہٹتی تو دوسری سراٹھاتی۔ ایک امتحان ختم نہیں ہوا تو دوسرا شروع۔ ایک ضرورت پوری نہیں ہوئی تو سو ضرورتیں اور نکل آئیں ، مگر ان سارے مسائل کے ہوتے ہوئے چند مسکراہٹیں تھیں ان بچوں کی' حوصلہ تھا۔ عزم تھا اور زندگی میں نیا آنے والا ایک شخص جو بالکل اجنبی تھا۔ جسے جاننا باقی تھا۔ گو کہ زندگی گزارنے کا کوئی ایک بہانہ نہیں تھا۔ سو بہانے تھے۔

وہ پہلی بار ملنے کے لیے آیا تھا اور اس کے پاس بولنے کے لیے جیسے کچھ تھا ہی نہیں ، وہی مسلسل بولتا رہا تھا۔

میری ماں تمہیں اتنا پسند نہیں کرتیں ان کی نظر میں تم میرے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ مگر میرے ابا تمہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں تم سے زیادہ لائق فائق شاید ہی کوئی ہو اور میری نظر میں تم کیا ہو؟ کیا یہ نہیں پوچھو گی ؟"

اس نے نفی میں سر ہلا دیا بھول پن سے۔

"تم واقعی اتنی بھولی ہو یا ڈراما کر رہی ہو؟"

" مجھے ڈراما کرنا نہیں آتا ۔" اب کی بار وہ خفگی سے بولی۔

" تو پھر بولو نا جو تمہارے دل میں ہے میرے لیے اچھا برا جو بھی؟"

"میرے دل میں کچھ نہیں ہے۔" اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔

" تم مجھے پسند کرتی ہو یا نا پسند۔۔۔ یہی بتا دو۔" وہ آسان زبان پر اتر آیا۔

" نہ پسند' نہ ہی نا پسند ۔" اس کا وہی انداز تھا۔

" تم میرے بارے میں کچھ تو سوچتی ہو گی نا! وہ عاجز آ گیا۔

" کچھ بھی نہیں سوچتی۔۔۔۔"

"کیا تم سوچتی ہی نہیں ہو سرے سے؟"

" میں سوچتی ہوں اور بہت سی باتیں۔۔۔۔"

"تو پھر وہی بتا دو۔۔۔۔۔" اس کی شکل دیکھنے والی تھی۔

" حرا کے لیے کتابیں خریدنی ہیں ، آفاق کے لیے نئے کپڑے چاہئیں۔ کل ٹوٹل اتنا خرچ ہوا' ابا کی دوائیاں لانی ہیں۔ فائنل امتحانات سر پہ کھڑے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سنتے ہوۓ آپکو زرا بھی مزا نہیں آۓ گا۔"اس بار وہ خود کہتی ہوئی مسکرائی۔

" چلو تمہیں یہ تو پتا ہے کہ یہ سب سنتے ہوئے مجھے ذرا مزا نہیں آۓ گا۔ سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اچھا میں تمہیں کیسا لگتا ہوں ؟ وہ سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ " ٹھیک لگتے ہیں۔"

" بس ٹھیک ۔ " اس کا منہ لٹک گیا " یونیورسٹی میں بہت لڑکیاں مجھے پہ مرتی ہیں۔

دیکھو میں اسمارٹ ہوں' پڑھا لکھا ذہین بندہ ہوں۔ ایک خوش حال گھرانے سے تعلق ہے میرا' کیا تمہیں مجھ میں ایک بھی اچھائی نظر نہیں آتی ؟"

" آپ اپنی تعریف سنتا چاہتے ہیں لڑکیوں کی طرح۔"

" نہیں لڑکیوں کی طرح نہیں۔ ہر انسان اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔"

" اچھا چلو چھوڑو۔ میں تمہیں بتاؤں ہماری شادی کب ہو گی ؟“ وہ رکا ۔ ”میری پڑھائی کے ڈھائی سال باقی ہیں ، پھر میں جاب کروں گا اندازََ تین چار سال تو لگ جائیں گے۔ ابھی میں بائیس کا ہوں پھرچھبیسں کا ہو جاؤں گا تم بھی انیس کی ہو گی کچھ بڑی لگنے لگو گی۔ پھر ہم شادی کریں گے ٹھیک ہے۔ چار سال لمبا عرصہ ہے نا ! وہ کافی افسوس سے یہ سب بتانے لگا۔

" مجھے ایف اے نہیں کرنا۔ مجھے ایم اے کرنا ہے اور کمیشن کا امتحان دینا ہے۔ میں بہت پڑھنا چاہتی ہوں۔"

" چلو پھر تم پی ایچ ڈی کر لینا، بھلے جب تک میں بوڑھا ہی ہو جاؤں۔"

" نہیں میں اس سے بھی زیادہ پڑھوں گی۔" وہ جان بوجھ کر مسکرائی۔

" تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔"

" میں اب چلتی ہوں بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ ابا نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔" وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی اور بغیر کچھ سنے چل دی۔

پہلی ملاقات کچھ اچھا تاثر نہ قائم کر سکی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرا تھا۔ ان کے درمیان کا رشتہ بہت مضبوط اور پائیدار ہوتا جا رہا تھا ۔

کالج کی لڑکیاں اسے سو مشورے دیتی تھیں اور خود اس نے اپنی ہم عمر لڑکیوں کو ایسا ہی پایا تھا۔ اس کے پڑوس کی لڑکیاں آئے دن رنگ گورا کرنے والی کریمیں فارمولے بنواتیں ۔ سج سنور کر باہر جاتیں۔ شوخ چنچل ادائیں ، ذومعنی جملے۔ اسے کبھی کبھار افسوس سا ہوتا وہ ان سب پر۔۔۔ مگر اسے اپنے کام سے کام تھا۔ اس کے پاس سوچنے کے لیے کئی باتیں تھیں۔ کئی مسئلے تھے۔ کالج سے یونیورسٹی کا سفر اور اس کی بڑھتی ہوئی بے شمار ذمہ داریاں۔

" مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" وہ بہت دیر سے فائل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔

" کام کے متعلق تو ہم بات کر چکے ہیں عمیر صاحب!"

" نہیں کام سے ہٹ کر دراصل میری اماں اور باجی آپ کے گھر آنا چاہتی ہیں۔ آپ کے بڑوں ملنے۔" یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں نیچے تھیں۔

" میرے تو کوئی بڑے نہیں ہیں۔ " وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ گئی تھی۔

" آپ کی بہن اور بھائی۔۔۔۔ بھائی کا ایڈریس دے دیں۔ میں مل لوں گا۔"

" میری بہن لاہور میں ہوتی ہے اور بھائی بھی مجھ سے چھوٹا ہے آپ کو کیا بات کرنی ہے ان لوگوں سے' جو بات کرنا ہے مجھ سے کرلیں۔"

"وہ بات یہ ہے کہ ۔" اس کے ہاتھ اب باقاعدہ کانپنے لگے تھے۔

" ٹائم ختم ہو رہا ہے، مجھے گھر کے لیے نکلنا ہے ۔ آپ سوچ لیں پھر بات کر لیجئے گا۔" وہ فوراََ ہی اٹھی تھی سیٹ سے۔

” میڈم ' میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" وہ فٹ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اس کے اٹھتے ہی۔

"بہت بر امذاق ہے۔ " اسے برا لگا تھا۔

"مذاق نہیں ہے' حقیقت ہے۔"

" آپ نارمل نہیں ہیں عمیر صاحب! جاتے وقت ڈاکٹر کی طرف سے ہو جائیے گا۔

" میں ٹھیک ہوں۔ اگر آپ کو سوچنے کے لیے وقت چاہیے تو لے لیں۔"

" آپ ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔۔۔ جائیں آرام کریں۔ شاباش گھر جائیں۔"

" میڈم پلیز' میں سنجیدہ ہوں ۔ " اس کی شکل رونکھی سی ہو گئی۔

" آپ کو شادی ہی کرنی ہے نا !" وہ دروازے کے پاس رک کر بولی۔

وہ اثبات میں سرہلانے لگا۔

" اس شہر میں آپ کو اپنی عمر کی کئی لڑکیاں مل جائیں گی۔ میرے ساتھ آئندہ ایسا مذاق نہ کیجئے گا۔ "

" مگر مجھے آپ۔۔۔۔۔"

" کام۔۔۔۔ دفتر میں صرف کام ہوتا ہے او کے !" وہ اس کی بات کاٹ کر آگے بڑھی۔

" میں آپ کے گھر آ جاؤں گا بات کرنے کے لیے۔ "

" کوشش بھی مت کیجئے گا آنے کی' میں اکیلی رہتی ہوں۔"

" اپنی اماں کو بھیج دوں گا یا باجی کو پلیز۔۔۔۔"

" اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میری طرف سے قطعی انکار ہے۔" وہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔

" دماغ خراب ہے لوگوں کا۔ شادی کر لیں۔ پاگل لڑکا۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل آئی اور گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ جب اسی ہوٹل کے سامنے سے گزری تو عجیب سا احساس ہوا۔

ہوٹل کے باہر گاڑی کھڑی تھی۔ اس کے سامنے سے گزرتی ہوئی گاڑی دیکھ کر وہ گاڑی بھی اس کے پیچھے پیچھے گھر تک آئی تھی۔ گاڑی سے اترتے ہوئے گاڑی دیکھی تھی اسے لگ رہا تھا۔ عمیر اس کے پیچھے پیچھے آ رہا ہو گا۔۔۔۔ مگر نہیں اس میں اتنی ہمت کہاں تھی۔ یہ وہی تھا جو اس کے پیچھے آیا تھا۔ اتنی ہمت اسی کی تھی۔

آفاق نے بورڈ میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی، حرا مناسب نمبروں سے پاس ہو گئی تھی وہ بہت خوش تھی۔ اس نے پہلی مرتبہ طاہر کو فون کیا اور بتایا وہ دونوں کے لیے تحفے لے آیا تھا، طاہر ان کے ساتھ گھل مل گیا تھا۔ وہ گھر آتا تو دونوں اسے گھیر کر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں باتیں کرتے رہتے تھے وہ دور بیٹھی مسکراتی رہتی ، طاہر بھی قہقہے لگا رہا ہوتا تو کبھی بری بری شکلیں بناتا۔ وہ ان تینوں کے چٹکلوں سے محظوظ ہوتی رہتی۔ فارغ اوقات میں وہ دونوں کو اپنے ساتھ گھمانے پھرانے لے جاتا وہ ہر طرح سے مطمئن اور خوش تھی۔ طاہر کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی اور وہ جاب کی تلاش میں تھا۔

وہ ہر ہفتے لمبی کال کر کے اسے جاب مل جانے کی دعا کے لیے کہتا، اسے ہر ہر بات بتاتا۔ بظاہر بے معنی' فضول سی باتیں تھیں جن میں وقت گزرنے کا پتا بھی نہیں چلتا تھا مگر لہجہ اور تعلق سب سے اہم تھا' وہ اسی تعلق میں بندھتی جا رہی تھی۔

طاہر کو جاب مل گئی تھی اور اس نے شور مچایا ہوا تھا۔ اب اس کا آخری بہانہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ مگر ان ہی دنوں ابا کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی اور کچھ دن بعد علالت کے دوران ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ دن وہ بہت ڈسٹرب رہی بہت زیادہ' وہ جیسا بھی تھا اس کا باپ تھا اور ان دنوں وہ اس سے بہت باتیں کرتا تھا۔ اسے لگا وہ اکیلی سی ہو گئی ہے، مگروہی کام جھمیلے ذمہ داریاں تھیں جو اپنے پاس کھینچ لیتی تھیں۔ آفاق اور حرا کے اداس چہرے تھے جس کی وجہ سے اور بھی مضبوط بننا پڑا

تھا۔

کچھ ماہ بعد پھر طاہر کی طرف سے شادی کی رٹ شروع ہو گئی تھی اس نے بڑی مشکل سے منا کر اس سے وقت لے لیا تھا اپنی تعلیم مکمل ہونے تک۔ وہ بہت خفا تھا مگر کچھ دن بعد اس کا رویہ کچھ نارمل ہو گیا تھا۔ اس کی ناراضی بہت لمبی چلتی تھی مگر جب مان جاتا تو اس سے اچھا کوئی اور نہ ہو تا۔ بات یہ نہ تھی وہ بہت عجیب تھا۔ اہم بات یہ تھی وہ خاندان کے سارے لڑکوں سے اچھا تھا ، شکل میں بھی' کردار میں بھی' حیثیت میں بھی' کیرئیر میں بھی۔ وہ ہر طرح سے مطمئن تھی۔ اسے لگتا تھا کہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا ان دونوں کے درمیان کوئی ایسی دیوار حائل نہیں ہوگی وہ سب کچھ ٹھیک کرلے گی ۔ بس کچھ عرصہ ۔ تھوڑا وقت۔

وہ اس کی زندگی کا سب سے خوب صورت دن تھا۔ ایسے یونیورسٹی کی طرف سے لیکچرر شپ کی آفر آئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو تھے اس نے طاہر کو سرپرائز دینے کے لیے بلایا۔ اسے پتا تھا وہ بہت خوش ہو گا ۔ وہ ٹھیک شام چار بجے پہنچ گیا تھا۔ حرا اور آفاق گھر پہ نہیں تھے ۔آفاق' حرا کو فارم دلوانے کے لیے لے گیا تھا۔ وہ اس کے لیے بہت اچھی سی چائے اور گرما گرم سموسے لے کر آئی تھی اور ساتھ ہی یہ خوش خبری سنا ڈالی۔ طاہر کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

" تم خوش ہو نا طاہر؟"

" تو اب تم جاب کرو گی ؟" اس نے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا۔

" ہاں میں تو سمجھ رہی تھی جاب کے لیے مجھے بہت انتظار کرنا پڑے گا' بہت دھکے کھانے پڑیں گے۔ طاہر آج میں کتنی خوش ہوں۔"

" تمہیں شادی نہیں کرنی ؟" وہ سپاٹ لہجے میں پوچھنے لگا۔

" شادی تو ہونی ہے ۔ جاب اور شادی الگ الگ باتیں ہیں۔"

" الگ نہیں ہے کچھ بھی ۔ تم یہ بتاؤ۔۔۔۔ تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہے یا جاب کرنی ہے ؟ اس کا لہجہ ویسا ہی تھا۔

" تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو طاہر ؟ اسے یہ سب سننے کی امید نہیں تھی۔

" میں اسی ماہ شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نے امی سے بات کرلی تھی۔ میں نے ڈیٹ بھی سوچ لی تھی۔ میں تم سے یہی بات کرنے آیا تھا۔ کل مجھے کارڈز چھپوانے پریس جانا تھا۔ اس کے بعد مجھے تم سے کچھ مشورے کرنے تھے۔ پھر تمہیں شاپنگ کے لیے لے جانا تھا۔ تمہیں اپنے ٹرانسفرکا بتانا تھا۔ ٹھیک سولہ دن بعد میں ایک نئی زندگی شروع کرنے جا رہا تھا۔ میرے پاس کاموں کی فہرست تھی۔ مگر میں نے یہ سب ترتیب دے رکھا تھا میں بہت تھکا ہوا تھا۔ مگر میں نے سوچا یہ کچھ وقت کی تھکن ہے۔ مگر مجھے ابھی تم نے بتایا کہ سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم نے سوچا ہوتا ہے۔"

اس کا چہرہ بہت اترا ہوا تھا تھکن زدہ سا۔ اس نے سکتی ۔ اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی تھی۔ وہ چھت کو تکنے لگا تھا۔ اس نے مبینہ سے نظریں ہٹا لی تھیں۔

" طاہر! تم نے جو سوچا ہے وہی ہو گا۔" وہ اٹھ کر اس سے کچھ فاصلے پر زمین پر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ جو اپنے گھٹنوں پر رکھے تھے۔ ان ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔

"کیا تم صرف چند منٹ خاموش ہو کر میری بات سن لو گے؟" اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی تھی۔

" طاہر ! میں بڑی مشکل سے گھر کے اخراجات پورے کر رہی تھی۔ اپنے دونوں بہن بھائی کی تعلیم کے لیے میں نے پہلے جو قرضہ لے رکھا ہے وہ بھی اتارنا ہے۔ میں پریشان تھی کہ یہ سب کیسے ہو گا۔"

وہ سانس لینے کو رکی۔ اس کے ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھوں کو جکڑے ہوئے تھے۔ اسے ڈر تھا وہ بات ختم کرے گی اور وہ یہاں سے اٹھ جاۓ گا' وہ اسے روک لینا چاہتی تھی۔

" تم نے کبھی مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ مجھے کچھ بتاؤ۔" اس کا شکوہ بجا تھا اپنی جگہ ۔

" میں نے کبھی اپنی پریشانیوں سے تمہیں پریشان کرنا نہیں چاہا۔"

" تم نے کبھی مجھے اپنا ہی نہیں سمجھا۔ " اس نے انکھیں بند کرلی تھیں۔ مبینہ کھلی آنکھ سے اسے دیکھ رہی تھی۔

" کل رات میں نے رو رو کر اپنے اللہ سے دعا کی۔ پہلی مرتبہ میں نے اس سے کہا کہ میری ہمت جواب دے رہی ہے۔ پہلی مرتبہ کہا کہ میں تھک گئی ہوں۔ اس سے پہلے سوچتی تھی کہ میں کرلوں گی۔ میں سہہ لوں گی۔ صبح بھی میں بہت پریشان تھی جب پروفیسر صاحب نے مجھے بلایا تھا۔ وہاں جا کر یہ خوش خبری ملی۔ تم نہیں جانتے یہ میرے لیے معجزہ تھا۔ دعا اتنی جلدی قبول ہو سکتی ہے۔ میں نے کبھی اپنی زندگی میں معجزوں کو نہیں ہوتے دیکھا تھا۔ میں نے سب سے پہلے تمہیں فون کیا۔ میں نے حرا اور آفاق کو بھی نہیں بتایا۔"

" تم نے کبھی دعا میں مجھے نہیں مانگا اس لیے کہ میں تمہارے پاس تھا یا پھر اس لیے کہ تمہیں میری اس قدر ضرورت نہ تھی۔ یا پھر اس لیے کہ تمہیں میری قدر ہی نہیں۔ " اس نے آنکھیں کھول کر ایک لمحے کو اس کی طرف دیکھا۔

" مجھے تمہاری قدر ہے طاہر ۔ میں صرف تمہیں اتنا بتانا چاہ رہی تھی کہ مجھے اس جاب کی کسی قدر ضرورت ہے تم اس کے علاوہ جو کہو میں ماننے کے لیے تیار ہوں۔

میں شادی کر رہی ہوں تم سے اسی تاریخ کو بس ایک شرط ہے کہ میں یہ جاب کروں گی۔ اس لیے کہ مجھے اپنا قرضہ اتارنا ہے۔"

" میں تمہارا قرضہ اتار دوں گا۔"

"یہ قرضہ میں ہی اتاروں گی۔ میرے بہن بھائی تمہاری ذمہ داری نہیں ہیں طاہر! "

" تم نے ان کے لیے بہت کچھ کیا ہے ۔ یہ انہیں خود کرنا چاہیے ۔ سوچنا چاہیے کہ تمہیں اپنا گھر بسانا ہے۔ بہرحال میں دعوا نہیں کرتا مگر جہاں تک ہو سکا ان کی مدد کر دوں گا۔ میرے کچھ قریبی دوست بھی اس سلسلہ میں مدد کر سکتے ہیں۔"

" بس کرو طاہر! اس کے ہاتھ کھسک سے گئے۔ "انہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مر نہیں گئی ۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔" وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

" تمہیں انتخاب کرنا ہو گا۔ وہ اور جاب' میں اور میری محبت"

" طاہر! میرے لیے مشکلات مت بڑھاؤ۔ میں نے پالا ہے انہیں' میں ہی ان کا سب کچھ ہوں۔"

" اورمیں کہیں نہیں ہوں' کچھ نہیں ہوں۔ " وہ بپھرگیا تھا۔

" تم جو سوچتے ہو۔ وہ صحیح نہیں ہے۔ ایسا مت کرو طاہر! فضول کی ضد کی خاطر ہمارے رشتے کو کمزور مت کرو۔"

" ضد بھی تم نے کی ہے اور کمزور بھی تم نے بنایا اس رشتے کو' مجھے کل تک تمہارا آخری جواب چاہیے۔۔۔۔۔ ہاں یا نا۔ "

" طاہر! میری بات تو سنو۔۔۔۔"

" کوئی فائدہ نہیں ہے مبینہ ! مجھے بس اپنا آخری جواب دے دینا ۔ ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔ مجھے کوئی وضاحت نہیں چاہیے۔ بہت انتظار کیا ہے میں نے۔ ہر ضد مانی ہے تمہاری ہر بات اگر ہم اس قدر متضاد ہیں تو کوئی ایک فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ اور فیصلے کا حق تمہیں دیتا ہوں کل شام تک ۔" کیسی سنگدلی سے وہ کہہ کر چلا گیا۔ حالانکہ اس کی آنکھیں اس کا ساتھ

نہیں دے رہی تھیں۔