Drama Khatam-ڈرامہ ختم
اردو کہانیاں


اور آنکھیں تو اس کی بھی نم تھیں ۔ وہ کھلے دروازے بند کرتا چلا گیا۔ کل شام تک کا وقت دے کر باقی کا وقت اس پر قیامت کی طرح گزرا تھا۔
اس نے سمجھا تھا طاہر کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ مان لے گا اس کی ہر بات اس کا غصہ وقتی ہے وہ اسے منا لے گی۔
مگریہ صرف اس کی سوچ تھی ٹھیک اسی تاریخ پر طاہر کی شادی ہوئی مگر اس کے ساتھ نہیں کسی اور کے ساتھ ۔
اس کی ماں کی مرضی سے طاہر شادی کے فورا" بعد اس شہر سے کہیں اور چلا گیا جہاں اس کا ٹرانسفر ہوا تھا۔
زندگی نے اسے جود کھ دیے تھے یہ دکھ سب سے بڑا تھا پھر بھی سہہ ہی لیا ۔ اس سب سے یہ ہوا کہ اس کا مردوں کے اوپر سے اعتماد اٹھ گیا تھا اور وہ اب بھی کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی تھی۔ اس کی توجہ کا واحد مرکز وہی تھے جن کی خاطر اب تک وہ جیتی آ رہی تھی۔
آفاق بہت محنت سے پڑھ رہا تھا۔ جبکہ حرا نے ایف اے بمشکل پاس کیا اور گھر بیٹھ گئی۔ ان ہی دنوں حرا کی دوست کے بھائی کا رشتہ آیا تھا اس کے لیے' لڑکے والوں کا اصرار دیکھ کر اس نے ہامی بھرلی اور شادی ہو گئی۔ حرا بہت خوش نظر آ رہی تھی، شکر اطمینان تھا کہ اس کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی ہے۔ اب آفاق کا مسئلہ تھا اس نے بھی یونیورسٹی کی ایک لڑکی پسند کرلی تھی آفاق کے کہنے پر وہ اس کا رشتہ لے کرگئی۔ پہلی ملاقات میں تو علینہ کی ممی نے بہت عجیب باتیں کی تھیں اسے بہت دکھ ہوا مگر آفاق کی خاطر اسے بار بار وہاں جانا پڑا۔ ان کی شرط تھی کہ وہ شادی سے پہلے شہر میں کسی اچھے سے علاقے میں شفٹ ہوں۔ یہ اس کے لیے بہت مشکل تھا مگر افاق کی ضد پر اسے گھر تبدیل کرنا پڑا۔ شادی آفاق کی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ہوئی تھی۔ ۔ علینہ کی ممی کی سفارش پر علینہ کے بھائی نے آفاق کے دفتر میں جاب دے دی۔ ان دونوں نے مل کر چھوٹا سا بزنس بھی شروع کر دیا تھا۔ بزنس اچھا چل رہا تھا حالات پہلے سے بہت بہتر تھے۔ اس نے ایک فلیٹ بھی لے لیا تھا اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔ آفاق شادی کے بعد خوش تھا۔ اس نے علینہ کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی تھی۔ نہ اس پہ کوئی گھر کی ذمہ داری ڈالی نہ ہی کوئی دباؤ ۔ دو سالوں بعد جب اس کے ہاں خوش خبری آئی تو اس نے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا اسے' پھر علی کے بعد اس نے کئی کام اپنے ذمے لے لیے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ مگر اچانک علینہ کو جانے کیا ہوا سب کچھ بگڑتا گیا پتا نہیں کیوں وہ اس کا صرف ہونا بھی برداشت نہیں کر پائی تھی۔
"کیوں آئے ہو یہاں تم؟" اسے نہ چاہتے ہوئے بھی دروازہ کھولنا ہی پڑا تھا کہ وہ مسلسل باہر کھڑا بیل پہ بیل بجا رہا تھا۔ وہ اندر آ گیا۔
" تمہیں اتنے عرصے بعد دیکھا تو رہا نہ گیا۔ بہت ڈھونڈا تھا تمہیں۔ تمہیں پتا ہے میں کئی سالوں سے تم سے ملنے کی دعا کرتا رہا ہوں۔" وہ اس کے پیچھے آتے
ہوئے بول رہا تھا۔
" بیٹھ جاؤ۔" وہ دروازہ بند کر کے اندر آ گئی۔
"شکریہ ۔۔۔۔ مبینہ' جو ہوا بہت غلط ہوا ۔ " اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کیسے وضاحت دے۔
" کیا غلط ہوا ۔ میرا تم پر بھروسا کرنا ۔ تم سے درخواست کرنا یا پھر تمہارا اچانک دھوکا دینا۔" وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
" میں نے ایسا کبھی سوچا تک نہ تھا کہ۔۔۔۔"
" جو کچھ سوچا نہیں وہ کر دکھایا۔۔۔۔ بہت خوب!"
" کاش تم میری بات مان لیتیں یا پھر کاش میں ضد نہ کرتا۔"
" تمہارا کیا بگڑا ہے طاہر یہ تو بتاؤ۔ شادی ہو گئی بچے بھی ہوں گے۔"
" ہاں ۔ ایک بیٹی آٹھ سال کی۔ بیٹا نو دس سال کا ہے۔"
" مکمل فیملی۔ نوکری' پیسہ ' بچے کیا کچھ رہتا ہے۔۔۔۔؟"
" کچھ اب بھی رہتا ہے مبینہ! دوستی' بھروسا 'محبت' پہلی محبت جو کبھی بھلائی نہیں جاتی۔ "
" اچھا ڈراما ہے۔ "
" کیا تم نہیں جانتیں کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا تھا۔"
" بس کر دو طاہر ! تب میں اور اب میں بہت فرق ہے۔ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں ۔ تم دو بچوں کے باپ بن چکے ہو اب ایسی باتیں سوٹ نہیں کرتیں تم پر۔
" اڑا لو مذاق۔۔۔۔ حق ہے تمہیں-" وہ پھیکا مسکرایا۔
" تمہیں مجھ سے کیا بات کرنی تھی ؟" وہ چاہ رہی تھی وہ بات کر کے جلدی سے جائے۔
" معافی مانگنا چاہتا تھا تم سے۔۔۔۔ تمہیں دکھ دیا میں نے۔"
" کر دیا معاف اب تم جا سکتے ہو۔" لہجہ رکھائی لیے ہوئے تھا۔
" اتنی آسانی سے؟ میں تو سمجھ رہا تھا تم مجھ سے لڑو گی۔ مجھے برا بھلا کہو گی کچھ تو کہو تاکہ میرا دل بھی ہلکا ہو۔"
"اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے اب۔۔۔۔ میرے کچھ بھی کہنے سے وہ مشکل وقت واپس نہیں آئے گا نہ آسان ہو گا۔"
"مجھے احساس ہے مبینہ ! اسی لیے یہ بے چینی مجھے مکمل خوش ہونے نہیں دیتی نہ سکون سے رہ پاتا ہوں ۔
" میں بہت خوش ہوں اب تم سکون سے رہنا۔۔۔
اب تم جاؤ۔"
" بار بار جانے کو کہہ رہی ہو ۔ کیا چائے بھی نہیں پلاؤ گی مجھے؟"
" آخری بار میں نے چائے پلانی چاہی تھی وہ کپ جو ویسا کا ویسا پڑا رہ گیا تھا۔"
"مجھے اس کپ کی اب ضرورت ہے۔"
" تمہاری بیوی کو چائے بنانا نہیں آتی۔۔۔۔۔؟" وہ اٹھی تھی۔
" وہ باتیں بنا لیتی ہے' اتنا کافی ہے۔" وہ ہنسا تھا اس کی بات پہ۔
" شوہر کبھی بیویوں سے خوش نہیں ہوتے۔"
” بیویاں بھی کبھی شوہروں سے خوش نہیں ہوتیں۔"
" میں بالکل بھی نہیں چاہوں گی کہ تم اپنی بیوی کی برائیاں کرو اور میں سنوں۔" وہ کچن میں آ گئی تھی۔
" اور لوگ کہاں ہیں ؟" وہ باہر آتے ہوئے اردگرد دیکھنے لگا اور اس کے پیچھے کچن میں آیا۔
" کون لوگ ؟" وہ چائے کے لیے پانی رکھنے لگی۔
" آفاق' حرا ' شادی ہوئی ان میں سے کسی کی؟"
" حرا کی ایف اے کے فورا بعد شادی ہو گئی تھی۔ دو بچے ہیں اس کے آفاق کا ایک بیٹا ہے دو سال کا ہو گا اس ماہ۔ "
" تمہارے ساتھ نہیں رہتے۔ کہاں ہیں؟" اپنے اپنے گھر میں ہوتے ہیں۔ حرا لاہور میں ہے اور آفاق اسی شہر میں۔"
" تم آفاق کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں؟"
" میں ان کی فیملی میں مخل ہونا نہیں چاہتی۔"
" یہ تو کوئی بات نہیں ہے ۔ کیا اس کی بیوی کو اعتراض ہے؟"
" تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟"
" اس لیے کہ میری بیوی کو بھی میری ماں کے ساتھ رہنے پر اعتراض ہے۔"
" میں ماں نہیں ہوں ان لوگوں کی۔"
”ہاں تب ہی تم نے اتنی قربانیاں دیں ان کے لیے۔ "
میں نے اپنا فرض نبھایا تھا۔"
" اور جب ان کے فرض نبھانے کا ٹائم آیا تو۔۔۔۔ "
" اپنی باری پر کون پیش ہوتا ہے۔ تم بھی تو چلے گے تھے۔" اس نے چائے کپ میں ڈال کر اسے پیش کی۔
تمہارے فریج میں کوئی کھانے کی چیزنہیں' میں صبح سے بھوکا ہوں۔" اس نے خود ہی فریج کھول لیا تھا اور دیکھنے لگا۔ پھرایک سیب صاف کر کے کھانے لگا۔ وہ اس کی بے تکلفی پر حیران تھی۔
" ایک بات پوچھوں مبینہ شادی کیوں نہیں کی ؟"
" تمہارے بعد کسی سے محبت ہی نہیں ہوئی۔ کوئی اچھا ہی نہیں لگا۔ یہی سنتا چاہتے ہونا ۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ تمہارے دھوکے کے بعد کسی مرد پر اعتبار نہیں آیا۔ کئی رشتے آئے۔ کئی لوگ۔ آج صبح بھی میرے ایک کولیگ نے مجھے پروپوز کیا ہے۔ " اس کے ہونٹوں پر عجیب تھکی تھکی سی مسکراہٹ تھی۔
" تو کر لونا شادی ؟" وہ کھاتے کھاتے رکا۔ اس بار وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
" کب کر رہی ہو پھر شادی ۔"
" سوچنے کے لیے وقت مانگا ہے۔" اس نے صاف جھوٹ بول دیا۔
" اچھی بات ہے زیادہ دیر مت لگانا۔" وہ مسکرا کرچائے کے گھونٹ لینے لگا۔
" بلانا ضرور۔۔۔۔ اس نے چند منٹ میں کپ خالی کر دیا۔
" ضرور بلاؤں گی۔ " وہ اس کے ساتھ کچن سے باہر آئی تھی۔
"اپنے بچوں کو میرا پیار دینا۔ اللہ حافظ "
"میں پھر آ سکتا ہوں ؟ عجیب بات تھی' وہ پوچھ رہا تھا جبکہ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اب یہاں نہیں آ سکتا تھا۔
”مبینہ اپنا خیال رکھنا۔ ایک بات کہوں۔ آفاق نے اچھا نہیں کیا۔"
" پتا نہیں کس نے اچھا نہیں کیا اور سنو یہاں مت آنا ۔ میں نہیں چاہتی کوئی یہاں فضول باتیں کرے میرے لیے۔
" سمجھ گیا۔ بات تو ہو سکتی ہے نا۔ میرا کارڈ رکھ لو۔" اس نے کارڈ جیب سے نکال کر تھمایا جو مبینہ نے لاپروائی سے میز پر پھینک دیا اس کے سامنے ہی ۔ "تمہارا نمبر۔" اس کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔ اس نے پرس سے کارڈ نکال کر پکڑا دیا۔ حالانکہ اسے پتا تھا اس نے اس نے کبھی فون نہیں کرنا۔
اس کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور لمبی سانس لی۔ تنہائی عذاب ہوتی ہے۔ کسی کی کہی ہوئی بات یاد آئی تو مسکراہٹ سمٹ گئی۔ اس نے رسٹ واچ اتار کر ڈریسنگ پر رکھی ، کوٹ اتار کر پھینکا ہے ڈوپٹہ بیڈ پر ڈالا اور بال باندھنے لگی ، چہرے پر سالوں کی تھکن چھائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے سے نظریں ہٹا لیں اور کھلی دراز میں کچھ ٹٹولنے لگی۔
کھویا کیا تھا۔ شاید کچھ بھی نہیں یا پھر شاید بہت کچھ ۔
" آپا ! رکیں آپا ! مجھے ذرا آپ سے بات کرنی ہے۔" وہ لاؤنج کے دروازے کے پاس کھڑی تھی جب وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے آ رہا تھا۔
"بولو ۔۔۔۔ کالج سے دیر ہو رہی ہے مجھے۔" اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو آدھا گھنٹہ پہلے ہی لیٹ تھی ۔
" آپ بیٹھ جائیں ذرا دو منٹ ' میں آپ کو چھوڑ دوں گا۔" وہ تیزی سے اترنے کی وجہ سے ہانپ رہا تھا بات کرتے ہوئے۔
" خیریت ہے نا۔۔۔۔ چلو تو پھر گاڑی میں بات کر لیتے ہیں۔" اس کی عجلت اور فکرمندی سے اسے لگ رہا تھا کوئی کاروباری مسئلہ ہو گا۔
" ڈرائیور کے سامنے میں پرسنل میٹر تو ڈسکس نہیں کر سکتا نا ۔۔۔۔۔ آپ بیٹھ جائیں بس پانچ منٹ پھر شام میں مجھے علینہ کو باہر لے کر جانا ہو گا وہ خفا ہے مجھ سے۔ " وہ کہتے ہوئے صوفے کی
طرف بڑھا۔
" کیوں وہ کیوں خفا ہے ؟" وہ کچھ نا سمجھتے ہوئے بیٹھ گئی۔
" میں بہت دنوں سے اسے لے جانے کا کہہ رہا ہوں اس کی ممی کے پاس مگر وقت نہیں ملتا ' اسے ٹائم نہیں دے پاتا میں۔ اس کا لہجہ عجیب تھا۔
"بات کیا کرنی ہے بتاؤ۔"
" آپا۔۔۔۔ ۔ وہ بات یہ ہے کہ دیکھیں میری پوری بات سنیے گا۔"
" تمہیں اگر کہنے میں اتنی دیر لگے گی تو ہم رات کو بات کر سکتے ہیں۔"
" نہیں۔ اچھا سنیں' آپ کی علینہ سے کوئی بات ہوئی ہے؟"
" علینہ سے۔۔۔۔ کس قسم کی بات؟"
" دیکھئے آپا! وہ شاید جا رہی تھی اپنی ممی سے ملنے اور آپ نے اسے منع کر دیا۔ آپ نے کیوں ایسا کیا ؟"
" میں کیوں اسے منع کروں گی اور میرے منع کرنے پر اسے کون سا رک جانا ہے۔ میں تو کہہ رہی تھی کہ تمہیں بتا کر جائے یا پوچھ کر' تم گھر پہ جو نہیں تھے' پھر علی کی طبیعت خراب تھی میں نے کہا رات کو باہر نکلو گی تو بچے کو ٹھنڈ لگ جائے گی احتیاط کرے۔ اس نے تم سے کہا کہ میں نے منع کیا ہے؟" اسے تعجب ہو رہا تھا۔
" اس نے تو اور بھی بہت کچھ کہا ہے مجھے۔" "مثلا؟ " وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
"مثلا یہ کہ آپ اسے ہر چھوٹی بڑی بات پہ ٹوکتی ہیں' روکتی ہیں' ہر چیز میں دخل اندازی کرتی ہیں ، وہ ڈسٹرب ہوتی ہے آپا۔۔۔۔ وہ ایسے ماحول سے نہیں آئی جہاں گھر کے فرد ایک دوسرے کے مسائل اور پرائیویسی میں دخل دیتے ہوں۔ مڈل کلاس لڑکیوں کی طرح ہر کام پوچھ کر کرنے کی عادت نہیں ہے اسے۔ "
" اگر نہیں ہے تو اس نے ایک مڈل کلاس لڑکے سے شادی کیوں کی؟"
" آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔"
" کیوں نہیں کہنا چاہیے ۔۔۔۔۔ ہم مڈل کلاس سے ہی تو تعلق رکھتے ہیں میرے بھائی ! یہ بات الگ ہے کہ اب ہماری کلاس بدل رہی ہے۔ بہر حال میں کسی کلاس ولاس کو نہیں مانتی میں صرف رولز اور اقدار کو مانتی ہوں۔ تم نے کلاس کی بات کی تو میں نے تمہیں تمہاری زبان میں جواب دے دیا۔ بہرحال اب میں چلتی ہوں تم نے ایک بیکار بحث کے لیے میرا وقت خراب کر دیا۔ آج میری میٹنگ تھی ضروری۔۔۔۔"
"میری ایک بات سن لیں آپا ! آپ پلیز اس کے کسی معاملے میں مت بولا کریں' نہ ٹوکا کریں وہ جہاں چاہے آئے جائے یا کسی کو بلائے یا کچھ پکائے کھائے۔۔۔۔ کچھ بھی ہو یہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اس کے شوہر کا گھر ہے اسے پوراحق ہے اپنی مرضی سے جینے کا۔"
" میں نے کب کہا کہ یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔ یہ اس کے شوہر کا گھر ہے اور اس کا گھر ہے۔ " اسے اس کا یہ ایک جملہ بہت برا لگا تھا۔
" مجھے پتا ہے آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتی ہیں۔۔۔۔۔ مگر پلیز میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ اسے اپنی مرضی ہے یہاں رہنے دیں میرا گھر ان باتوں کی وجہ سے ٹوٹے یہ میں نہیں چاہتا۔"
" کس قدر فضول اور جاہلانہ بات کی ہے تم نے بالکل اپنی بیوی طرح۔۔۔۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ تم ایسی ہلکی بات کرو گے۔" وہ بے دلی سے اٹھی اس کے تیور دیکھتے ہوئے۔
" آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے بات کرنے پر۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں آئندہ آپ اسے شکایت کا موقع نہ دیں کہ مجھے آپ سے ایسی کوئی بات نہ کرنی پڑے جس پر آپ کو افسوس ہو اور بعد میں مجھے بھی ہو ۔ " وہ کافی سخت لہجے میں کہتا ہوا اس کے ساتھ ہی باہر آیا تھا۔
" چلیں بیٹھ جائیں، میں چھوڑ دوں۔" اس کا لہجہ اب بھی ویسا تھا۔
" بہت شکریہ چلی جاؤں گی میں ٹیکسی سے۔"
" روز ٹیکسی سے جاتی ہیں کیا ؟" وہ طنز پہ طنز کر رہا تھا۔
" اب جایا کروں گی۔" وہ گاڑی کے پاس سے گزر کر آگے بڑھی۔
" میں کہہ رہا ہوں بیٹھ جائیں ۔" وہ زور سے حکمیہ لہجے میں بولا تھا۔
" اس لہجے میں اپنی بیوی سے بات کر کے دیکھ لینا۔ جواب مل جائے گا۔ " وہ کہتی ہوئی تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے ہٹ گئی۔
" شوق سے دھکے کھائیے۔" وہ با آواز بلند کہتا ہوا بیٹھ گیا ڈرائیور حیرت سے اس کے لہجے اور پھر بات سن رہا تھا۔
" جانا نہیں ہے کیا۔" وہ ڈرائیور کو گھورنے لگا۔
" جی بیٹا! چلنا ہے۔" انور بابا نے بے بسی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔ آج پہلی مرتبہ اس نے آفاق کا یہ روپ دیکھا تھا۔ اس لیے حیرت زدہ تھا۔
آج وہ دیر تک فٹ پاتھ پر کھڑی رہی۔۔۔۔ جیسے کبھی کچھ سال پہلے وہ کھڑی ہوتی تھی ۔ تب تو اس نے سوچا تھا کہ اب اسے فٹ پاتھ پر کھڑا ہونا نہیں پڑے گا کچھ سالوں بعد ۔۔۔۔
اسے یاد تھا ایک دفعہ اس نے اپنی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے چودہ سالہ آفاق سے کہا تھا۔ تم پڑھ لو ' تم بڑے ہو جاؤ پھر ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ پھر مجھے دیر تک فٹ پاتھ یا اسٹاپ پر کھڑے ہو کرانتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ " اس کی آنکھیں گیلی ہو رہی تھیں۔ دھندلی آنکھوں سے پاس سے گزرتی ہوئی آفاق کی گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے گزر گئی تھی۔ اس نے دھندلی آنکھوں کو صاف کیا اور سامنے سے آتی ٹیکسی کو روکا تھا۔
وہ شام میں آئی تو کافی دیر ہو چکی تھی اور وہ دونوں کہیں جا رہے تھے۔
" السلام علیکم ! اس نے خود ہی سلام میں پہل کی تھی۔
" وعلیکم السلام۔۔۔" وہ نظریں چرا رہا تھا۔
" کہیں جا رہے ہو تم لوگ؟"
" آپ کو کوئی اعتراض ہے؟" علینہ ترش لہجے میں بولی۔
" مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔ علی کا خیال رکھنا' باہر سردی بہت ہے۔"
وہ نا چاہتے ہوئے کہنے سے رک نہ سکی کہ چھوٹے بچے کی فکر ہو رہی تھی۔
" میں ماں ہوں اس کی مجس سے زیادہ اس کا خیال کون رکھ سکتا ہے۔"
" مجھے اندازہ ہے۔ " اسے ہنسی آ گئی اس کی بات پر۔
" آپ چاہیں تو علی کو آپ کے پاس چھوڑ جاتے ہیں' اگر آپ ڈسٹرب نہ ہوں تو۔" آفاق علی کو گود میں لیے اس کی طرف بڑھا۔
" پہلے بھی اسے میرے پاس چھوڑ کر جاتے رہے ہو' ہمیشہ یہ پوچھتے ہو کیا ؟"
" ہم رات دیر سے لوٹیں گے۔ اسے سلا لیجئے گا۔" وہ اسے پکڑا کر کہنے لگا پھر اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ علینہ کے چہرے پر ناگواری تھی۔
علی کو کندھے سے لگا کے وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔
" مجھ سے پوچھنا تو گوارا کر لیا کرو۔ " علینہ کا لہجہ تیز تھا۔
" اس سے ہمیں آسانی ہوتی ہے ، ہم مرضی سے گھر آتے ہیں۔ باہر پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ چھوٹا بچہ ہے یار!" ان دونوں کی آواز با آسانی سن سکتی تھی وہ' اس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آ کر رک گئی۔ امی کے پاس چھوڑ دیتے۔ وہ ہر دفعہ باہر جاتے ہوئے بحث کرتے تھے ۔
" ہاں تاکہ وہ ساری رات روتا رہے اور ان کے فون پہ فون آتے رہتے۔ بھئی اپنے بچے کو لے جاؤ بہت پریشان کرتا ہے۔"
" یہ کب کہا انہوں نے ۔ " اسے اچھا نہیں لگا تھا۔
" ہمیشہ کہتی ہیں۔ جیسے تمہیں تو پتا نہیں ہے۔ " وہ دروازہ کھول کر باہر آیا۔
" کیا ضرورت تھی ان کے سامنے کہنے کی۔ وہ باہر آ کر بگڑی۔
" کیا کہا ہے ۔" وہ کندھے اچکا کر آگے بڑھا گاڑی کی طرف۔
" تم ہمیشہ اپنی بہن کے سامنے میری انسلٹ کرنا ضروری کیوں سمجھتے ہو۔" وہ بیٹھتے ہوئے اسے گھورنے لگی۔
" یقین نہیں آ رہا ہے تم کہہ رہی ہو جس کی خاطر ہمیشہ ان کی انسلٹ کر دیتا ہوں۔" وہ گاڑی گیٹ سے نکالنے لگا۔
" پتا ہے مجھے۔۔۔ صبح ان سے کی بات ؟"
" تمہارے کہنے پر لڑ کر آیا تھا۔ اب تو خوش ہو جاؤ۔" اس کا لہجہ طنزیہ ہو گیا۔
" یقین تو نہیں آتا۔" اس نے کندھے اچکائے۔
" آج پہلی مرتبہ وہ پیدل گئیں اسٹاپ تک ، پتا نہیں کب گاڑی ملی ہوگی۔ آج بہت تیز ہو گیا تھا میں بات کرتے ہوئے' سوری کہنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی۔"
" ان کے رویے سے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا۔" اسے یقین نہیں تھا۔ " یہی تو ایک ماں کی اعلیٰ ظرفی ہوتی ہے۔ " وہ پس پشت اس پر فخر کرتا تھا۔
"ماں اور بہن میں بہت فرق ہے۔ اس نے فورا" ٹو کا تھا۔
" مجھے نہیں پتہ ماں کیا ہوتی ہے ، میں نے ماں کے روپ میں بھی اسی صورت کو دیکھا اور بہن کے روپ میں بھی۔"
" ہم کوئی اور بات نہیں کر سکتے اس کے علاوہ۔ " وہ اس کی بات پر بے بسی سے مسکرا کر رہ گیا۔
" اب کیا ہے؟" وہ کافی دیر سے منہ پھلائے بیٹھی تھی چُپ۔
" تم کروبات میں سن رہی ہوں۔"
"میں کروں گا تو تمہیں برا لگے گا اس لیے تم کرو۔"
" طنز کرنا ضروری ہے؟"
" یہ طنزنہیں ہے۔ ایک بات بتا دو علینہ ! تم کب مجھ سے خوش ہو گی۔ کب کہوگی کہ میں تمہارے لیے بہت کچھ کرتا ہوں۔ کب مانو گی ؟"
" جب تم واقعی میرے لیے کچھ کرو گے اور پھر تمہیں میرا احساس ہو گا۔"
" سچ کہتے ہیں ۔۔۔۔ سب سے جلدی خوش ہونے والی ہستی ماں کی ہے اور ہمیشہ نا خوش ہونے والی بیوی کی۔"
" تمہاری یہی باتیں مجھے نا پسند ہیں۔" اس کا موڈ بری طرح سے خراب ہو گیا تھا۔
" سچ جو ہیں' بری تو لگیں گی۔ سیانے کہتے ہیں سچ کا ٹیسٹ بہت کڑوا ہوتا ہے۔" وہ اتنی دیر میں پہلی مرتبہ ہنسا تھا اور اس کا موڈ اور خراب ہوا تھا۔
" اب موڈ ٹھیک کر لو ہم پہنچ گئے ہیں۔ " وہ کہتے ہوئے گاڑی پارک کرنے کی جگہ دیکھنے لگا۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی علینہ کے تیزی سے بدلتے رویے کی اصل وجہ کیا ہے۔ وہ لاکھ تجربہ کار سہی مگر اس کے اندر کی چال کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔
وہ آخر یہ سب کر کے چاہتی کیا ہے مختلف بہانے ڈھونڈ کر وہ بات کو بڑھا دیتی تھی' اس کا تو معمول تھا کالج کے بعد وہ گھر آ کر علی کو اپنے پاس لے آتی۔ اس کے ساتھ کھیلتی اسے کھلاتی پلاتی ، اکثروہ اس کے پاس سوجایا کرتا تھا اور ان دونوں کو کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی علی جب سے پیدا ہوا تھا آدھے سے زیادہ علی کی ذمہ داری تھی اس کی تھی وہ دونوں اپنی زندگی میں خوش تھے وہ ان دونوں کے لیے کسی قسم کی ڈسٹربنس کا سبب نہ تھی بلکہ اس کے ہوتے ہوئے وہ ہر ذمہ داری سے بچے ہوئے تھے' گھر کیسے چلتا تھا۔ گھر کی صفائی ستھرائی ' ملازموں سے کام لینا۔ سیلری دینا' کھانا پکانا۔ راشن کی خریداری سب کچھ اس کے ذمے تھا۔ آفاق دفتر کے بعد گھر آ کر سو جاتا اور شام میں یہ دونوں کہیں باہر چلے جاتے اور رات دیر تک واپسی ہوتی وہ اس گھر میں کئی سالوں سے اکیلی رہ رہی تھی جیسے۔
اس نے کبھی کسی قسم کا کوئی شکوہ نہیں کیا تھا آفاق کے ساتھ ۔
پھر اس کا صبح والا سلوک جس پہ وہ ساری رات جاگ کر سوچتی رہی تھی۔ شام کو آفاق کا رویہ دیکھ کر اس کے دل سے کچھ بوجھ ہٹا ضرور تھا مگر علینہ کا دن بدن بدلاؤ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
کچھ دیر پہلے ھی وہ علی کو اس سے لے گئی 'اس نے نوٹ کیا وہ اب علی کو اس کے پاس رہنے نہیں دیتی تھی حالا نکہ وہ اسے ٹھیک طرح سے کھلاتی پلاتی بھی نہیں تھی۔ وہ کمزور ہو رہا تھا اور اسے فکر ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا علینہ سے کوئی مناسب موقع دیکھ کر بات کر لے۔
شام میں جب علینہ کچن میں کھڑی تھی تو وہ اس کے پاس آئی۔
" کھانا تو میں بنا دیا ہے۔ تم کیا کر رہی ہو علینہ؟" اس نے نوٹ کیا تھا وہ جب فارغ ہو کر کچن سے جاتی تھی تو تب وہ کچن میں آتی تھی۔ اس کی موجودگی میں نہ لاؤنج میں بیٹھتی تھی نہ کچن میں نہ باہر ۔ جہاں وہ ہوتی علینہ وہاں سے کھسک لیتی ۔ اسے اس کی یہ بچگانہ حرکتیں سخت زہر لگ رہی تھیں ۔ اب بھی اس کی بات کا جواب دیے بغیروہ کام کر رہی تھی۔
" میں پوچھ رہی ہوں تم کیوں کھانا بنا رہی ہو۔ میں نے بریانی بنانی ہے آج تم لوگوں کے لیے۔"
"بہت شکریہ آپ کا۔۔۔ آئندہ یہ تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں اپنے لیے خود بناؤں گی اب۔ "
" اچھا۔۔۔۔۔ علی کہاں ہے ، اس نے کچھ کھایا ہے یا نہیں۔"
" اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو ۔ میں اس کی ماں ہوں۔
اس کے کھانے پینے کا خیال رکھ سکتی ہوں۔"
" تم کہنا کیا چاہتی ہو علینہ؟"
" جو آپ سمجھنا نہیں چاہتیں۔"
"دیکھو اگر تمہیں مجھ سے کوئی شکایت ہے تو۔۔۔۔"
" کوئی شکایت نہیں ہے ۔" اس نے تیزی سے بات کاٹتے ہوۓاس کا ہاتھ جھٹکا۔ "تو پھر تم یہ سب کیوں کر رہی ہو ؟
" اس لیے کہ اب آپ ہماری جان چھوڑیں اور ہمیں سکون سے جینے دیں۔"
" کیا چھوڑدوں میں ؟" وہ افسوس سے اسے دیکھنے لگی۔
" میرے میاں کو چھوڑ دیں ۔ مت بھرا کریں اس کے کان ۔ زندگی زہر کر دی ہے آپ نے میری' سہہ سہہ کر تھک گئی ہوں میں اس کا تلخ رویہ' اس کی باتیں'اس کی ڈانٹ۔
" وہ تمہیں ڈانٹتا ہے۔۔۔۔ میں بات کروں گی اس سے۔"
" کوئی ضرورت نہیں ہے' کہہ رہی ہوں نا ہمیں جینے دیں' کل کو اگر میرا گھر ٹوٹا تو اس کی وجہ آپ ہوں گی۔"
" کیا کہہ رہی ہو تم علینہ! میں کیوں ایسا چاہوں گی' میں نے تو ہمیشہ تمہیں سپورٹ کیا ہے اس کے سامنے۔ وہ اگر تمہارے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے تو میں بات کروں گی۔"
"ہاں تاکہ وہ مزید مجھے ذلیل کرے۔ یہی چاہتی ہیں نا آپ۔"
" میں ایسا کیوں چاہوں گی۔ تم کیوں ایسا سوچ رہی ہو۔"
"اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں یہ گھر چھوڑ کر نہ جاؤں تو خدا کے لیے آفاق سے کچھ مت کہیں اور نہ مجھ سے بات کریں۔ میں مزید کسی بحث میں پڑنا نہیں چاہتی۔ اب آپ یہاں سے جائیں گی یا میں یہاں ہے جاؤں۔"
وہ خاموشی سے وہاں سے نکل آئی۔۔۔۔ اس سے کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
رات میں آفاق اسے ملا تھا لاؤنج میں ٹہلتے ہوئے۔
" تم جاگ رہے ہو آفاق! سے نیند نہیں آ رہی تھی' روز علی کو ساتھ سلا کر سوتی تھی۔
"جی آپ بھی جاگ رہی ہیں۔"
”ہاں۔۔۔۔ وہ علی سو گیا کیا۔"
" پتا نہیں' رو رہا تھا' بہت چڑچڑا ہو رہا ہے بہت دنوں سے۔"
" ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھائے گا تو چڑ چڑا تو ہو گا نا۔"
" آپ کہنا چاہ رہی ہیں وہ اسے کچھ نہیں کھلاتی۔ میرے سامنے سیریلیک کھلانے کی کوشش کی وہ کھاتا ہی نہیں۔"
" ضروری نہیں وہ سیریلیک نہ کھائے تو اسے کچھ نہ کھلایا جائے ۔ فروٹ کھلاؤ اسے' کیلا تو شوق ہے کھاتا ہے وہ۔ اب دو سال کا ہونے کو آیا ہے۔ میں فش بوائل کر کے کھلاتی تھی تو کھا لیتا تھا۔ چاولوں کی کھیر بھی شوق سے کھاتا ہے۔ بچے کو مختلف خوراک دی جاتی ہیں اگر وہ ایک چیز سے چڑ جائے تو۔"
" اب یہ سب میں تو نہیں کر سکتا ۔ " وہ بیزار سا تھا۔
" میں کرتی ہوں ۔ مگر وہ بہت دنوں سے علی کو میرے پاس نہیں چھوڑ رہی حالانکہ وہ دور سے دیکھ کر روتا ہے۔ اشارے کرتا ہے' بلاتا ہے مجھے۔" "آپ کے پاس نہ چھوڑنے کی اس کے پاس کوئی وجہ ہو گی نا۔ وہ کہتی ہے آپ اسے بڑوں کے کھانے کھلاتی ہیں۔ وہ اسی لیے نمکین چیزیں پسند کرتا ہے۔ کوئی چیز ڈھنگ سے نہیں کھاتا۔ "
" یہ بچے کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ نمکین چیزیں زیادہ پسند کرتا ہے۔ تم بھی ایسے تھے دو بچوں کو پال چکی ہوں میں۔"
"آپ اس سے بھی یہی کہتی ہیں۔"
" کیا کہتی ہوں میں اسے۔" وہ حیران رہ گئی۔
" مجھے نہیں پتا آپ کو پتا ہوگا۔ بہرحال میں بیزار ہو گیا ہوں اس صورت حال سے ایک طرف آپ ہیں دوسری طرف وه - میں جاؤں تو کہاں جاؤں۔"
" میں نے تو تمہیں کچھ نہیں کہا آفاق۔"
" یہ سب جو آپ کہہ رہی تھیں۔۔۔۔۔ وہ یہ کرتی ہے ' وہ یہ نہیں کرتی ۔
" میں نے تو صرف علی کی بات کی تھی۔"
"تو میں بھی علی کی ہی بات کر رہا ہوں ۔ دیکھئے وہ اس کی ماں ہے جو کرتی ہے کرنے دیں ۔ آپ ایک ماں سے اس کی اولاد نہیں دور کر سکتیں۔ آپ جو سوچ رہی ہیں وہ سب غلط ہے۔ ماں کیا ہوتی ہے۔ آپ کو کیا نہیں پتا۔"
" مجھے پتا ہے ماں کیا ہوتی ہے۔ تمہیں نہیں پتا کہ ماں کیا ہوتی ہے نہ ہی اسے پتا ہے۔"
"ٹھیک ہے۔ مجھے نہیں پتا نہ ہی اسے پتا ہے۔ آپ کو پتا ہے تو آپ ہی سمجھ داری سے کام لیں۔ چھوڑ دیں اسے پلیز ورنہ وہ چلی جائے گی یہاں سے۔ گھر ٹوٹ جائے گا میرا مت کریں ایسا ۔"
" آفاق ! میں کیوں چاہوں گی تمہارا گھر ٹوٹے۔ تم دونوں ایسا کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ۔ ایک طرف وہ الٹی سیدھی باتیں کرتی ہے ایک طرف تم ہو۔ کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو۔"
" ہم دونوں برے۔ آپ اچھی ہیں بس۔ وہ لاؤ نج سے جانے لگا۔
"آفاق ! میری بات تو سنو۔"
" آپا پلیز۔۔۔۔ بہت پریشان ہوں میں پہلے ہی۔ میں صرف اتنا سمجھتا ہوں آپ اگر میری ماں ہو تیں تو ایسا نہ کرتیں میرے ساتھ ۔" وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔
" میں اگر تمہاری ماں ہوتی۔" وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔
اس کا ایک ہی جملہ گونج رہا تھا سماعتوں میں اور اس کا دماغ یہ ایک جملہ سننے کے بعد کچھ بھی سوچنے کے قابل نہیں رہا تھا جیسے۔۔۔
"آپ اگر میری ماں ہوتیں۔"
دل ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔
" وہ کیوں گھر چھوڑ گئی ہے آفاق ۔۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے؟" وہ کل سے بہت پریشان تھی جب پتا چلا کہ وہ سوٹ کیس بھر کر لے گئی ہے ، آفاق کل سارا دن غائب تھا شاید اس کے پاس تھا۔ ابھی وہ گھر آیا تھا اور اسے بات کرنے موقع ملا۔
" وہ گھر نہیں آئے گی اب' میں علی کو دیکھنے گیا تھا۔ " وہ بہت تھکا ہوا نظر آ رہا تھا۔
" کیا کہتی ہے وہ اسے پرابلم کیا ہے آخر؟" وہ کہتی ہے وہ آپ کے ہوتے ہوئے یہاں نہیں آئے گی ۔ "
"میں نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟"
" مجھے نہیں پتا آپا ؟" وہ تھکے ہوئے انداز میں بیٹھ گیا۔
" اسے سمجھاؤ آفاق ایسے نہیں ہوتا ہے۔"
" وہ بہت ضدی ہے ، نہیں آئے گی۔"
" تو اس کی ممی سے بات کرو وہ سمجھائیں' اسے مجھ سے کیا پر ابلم ہے بھلا۔"
" میں کہتا تھا نا آپ کو مت ٹوکیں اسے مت ایسا کریں۔ اس دن سے ڈرتا تھا۔"
" خوب تو گویا وہ تمہیں بلیک میل کر رہی ہے۔"
" وہ جیسی بھی ہے بیوی ہے میری چھوڑ نہیں سکتا میں اسے اس کے بچے کا باپ ہوں میں۔"
" میں نے تم سے نہیں کہا تم اسے چھوڑو۔"
"تو پھرمیں کیا کروں یہ تو بتائیں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔"
" وہ چاہتی کیا ہے ؟" اسے خوب اندازہ ہو رہا تھا۔
" آپ یہاں سے چلی جائیں یا ہم کہیں اور شفٹ ہو جاتے ہیں۔"
" تم بھی یہی چاہتے ہو ؟" دل کٹنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے اسے اچھی طرح پتا چل رہا تھا۔