Drama Khatam-ڈرامہ ختم

اردو کہانیاں

Sidra Tul Muntaha

2/4/20251 منٹ پڑھیں

" میں صرف سکون چاہتا ہوں۔"

" مجھے بتاؤ کہاں جاؤں ؟" اس کی آنکھیں بھرآئیں۔

" فلیٹ جو کرائے پر دے رکھا ہے۔ وہ خالی ہو سکتا ہے۔"

" تو گویا تم پہلے سے ہی سب کچھ طے کر چکے ہو۔ "

" میں یہ سب نہیں چاہتا آپا مگر میں کیا کروں میں مجبور ہوں۔"

" بہت اچھی بات ہے۔ " اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔

" جتنی جلدی ہو فلیٹ خالی کرا دو۔ میں پیکنگ شروع کرتی ہوں۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

" اتنی جلدی خالی نہیں ہو گا۔ کچھ روز لگیں گے' جب تک آپ رہ لیں۔"

" وہ آ جائے گی کل یہاں؟"

" نہیں' اس نے کہا ہے آپ جائیں گی تو ہی وہ گھر میں قدم رکھے گی۔"

" کل میں حرا کے پاس چلی جاؤں گی لاہور۔۔۔۔ تم اسے لے آنا۔"

"جیسے آپ ٹھیک سمجھیں۔"

اس نے صرف ایک لمحہ رک کر اس کے چہرے پر کچھ ڈھونڈنا چاہا تھا دکھ'پشیمانی' افسوس کچھ نہیں تھا سوائے اطمینان کے ۔۔۔۔۔ یہ وہی آفاق تھا اسے یقین کرنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی ۔ وہ آفاق کچھ سال پہلے ہی اس نے کھو دیا تھا۔

کہاں۔۔۔۔ خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔

" رات کو تیز ڈرائیو کر کے پہنچا تھا اور تم نے دروازہ نہیں کھولا۔"

وہ دفتر سے آئی تو اپنا سیل فون چیک کیا جس پر چوبیس مسڈ کالز تھیں اور کئی میسج ۔۔۔۔۔ اس نے سارے ٹیکسٹ باری باری چیک کیے تھے اور پھر اسے کال بیک کی۔

"تم کیوں تیز ڈرائیو کر کے پہنچے تھے وہ بھی رات کے وقت "

پورے بارہ بجے میں تمہارے گھر پہنچا، آدھے گھنٹے تک بیل بجاتا رہا کیک لایا تھا تمہارے لیے۔ رات تمہاری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنا چاہی ۔

" تمہیں یاد ہے مجھے تو یاد بھی نہیں رہتا اب۔"

" مجھے بھی نہیں بھولا یہ دن۔ میں ہمیشہ کیک کاٹتا ہوں اس ڈیٹ پہ کیا تم آج میرے ساتھ سیلیبریٹ کر سکتی ہو؟ دیکھو' پھر تو تمہاری شادی ہو جائے گی پھرمیں نہیں ڈسٹرب نہیں کروں گا کبھی بھی۔"

" تمہیں بہت دکھ ہوا ہے میری شادی کا سن کر؟" " نہیں اطمینان ہوا ہے کہ تم نے اپنے لیے بھی تو کچھ سوچا۔

" شکریہ تمہارے نیک جذبات کے لیے۔"

" کیا ہم مل سکتے ہیں کہیں باہر۔ "

" کس حیثیت سے طاہر! تم شادی شدہ ہو اور میری شادی ہونے والی ہے۔"

" پلیز آخری بار میں تمہارے ساتھ بہت ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ مناسب سمجھو تو گھر آ جاؤں۔"

نہیں گھر نہیں۔۔۔۔ "

" پھر کہیں باہر۔۔۔۔"

"کہاں؟" اس نے لمبی سانس لی۔ وہ اس شخص کے آگے کیوں نرم پڑ جاتی تھی اسے خود پہ غصہ آتا تھا۔

"جہاں تم کہو۔"

"سمندر پر۔۔۔۔ گھنٹے بعد۔۔۔۔ پہنچ رہی ہوں۔" اس نے کہتے ہوۓ فون بند کیا۔

"بہت شکریہ۔ "

پہنچ رہی ہوں۔"

وہ اپنے کمرے میں آ کر وارڈ روب کھول کر کپڑے دیکھنے لگی۔ پہلی بار انتخاب مشکل لگا تھا۔

وارڈ روب کے آگے تین چار منٹ سے زیادہ نہیں رکتی تھی۔

"یاد ہے کبھی تم نے کہا تھا کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو وقت بہت بدل چکا ہو گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہو گا' سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے شاید پر ہم بدل گئے ہیں۔" اس نے کافی کا کپ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔

" مگر تم نہیں بدلے۔۔۔۔۔ ابھی بھی کافی کپ میں چھوڑ دیتے ہو۔ ہر کام ادھورا کرتے ہو۔ بتاؤ کتنی نوکریاں چھوڑی ہیں۔"

" اب تک صرف چار۔۔۔

" اب تک صرف چار۔۔۔۔ تمہیں شرم آنی چاہیے۔۔۔۔ چار کم ہیں۔ اب تو نوکریاں ملتی ہی نہیں ہیں۔"

" مجھے ہر کام کی جلدی پڑی رہتی ہے۔ سوچتا ہوں جلدی جلدی سب کچھ ہو جائے۔ انتظار میری جان لے لیتا ہے۔ تم سے شادی بھی تو جلدی کرنا چاہی تھی پھر۔۔۔۔" وہ کپ کی سطح پر انگلیاں پھیرنے لگا۔

" جلدی جلدی سب ہو تو گیا۔ شادی، بچے سب کچھ۔۔۔"

"ہاں سب ہو گیا۔ اب لگتا ہے جیسے دل خالی خالی سا رہ گیا ہے۔"

"ایسا کیوں سوچتے ہو۔ ہو نا ناشکرے۔"

"ٹھیک سوچتا ہوں۔ مگر بدلی تم بھی نہیں اب تک اتنی ہی سچی ہو اتنی ہی سست۔ ہر کام دیر سے کرتی ہو۔ شادی بھی اتنی لیٹ۔"

" ایک بات کہوں طاہر! میں شادی نہیں کر رہی۔"

" کیا۔۔۔۔۔ مگر تم نے تو کہا تھا کہ کسی نے پروپوز کیا تھا اور۔۔۔۔"

" ہاں کیا تھا۔ پر میں نے تبھی منع کر دیا تھا۔ مجھے شادی نہیں کرنی۔"

" مگر کیوں نہیں کرنی یار تم اکیلی ہو۔ کیسے گزرے گی زندگی نہ بھائی ساتھ نہ بہن۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے مبینہ اپنے لیے سوچو پلیز۔ "

" بس اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔"

"یہ زیادتی کر رہی ہو اپنے ساتھ ۔۔۔۔۔ کاش ہماری شادی ہو جاتی۔"

اچھا ہوا نہیں ہوئی میں ہر کام میں سستی کرتی ہوں۔ تم ہر کام میں تیز جوڑ نہیں بنتا روز لڑائی ہوتی۔ وہ زبردستی مسکرائی۔

" یاد ہے تم کہتی تھیں کہ میں کھانا بنانے میں دیر لگاؤں کی تمہیں دفتر سے دیر ہو جائے گی پھر تم بگڑو گے۔ ہماری لڑائیاں ہوں گی۔" وہ کہتے ہوئے ہنسا تھا۔

" ہاں یاد ہے۔" وہ بھی ہنسی۔

" مبینہ! بہت اکیلا ہوں میں۔۔۔۔ شادی کرو گی مجھ سے؟"

" ابھی تو تم نارمل تھے کیا ہو گیا ؟" وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

" میں اب بھی نارمل ہوں اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ کہہ رہا ہوں پلیز مان لو۔"

" تمہارا ایک گھر ہے، فیملی ہے بیوی بچے ہیں۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟"

" کیا زندگی پر میرا اپنا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔ کیا میں اپنے لیے نہیں جی سکتا۔ سب کچھ دیا ہے میں نے بیوی کو اور بچوں کو اب کچھ دن اپنے لیے جینا چاہتا ہوں۔"

" مجھے لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے گھر جاؤ آرام کرو میں بھی اب چلتی ہوں۔" وہ اٹھی تھی فوراََ۔

" میں سنجیدہ ہوں مبینہ مجھے جواب چاہیے۔" وہ بھی اٹھا اس کے ساتھ ۔

وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔

اس نے طاہر کو صاف صاف جواب دے دیا تھا۔

وہ نہ اس کی کل اٹھا رہی تھی نہ میسج کا جواب دے رہی تھی۔

یہ سچ تھا کہ زندگی تھوڑی نہیں بہت مشکل تھی۔ یہ بھی سچ تھا کہ اکیلے رہنا مشکل تھا۔ ماحول' باتیں، لوگ۔

وہ ساری چیزوں کو نظر انداز کرتی رہی تھی۔ کئی دفعہ دیر سے آتے ہوۓ گاڑی خراب ہوئی تھی۔ کئی دفعہ وہ اکیلی بیچ سڑک کھڑی رہتی تھی۔ مگر کسی سے لفٹ لینے یا مدد لینے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔

صرف ایک تنہائی تھی جس نے اندر سے توڑپھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی اچھا دوست تک نہیں تھا جس کے ساتھ کچھ وقت گزار کروہ تازہ دم ہو جاتی ۔ اس کی بہن کئی کئی مہینے اسے فون نہیں کرتی تھی۔ خود وہ ٹائم نکال کر کرتی تب بھی اس کے ساتھ زیادہ بات نہ ہو پاتی۔ وہ بار بار اسے بتاتی کہ غیر شادی شدہ بندہ شادی شدہ لائف کے بارے میں نہیں سمجھ سکتا۔ وہ اسے جتاتی کہ بے وقت فون سننا اس کے لیے مشکل ہے۔

اس نے فون کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔

اور جو اس کا بھائی تھا اس نے تو پلٹ کر خبر تک نہ لی تھی۔ یہ تھے اس کے اپنے جن کی خاطر اس نے زندگی قربان کی۔

طاہر نے پھر بھی اتنا برا تو نہیں کیا اس کے ساتھ جتنا وہ لوگ کر رہے تھے۔ مگر پھر بھی اس نے شادی سے انکار کر دیا۔ کیوںکہ طاہر کی اپنی فیملی تھی وہ کیسے ان سب کی مجرم بن جاتی۔ وہ خاموش تھی۔ طاہر کئی بار دروازے سے لوٹ گیا تھا۔ دو چار چکر اس نے دفتر کے لگا لیے۔ آخر کار مجبور ہو کر اس نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔ وہ اپنے بہن' بھائی سے مشورہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے آفاق کو بلایا مگروہ نہیں آیا۔ دو دن بعد وہ خود اس کے گھر پر تھی۔ علی نے بہت دنوں بعد دیکھا تھا مگر لپٹ گیا۔ اس کی گود سے اتر نہیں رہا تھا۔

اس نے علینہ کو اگنور کر دیا تھا کیوں کہ اس کا رویہ ویسا ہی عجیب تھا۔ اس نے ڈائریکٹ آفاق سے بات کی تھی۔

" آپ شادی کر رہی ہیں ؟ وہ حیران ہو گیا تھا۔ علینہ نے طنزیہ نظروں سے پہلے اسے پھر آفاق کی طرف دیکھا تھا۔

" اس عمر میں آپ کو شادی کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے۔"

عادت سے مجبور علینہ چپ نہیں رہ سکی تھی۔

" میں اپنے بھائی سے بات کر رہی ہوں۔"

" آپ کو واقعی کیا ضرورت ہے آپا۔۔۔ آپ اچھی جگہ رہتی ہیں اچھا کھاتی ہیں خوش ہیں۔" وہ بھی بیوی کے ساتھ متفق تھا۔

" میں اکیلی رہتی ہوں۔ مجھے کئی مسائل ہیں۔ طاہر بہت فورس کر رہا ہے۔"

" وہ دھوکے باز آیا۔۔۔۔ کیا کیا تھا اس نے آپ کے ساتھ ۔ کچھ یاد ہے؟"

" اچھا تو میرے ساتھ کسی نے نہیں کیا ۔ اگر میں یاد کرتی رہوں تو زندہ کیسے رہوں گی بھلا۔"

" ٹھیک ہے ۔ آپ کی مرضی۔ مگر میں نہیں سمجھتا یہ شادی کامیاب ہوگی۔"

یہ اس کا بھائی تھا جو پہلے سے شادی کی ناکامی کی پیش گوئی کر رہا تھا بجائے کوئی دعا دینے کے' بجائے حوصلے کے۔

وہ اسے دیکھتی رہ گئی ۔

" آپ کو اب اگر اتنا ہی شوق ہوا ہے شادی کا تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھلا۔ "

یہ وہی زہر اگلنے والی بلا تھی۔

"میرا خیال ہے۔ میں چلتی ہوں۔ علی گود سے اتر کر کھیلنے لگا تھا وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔

" شادی پر تو بلائیں گی نا۔" علینہ کا لہجہ ویسا ہی تھا۔

" ضرور!" وہ اتنا ہی کہہ سکی۔

گھر آتے ہی اس نے سب سے پہلا فون طاہر کو کیا تھا۔ اور پھر حرا کو۔۔۔۔ بیل مسلسل جا رہی تھی۔

تیسری چوتھی بیل پر اس نے فون اٹھ ہی لیا تھا۔

" ہاں آپا! بولیں شرجیل کے کپڑے چھوڑ کر آئی ہوں پریس کرنے لگی تھی۔ پر فون بج رہا تھا رنگ پہ رنگ سب خیریت ہے نا؟" وہی سلام دعا کے بغیر عجلت بھرا لہجہ۔

" بہت ضروری بات کرنی تھی تم سے۔۔۔۔ میں شادی کر رہی ہوں۔"

" کس کے ساتھ ؟"

" طاہر کے ساتھ ۔۔۔۔"

" ہیں۔۔۔۔ آپا ہوش میں ہیں۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟"

"حرا میں ٹھیک ہوں بالکل سب ٹھیک ہے۔ میں اپنے ہوش میں ہوں۔"

" آپا شادی اب۔۔۔۔ اب کیا فائدہ ؟"

" کیا مطلب؟ کیا فائدہ۔"

" مطلب یہ کہ آپا اتنی عمرمیں پرابلم ہوتی ہے۔ بچے۔ وہ کہتے کہتے رُک گئی۔

" حرا میں شادی بچوں کے لیے نہیں اپنی تنہائی کی کی وجہ سے کر رہی ہوں۔"

" آپا اس عمر میں؟"

" اسی عمر میں تو کسی اپنے کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔"

”میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا آپا!"

" تم اپنے کمزور دماغ پر زور مت ڈالو۔ یہ بتاؤ آسکوگی یا نہیں؟"

" آپا ! میرے میاں کیا کہیں گے۔ لوگ کیا کہیں کے۔ آپ نے کچھ تو سوچ لیا ہوتا۔ " یہ بھی اس کی سگی بہن تھی ۔

"ٹھیک ہے حرا! یہی کہنا ہے یا اور بھی کچھ باقی ہے؟"

"میرا تو دماغ کام نہیں کر رہا آپ کی بات سن کر۔"

" اور میرا دل کام نہیں کر رہا تم لوگوں کی باتیں سن کر۔" اس نے فون رکھ دیا اور بیٹھ گئی۔ یہ تھے اس کے اپنے اور یہ تھے لوگ۔ شادی کی بات سنتے ہی اعتراضات کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ حیران تھی۔ حالانکہ اب اسے حیران ہونے کی ضرورت نہ تھی۔

اس نے ان چند دنوں میں لوگوں کے مزید رنگ دیکھ لیے تھے کہ جب کوئی اپنی زندگی بنانے جا رہا ہو تا ہے تو لوگ کیا کرتے ہیں۔ ہاتھ سے نہیں روک سکتے ، عمل سے نہیں روک سکتے مگر زبان سے کوشش ضرور کرتے ہیں۔

اور سب سے زیادہ بات کرنے اور انگلی اٹھانے والے کون تھے خود اس کے اپنے بہن بھائی۔ جو رشتے دکھ سکھ کے ساتھی کہلاتے ہیں۔ وہی رشتے اسے برا بھلا کہہ کر مزید خون جلا رہے تھے۔

ایک دن اسے طاہر اپنے ساتھ شاپنگ پر لے گیا اور مال میں علینہ اور آفاق مل گئے۔ علینہ باز نہیں آئی تھی پاس سے گزرتے ہوئے بھی دل جلا گئی' اسے ایسے کاموں میں کمال حاصل تھا۔ آفاق کتنا انجان تھا۔ اسے ایک دفعہ احساس ہوا کہ اس سے پوچھے' بات کرے' کہے کہ وہ اس کا چھوٹا بھائی ہے جسے بچوں کی طرح اس نے پالا ہے اور یہاں تک پہنچایا ہے۔ مگر اس کے پاس وقت ہی کہاں تھا اس کے لیے رک کر بات سننے اور سمجھنے کے لیے وہ اسے دور تک جا تا دیکھتی رہی تھی۔

"چلیں مبینہ ! " طاہر اس کے ساتھ کھڑا تھا۔

"ہاں چلیں۔۔۔۔ " وہ چپ چاپ اس کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔

" ان لوگوں کی خاطر تم ضائع کر رہی تھیں خود کو۔ " وہ گاڑی میں بیٹھتے اسے جتانے لگا۔

" تب وہ لوگ نہیں بچے تھے۔ اب لوگ بنے ۔"

"جانے دو تم تو پھر بھی ۔۔۔۔ "

" طاہر ! میں سب کچھ بھلا دینا چاہتی ہوں۔ ہر حوالے سے۔"

" اوکے تو آگے کے کیا پلان ہیں پھر؟"

" نہیں طاہر ! اب کوئی تیاری نہیں پلیز۔۔۔۔۔ سادگی سے چند لوگوں کی موجودگی میں نکاح ہو گا۔ میں دفتر کے لوگوں کو بلا لوں گی۔ تم اپنے ایک آدھ کسی دوست کو بلا لینا۔"

" تاریخ کیا سوچی تم نے؟"

" اٹھائیس ٹھیک ہے۔"

" ہوں۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے پورے بائیس دن ہیں۔ زیادہ نہیں؟"

" بہت کم ہیں طاہر بائیس دن۔"

" بائیس دنوں میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے یار۔"

" کچھ نہیں ہو تا طاہر! اتنے سالوں میں کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ بائیس دنوں میں کیا ہو جائے گا بھلا ہے"؟

" تم کہتی ہو تو ٹھیک ہی ہے تمہیں فلیٹ پر چھوڑ دوں؟"

" ہاں پھر تمہیں اپنے گھر بھی جانا ہے۔ اپنے بیوی سے بچوں کے پاس۔ وہ سب ویٹ کر رہے ہوں گے تمہارا ہے نا؟"

" پلیز مبینہ ! کیا ہم ایک ساتھ رہتے ہوئے صرف اپنی بات نہیں کر سکتے؟ "

" یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔۔۔" اس کی مسکراہٹ میں تھکن تھی 'تم نے سوچا ہے طاہر! تم کیسے مین ٹین کرو گے سب کچھ ۔"

" نہیں تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں کر لوں گا۔ اور میں نہیں چاہتا کہ اس بات کو لے کر ہمارے بیچ میں کوئی بھی تلخی آئے۔ دیکھو مبینہ جب میں تمہارے پاس ہوں تو صرف تمہارا ہوں گا۔"

" اور جب ان کے پاس ہو گے تو صرف ان کے ہو گے۔" وہ اسے بغور دیکھ رہی تھی۔

" پلیز مبینہ!" وہ الجھے ہوئے انداز میں باہر دیکھ رہا تھا۔

”ہمارے آنکھیں بند کر لینے سے کچھ نہیں بدلے گا طاہر !"

" پلیز تم چاہتی ہو کہ میں کہیں گاڑی دے ماروں۔" وہ چلایا۔

" تم ایموشنل کیوں ہو رہے ہو طا ہر ؟"

"دیکھو میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا اب ان ساری باتوں کو بنیاد بنا کر تم ایسی باتیں مت کرو ٹینشن ہوتی ہے مجھے ۔"

"اچھا او کے بس آخری سوال ۔"

" کہو۔" وہ بے بسی سے دیکھنے لگا اسے۔

" اپنی فیملی کو شادی کے بارے میں بتایا ہے ؟"

" بتا دوں گا۔ " وہ فورا ڈھیلا پڑ گیا تھا۔

" تم نے اب تک بتایا نہیں ؟ وہ تعجب سے دیکھنے لگی۔

" میں ضروری نہیں سمجھتا۔"

" پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ کیا ہو گا ؟ اس نے سیٹ سے سرٹکا لیا۔

"کچھ نہیں ہو گا۔ ہم شادی کریں گے اب اور خوشی خوشی اپنا گھر بنا ئیں گے۔" وہ اسے بہلا رہا تھا۔

" کاش یہ سب اس قدر آسان بھی ہوتا جیسے ہم کہہ رہے ہیں۔"

" آسان اگر نہیں ہو گا تو ہم آسان بنا لیں گے۔"

" پتا ہے طاہر مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔"

" تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح تم مجھے بھی کمزور کر دو گی۔"۔

" میں سوچ رہی ہوں طاہر۔۔۔۔"

" پلیز کچھ نہیں سوچنا اب۔" وہ اس کی بات کاٹ گیا۔

اب سب کچھ پلان کے مطابق ہو گا۔ تم کام نبٹا لو گھر سے ہو آؤ۔ وہاں دیکھو کس چیز کی کمی ہے۔ دیکھو ہم وہ گھر بیچیں گے نہیں۔ کبھی کبھار رہنے جائیں گے

وہاں۔۔۔۔۔

" ٹھیک ہے۔" وہ کچھ بے دلی سے مسکرائی۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، مگر ایک دل تھا۔

جو ایسے موقع پر خطرے کا الارم بجاتا ہے شاید ڈراتا ہے۔ وسوسے ڈالتا ہے ۔ دل بھی اپنے کام میں ماہر ہے۔ وہ ہفتے کا دن تھا جب اسے طاہر کی بیوی کی کال موصول ہوئی تھی۔ وہ اس کی آواز سنتے ہی برس پڑی تھی۔ کیسی غلط زبان استعمال کی تھی اس نے۔ غیر تعلیم یافتہ لوگوں کا کیا قصور بھلا یہاں پڑھے لکھے لوگوں کا یہ حال تھا۔

وہ صرف سنتی رہی تھی اور فون بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد روز اسے کوئی دھمکی آمیز ٹیکسٹ موصول ہوتا۔ میرے شوہر کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ ۔ ورنہ کے آگے ڈراوے لکھے ہوتے دھمکی آمیز - جن پر یا تو وہ کڑھتی یا پھر افسوس سے سر جھٹک کر رہ جاتی تھی۔

طاہر کا کہنا تھا وہ ان چیزوں پر دھیان نہ دے۔۔۔۔۔ یہ سب رکاوٹیں ہیں اور اس بار کوئی رکاوٹ ان کا رستہ روک نہیں پائے گی۔

اس کے پاس کوئی خواب نہ تھا نہ خواہش۔ وہ بس سکون اور تحفظ بھری زندگی چاہتی تھی۔ ایک پر سکون گھر۔۔۔۔

کیا وہ ایک پر سکون گھر بنا سکے گی۔۔۔۔۔ اس کے خود سے کتنے سوال تھے۔۔۔۔ پہلے سے ہی کتنے خدشے' کتنی بے سکونی' کتنی بے یقینی۔

کیسا گھر بنانے جا رہی تھی وہ تھکن جیسے پور پور میں اتر رہی تھی۔ حالانکہ ابھی بہت کام باقی تھے۔

پورے اٹھارہ دن پر لگا کر اڑے تھے۔ ان کی شادی مزید ایک ہفتہ لیٹ ہو گئی تھی۔ طاہر کچھ مصروفیات میں پھنسا ہوا تھا۔

وہ بتا رہا تھا دفتر میں نیا پروجیکٹ ملا ہے۔ بہت سارا کام ہے۔

اس نے سوچا چلو وہ بھی کچھ سستا لے گی۔

وہ روز اسے میسج کر کے حال احوال پوچھتی۔ پورے سولہ دنوں سے ان کی ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔ وہ کہاں مصروف تھا۔

آج وہ ساحل سمندر پر آئی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کچھ فریش ہوا جائے۔

اس نے کہا تھا اتوار کو ملیں گے۔ وہ اتوار کی شام اس کے انتظار میں یہاں بیٹھی تھی۔

" کہاں ہو طاہر تمہارے بیٹے کی طبیعت کیسی ہے اب ؟" وہ کال ریسیو نہیں کر رہا تھا اس نے میسج کر دیا ہے۔

" ابھی بھی بخار ہے اسے میں دفتر میں ہوں میٹنگ میں۔"

" طاہر ! آج سنڈے ہے۔ " وہ لکھتے لکھتے رک گئی کیوں کہ وجہ سامنے تھی۔

وہ اس سے کچھ فاصلے پر تھا۔ وہ اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ سمندر پر موجود تھا۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس کی بیوی کے چہرے پر کھلکھلاتی مسکراہٹ تھی۔ اور وہ خود کتنا مطمئن تھا۔ کتنی مکمل فیملی تھی ' کتنا سکون تھا ۔ سب کچھ تو تھا ایک مکمل فیملی'مکمل گھر۔

کیا کمی تھی۔ سب کچھ تو تھا۔ پھر وہ ان سب میں کہاں تھی۔ کسی جگہ تھی ۔ اس کا کیا مقام تھا وہ کہاں کھڑی تھی۔ کیا حیثیت تھی اس تعلق کی ایک طرف مکمل گھر اور ایک طرف صرف وہ ۔۔۔۔ وہ کتنے دنوں سے نہیں آیا تھا۔

اس نے ان دنوں میں اسے کتنا یاد کیا ۔ آواز دی اور وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتا جا رہا تھا۔ ایک جھوٹ دو جھوٹ ۔ کتنے جھوٹ ۔ کل ملا کر کتنے جھوٹ ۔ وہ ایک جھوٹ کی بنیاد پر گھر بنا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہے تھے۔ اسے دکھ کیوں ہوا تھا۔

وہ الٹے قدموں واپس پلٹی تھی۔

" دفتر میں ہوں۔ میٹنگ ہے۔ کام ہے۔ " اس کا ٹیکسٹ کھلا ہوا تھا۔

" آج تو سنڈے ہے طاہر! آج بھی دفتر میں ہو۔۔۔۔۔ آج بھی کام ہے۔ سمندر تو اس کے اندر ٹھاٹھیں مارتا رہا۔ دکھ کا سمندر وہ رو رہی تھی پروہ رونا نہیں چاہتی تھی

اس نے آج بہت تیز ڈرائیو کیا تھا پلیئر آن کر دیا

شام سے پہلے آنا

پھول سارے کھل رہے ہوں

دھوپ ساری ڈھل رہی ہو

موسم سارے لے آنا

پھر وہی دن آئے ہیں

جانے کیا لے آئے ہیں

جیون میرا ۔۔۔۔ سارا تیرا۔۔۔۔۔

جینا تو اک بہانہ ہے۔

"شادی کرو گی مجھ سے؟"

ایک شرط پر۔۔۔۔"

"وہ کیا ؟"

" تم کافی کا پورا کپ پیو گے۔"

" اور؟"

"اور یہ کہ نوکری نہیں چھوڑو گے۔"

"بس اتنا۔۔۔۔ قبول ہے۔"

"جھوٹ نہیں بولو گے؟"

" نہیں بولوں گا۔"

"مجھ سے ہمیشہ محبت کرو گے۔"

"ہمیشہ کروں گا۔ "

"مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے؟"

" کبھی نہیں۔"

ایک تیرے آ جانے سے

مل رہے ہیں زمانے سے

جیون میرا۔۔۔۔ سارا تیرا۔۔۔۔۔

دور اب کیا جانا ہے

شام سے پہلے آنا۔

شام تیزی سے ڈھل رہی تھی۔ شام اس کے اندراتری ہوئی تھی۔

ہال رنگین روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ آج وہ بھی یہاں انوائیٹڈ تھا۔ اسے ایک میسیج کیا ۔

"پتا نہیں کہاں ہو تم ۔ "

"ہو کہاں مصروف؟"

"مجھے پتا ہے ناراض ہو جب ہی کوئی جواب نہیں دیا۔"

"بدلہ لے رہی ہو نا ۔ چلو لے لو خوش ہو جاؤ۔"

"میں آتا ہوں ملنے اور منانے۔ ایک ہفتے سے مصروف تھا۔"

وہ کسی میسیج کا جواب نہیں دے رہی تھی۔

" پتا ہے مبینہ ! آج ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی نا۔ سوری میری مصروفیت کی وجہ سے سارا کچھ لیٹ ہو گیا ہے۔"

تمہیں کہا بھی تھا کہ بائیس دن بہت ہیں۔ مگر تم بھی نا۔ چلو کوئی بات نہیں ہم اب دور کی ڈیٹ نہیں رکھیں گے۔ ایسا کرتے ہیں کل ہی مولوی کو بلا کر نکاح پڑھوا لیتے ہیں۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے؟"

" یار جواب تو دو نا۔۔۔۔!"

وہ ہال میں بیٹھا بور ہو رہا تھا، ابھی دولہا دلہن بھی نہیں آئے تھے وہ شاید وقت سے پہلے آ گیا تھا۔ یا دیگر مہمان لیٹ ہو گئے تھے۔

" دیکھو اب میں تیز ڈرائیو نہیں کرتا مبینہ !"

" آج میں نے کافی کا پورا کپ پیا تھا۔ یہ مت پوچھنا کہ کافی کس نے بنائی تھی اور یہ بھی مت پوچھنا کہ کیسی تھی؟"

وہ اسے جواب دینے کے لیے اکسا رہا تھا۔

" اچھا نوکری بھی نہیں چھوڑوں گا اب۔ "

" اچھا سنو نا! جواب تو دو میں یہاں شادی میں بیٹھا ہوا ہوں۔"

" دولہا دلہن نہیں آئے۔ آؤ دونوں یہاں بیٹھ کر نکاح پڑھوا لیں' کیسا آئیڈیا ہے ۔ تمہارے گھر سے قریب ہے یار آ جاؤ نا مبینہ !"

" اچھا چلو ٹھیک ہے میں ہی آ جاتا ہوں۔۔۔۔ بس عمیر سے مل لوں' اس کا بھائی میرا بہت اچھا دوست ہے۔

سینٹ آئٹم بھرا ہوا تھا۔ اور ان باکس خالی تھا ایک بھی جواب نہیں آیا تھا اس نے لمبی سانس بھری اور دوسری طرف متوجہ ہوا۔

دولہا دولہن آ رہے تھے۔ دولہا بہت خوش لگ رہا تھا۔

دولہن کا گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔ یقیناً وہ بہت خوب صورت ہوگی۔ وہ سوچتے ہوئے اسٹیج تک آیا۔

عمیر سے گلے ملا اسے مبارک باد دی پھر نیچے آ گیا۔

کھانے کے بعد رخصتی تھی۔ رخصتی کی گھڑی بھی عجیب ہوتی ہے۔ وہ عمیر کے بھائی کے ساتھ ہال کے گیٹ پر کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ جب دولہا دلہن ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے۔

مووی والے کی ہدایت پر کسی نے دلہن کا ڈوپٹہ ٹھیک کیا تھا۔ اس کی نظر اٹھی تھی اور۔۔۔۔

کیا وہ وہی تھی۔۔۔ یا اس سے ملتی جلتی؟ مگر یہ تو بہت حسین تھی۔

" بھا بھی عمیر سے بڑی ہیں کچھ سال۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ عمیر سے زیادہ خوب صورت لگ رہی ہیں ہیں نا۔ " عمیر کی بہن کہہ رہی تھی۔

" اچھا۔ اللہ ان دونوں کو خوش رکھے۔ مبینہ بھا بھی بہت اچھی خاتون ہیں۔ مل چکا ہوں میں بہت دفعہ۔" عمیر کا بھائی اس سے مخاطب ہوا تھا۔ وہ پتھر کے بت کی طرح کھڑا تھا۔

" اتنا بڑا دھوکا میرے ساتھ ۔۔۔۔ اتنی بڑی گیم مبینه ! کھیلا ہے تم نے میرے

ساتھ ۔ دھوکا کیا ہے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد سینٹ آئٹم میں ایک اور میسج کا اضافہ ہوا تھا۔ اس سے کھڑا ہوا نہیں جا رہا تھا۔ وہ اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا جب سیل فون بجا۔ مبینہ کالنگ جگمگا رہا تھا۔

" تم نے اتنا بڑا دھوکا کیا میرے ساتھ ۔ یہ ڈیٹ تو ہماری شادی کی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم مجھ سے اس طرح بدلہ لوگی؟" وہ برس پڑا تھا۔ " میں نے نہ تم سے بدلہ لیا ہے طاہرنہ گیم کھیلا ہے۔ میں نے تو اس گیم کو انجام تک پہنچایا ہے جسے تم ادھورا چھوڑ گئے تھے۔ گیم تو تم کھیل رہے تھے میرے ساتھ تب بھی اور اب بھی۔ ہر بار اپنی باری کھیل کر تم ہٹ جاتے تھے میں نے تو صرف اپنی باری کھیلی ہے۔ اب ڈراما ختم اور زندگی شروع۔"

فون ساکت تھا۔ وہ ساکت تھا۔ ہر چیز ساکت تھی کیونکہ ڈراما ختم تھا اور زندگی تو اب شروع ہوئی تھی!