QUFL - قُفل

مُحبت میں گُندھی لڑکی کی داستان

اردو کہانیاں

Bushra Rehman

2/4/20251 منٹ پڑھیں

باسمہ آج پھر اسے نظر آ گئی تھی۔ یوں موٹر چلاتی ہوئی سڑک کے سینے کو روند رہی تھی جیسے کوئی بطخ پانی کے سینے پر رواں ہو۔ امان جب بھی اسے موٹر میں جاتا ہوا دیکھ لیتا اسے یوں محسوس ہوتا جیسے باسمہ سر پر تاج شاہانہ سجائے اسی وقار اور خود اعتمادی سے چلی جا رہی ہے۔۔۔۔ جو اس کی فطرت کا خاصا تھا۔

امان اس وقت ایک جنرل اسٹور کے باہر اپنے ایک دوست سے گپ لگا رہا تھا۔ باسمہ خوب بنی ٹھنی اس کے قریب سے گزر گئی تو اس کے دل میں سرخ سرخ آندھیاں سی اٹھنے لگیں۔ " دنیا اتنی بڑی جگہ نہیں ہے۔ " اس نے سوچا۔۔۔۔ اور جب آدمی ایک شہر میں رہتا ہو اور جدا ہوئے زیادہ سال بھی نہ گزرے ہوں تو ایک دوسرے کا سامنا ہو جاتا ہے کچھ ایسی تعجب انگیز بات بھی نہیں ہے۔"

پہلے بھی کئی بار بازار میں آتے جاتے ہوئے اس نے باسمہ کو یونہی تیز تیز انداز میں موٹر چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور ہر بار۔۔۔۔ یہ ایک دل جلا دینے والی گالی' زیر لب فضا میں پھینکی تھی۔۔۔۔ حرافہ ۔۔۔۔ کمینی' بے حیا! اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ اپنے غصے پر قابو پا کے سوچتا' اس نے باسمہ کو گالی کیوں دی تھی؟

جب کوئی مرد کسی عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو اتنی مکروہ گالی اس کی پیشانی پر لکھ دیتا ہے جسے کوئی مقدس پانی بھی نہیں دھو سکتا۔

اب مزید گالیوں کی گنجائش کہاں تھی؟

اس نے ہلچل کرتے جذبات کو قابو میں لانے کے لیے سگریٹ سلگا لیا۔ وہی سگریٹ جس کا کوٹہ باسمہ نے مقرر کر رکھا تھا۔۔۔۔ ایک دن میں صرف تین۔۔۔ اور اب دن میں تیس، چالیس سگریٹ پی کر دل کو چین نہیں آتا تھا۔ اور اسے دیکھو، شوکیس کی گڑیا بنی پھرتی ہے۔ ہاں نئی نئی شادی جو رچا لی ہے۔ خوشی ہے۔ مسرور ہے۔ اور مجھ سے کہتی تھی۔ "جس دن تمہارے علاوہ مجھے کسی اور مرد نے چھو لیا تو میری موت واقع ہو جائے گی۔"

" حرافہ' بکتی تھی۔ " اس نے پھر اپنی سانس کی پھنکار کے ساتھ فضا میں زہریلے میزائل کی مانند ایک گالی چھوڑی' جیسے وہ سیدھی باسمہ کے کلیجے میں جا کے اترے گی۔ اب وہ یہ سب کچھ اپنے نئے شوہر سے کہتی ہوگی۔ اب اپنی ادا ئیں اس پر نثار کرتی ہوگی۔ سب بکواس کرتی ہیں یہ عورتیں۔

"یار! تم نے بھی تو وہ سب اپنی نئی بیوی سے کہا ہے۔۔۔ ذرا اپنا دل بھی تو ٹٹولو۔۔۔۔ کیا محبت کا کھیل تم نے دوبارہ نہیں رچایا۔ اور اس کی سیج تلے رچایا۔ ہرجائی تم ہو کہ باسمہ ہے؟"

" ہاں۔" اس نے دھیرے سے کش چھوڑا ۔

" باسمه تو ایسی عورت ہے کہ اس سے کوئی بھی مرد بے اختیار پیار کر سکتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے جانے کیسی مٹی سے گوندھا ہے کہ یہ ہمیشہ مہک دیتی رہے گی۔۔۔۔ ذرا دیکھونا' یوں جا رہی تھی جیسے مہ و سال اس پر سے نثار ہوتے ہوئے گزر رہے ہوں۔۔۔۔

خوب بن ٹھن کر رہنے لگی ہے۔ بال بھی کٹوا لیے ہیں۔ کتنی مسرور نظر آ رہی تھی۔ شاید اس کا نیا شوہر ہروقت اسے میک اپ میں دیکھنا پسند کرتا ہوگا۔

اورجانے کیا' کیا پسند کر ہوگا۔

امان کو اپنا دم گٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ اور باسمہ کو چھونے کے تصور سے ہی اس کے تن بدن میں ہزارہا قمقمے جل اٹھے۔ باسمہ جادو کی ایسی پٹاری تھی جس کے کھلتے ہی ہوش اڑ جاتے ہیں۔ جانے ہوش اڑانے کی ادا قدرت نے اسے بخشی تھی۔ یا اس نے زمانے سیکھی تھی۔ مگر وہ عقل و خرد کے سارے ٹھکانے پھونک کر اس کے آنگن میں آئی تھی' بی اماں کو تو وہ بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ اور کوئی عیب نہیں تھا اس میں۔ بی اماں اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی اپنی بھانجی رشیدہ سے کرنا چاہتی تھیں۔ اکلوتا بیٹا جسے وہ امان الله کہتی تھیں

اور اسے اللہ کی امان میں دے رکھا تھا۔ اس پر یکایک باسمہ نے اپنی مسکراہٹوں کا طلسم چھڑک دیا تو بی اماں کو باسمہ ڈائن کی مانند نظر آنے لگی۔ جو ہنستے بستے گھروں پر امر بیل بن کر چمٹ جاتی ہے۔

یوں وہ بہو بن کر آئی تو انہوں نے گردن ڈال دی۔ بیٹا اکلوتا ہو۔۔۔۔ ماں کی آنکھ کا تارا ہو۔۔۔ تو اسے من مانی اور خود سری کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ گھر کا اوپر والا حصہ بی اماں نے بہو اور بیٹے کو دے دیا تھا۔ ادھر دو کمرے' ایک غسل خانہ' ایک باورچی خانہ اور ایک دالان تھا۔ دو تین سال بی اماں بہو کے ہاتھ کا کھاتی رہیں۔ پھر یکایک انہیں بہو کے ہاتھ میں کیڑے نظر آنے لگے۔ کیوں نظر نہ آتے۔ تین سال ہو گئے تھے اور بہو کی کوکھ بنجر تھی۔

" یہ عشق کی ماری لڑکیاں۔۔۔۔ پتا نہیں کیا' کیا کرتی ہیں۔ کم بختیں کہ ان کی گود ہری نہیں ہوتی۔ ایسی صورت کو چاٹا کرے۔ عورت کا حسن تو بچہ سے ہے۔ جس عورت کی گود میں بچہ نہیں اس سے بدصورت کون عورت ہوگی؟"

" ائے یہ من مانیاں کر کے بزرگوں کا دل تو پہلے ہی تو ڑ دیتی ہیں انہیں دعا کون دے؟"

یہ تو باسمہ بھی سوچا کرتی تھی کہ دعا لینے کس کے پاس جائے؟ اے کاش

دعائیں بازاروں میں بکتی ہوتیں تو وہ اپنے سارے زیور بیچ کر انہیں خرید لاتی۔ ویسے تو ہر جتن کیا تھا اس نے محبت کی شادی میں ایک دھڑکا ہمیشہ جی کو لگا رہتا ہے۔ ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ اس نے لیڈی ڈاکٹروں کے ہاں چکر لگانے شروع کردیے۔ دوائیاں' انجکشن ، چھوٹی موٹی صفائیاں۔۔۔ سب کچھ ساس سے بالا بالا کروا لیا۔۔۔ اور تو اور کئی رازدار سہیلیوں کی معرفت تعویذ بھی منگوائے تھے مگر دعا کا مقفل دروازہ کھلتا ہی نہ تھا۔ یوں بھی اس کے سر پر ماں نہ تھی۔ ایک باپ تھا وہ بھی سدا کا پانچ برسوں سے چارپائی پر پڑا تھا۔

امان تو گھر میں لاڈلا تھا۔ مگر پانچ سال مسلسل اس نے باسمہ کے سڑکوں پر یوں ناز اٹھائے تھے کہ وہ بیمار باپ کو چھوڑ کر اس کے گھر آ گئی تھی۔

ابا جی سے کئی بار اشاروں کنایوں میں دعا کرنے کے لیے اس نے کہا۔ مگرپتا نہیں' باپ سے کیوں اس طرح بات نہیں ہو سکتی ، جس طرح ماں سے ہو سکتی ہے۔

پانچ سال ایک بنجر ڈگر پر کانپتے کانپتے۔ بالآخر اس نے صبر کرنے کی ٹھان لی کیونکہ اس دنیا میں زندہ رہنے کے دو ہی اصول ہیں۔۔۔۔ صبربا جبر۔۔۔۔

اب توبی اماں بھی واشگاف الفاظ میں اسے کوسنے دیا کرتیں اور ہر آئے گئے کے آگے اپنے بیٹے کی نسل بندی کا ماتم کیا کرتیں۔

ان روز روز کی لڑائیوں میں ساس بہو کا کھانا الگ ہو گیا۔

باسمہ اس میں بھی خوش تھی۔

وہ ادھر یوں پڑی رہتی جیسے کسی اچھوت کو رکھا جاتا ہے۔ روٹی ' پانی الگ' برتن الگ۔

ویسے بھی اسے سہیلیاں بنانے اور گھومنے پھرنے کا زیادہ شوق نہیں تھا۔ بس شام کو امان کے ساتھ ہی کہیں چلی جاتی۔ ورنہ گھر پر پڑی رہتی۔

اس طرح ساس' بہو کا زیادہ آمنا سامنا بھی نہیں ہوتا تھا۔ ویسے بھی اگر کسی عزیز کے آ جانے پر وہ نیچے جاتی یا اماں بی گھڑی بھر کو ادھر آ جاتیں تو وہ اپنا روایتی ادب و احترام برقرار رکھتی۔ جی' جی کرتی رہتی اور ان کی کڑوی کسیلی ہنس ہنس کے پیتی رہتی۔

دل میں بھی غصہ نہیں کرتی تھی۔

جو بات قدرت کے اختیار میں ہو اس پر ناحق جان جلانا حماقت ہے۔ ایک دن اگر انسان یہ سوچ لے کہ وہ تو محض بساط کا مہرہ ہے۔ چلانے والا کوئی اور ہے' توشہ اور مات کے چکر سے ہی نکل جاتا ہے۔ ہاں اس کی زندگی تب عذاب بنتی جب اسے امان سے کوئی شکوہ ہوتا۔ اس گھر میں آتے ہی اس نے سب سے پہلے امان کو پہچانا تھا۔

ماں کا ایک ہی بیٹا ہو۔ اور نازوں سے پلا ہو' تو وہ زندگی بھر بگڑا ہی رہتا ہے۔ بگڑے ہوئے بچے کو سدا ماں کی آغوش ہی اچھی لگتی ہے۔ اگر ماں کی گود سے نکلتے ہی اسے صحیح عورت نہ ملے تو پھر وہ طوائف کی گود میں پناہ لیتا ہے کہ طوائف ایک کھلی دکان ہے۔ وہاں ہر قسم کا فرمائشی سودا بکتا ہے۔ طوائف کے ہاں کچھ نہیں ہوتا ۔ ایک پہچان ہوتی ہے۔ گاہک کی پہچان، مرد کی پہچان' روٹھے ہوئے بگڑے ہوئے بچے کی پہچان' اپنے گاہک کو طلب گار بنانے کے لیے وہ گھڑی گھڑی روپ بدلتی ہے اور اسے لبھاتی ہے۔ یوں اس سے سارے رشتے ناتے چھڑا دیتی ہے۔ جانے باسمہ کو یہ سب کس نے بتایا تھا۔ پر یہ سب اس کے لاشعور میں تھا۔ اور اسے امان کو لبھانے کے سارے گُر آ گئے تھے۔ اس لیے اس نے ساری دنیا سے منہ موڑ کر صرف امان سے لولگا لی تھی۔ حتی کہ وہ اپنے اپاہج باپ کو بھی بھول گئی تھی۔ وہ ایک نامکمل عورت تھی۔ بچے کی طرف سے جو کمی تھی وہ اسے اپنی سعادت مندی، انکساری اور خدمت گزاری سے پوری کرنا تھی۔ جس عورت کی گود خالی ہو وہ تو اپنے مرد سے اونچی آواز میں بول بھی نہیں سکتی۔ باسمہ جھکتے جھکتے امان کے تلوؤں تک پہنچ گئی تھی۔ مگر خوبصورتی کی ادا کو اس نے برقرار رکھا تھا۔ یوں مسلسل اس کے نخرے اٹھائے جا رہی تھی جیسے وہ اس کا اکلوتا بچہ ہو۔ بیوی کی گود میں جب ماں کی شفقت بھی سما جاتی ہے تو عورت پورے کا پورا مرد جیت لیتی ہے۔ یوں امان کو اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا کر اس نے ایک ماں سے اس کا بیٹا کلیتاً چھین لیا تھا اس لیے اماں کی جلی کٹی کا برا نہیں مانتی تھی۔ آخر اماں اس کو نہ کوستیں تو کس کو کوستیں؟ اور اماں بی تو ادھار رکھنے کی قائل نہ تھیں۔ جونہی امان گھر میں داخل ہوتا۔ ذرا سی دیر اماں بی کے پاس رک کر ان کا حال دریافت کرتا۔ اور پھر سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھاتا ۔ اماں بی اپنی محرومیوں کی مالا پرونے لگتیں۔ ان کی زبان کی نوک دار سوئی کبھی تو امان کے احساسات کو زخمی کرتی اور کبھی باسمہ کے کلیجے کے آرپار ہو جاتی۔ ادھر جھروکے میں کھڑی باسمہ۔۔۔۔ کلیجہ مسوس کر رہ جاتی۔ مگر پھر وہ مصلحت کے برش سے اپنی پیشانی کی ساری شکنیں صاف کر لیتی۔ اسے ہر حال میں امان کا سواگت پھولوں اور کلیوں کی صورت میں کرنا ہوتا۔ اسے معلوم تھا وہ جس قدر اپنی محبت کا کنواں گہرا کرتی جائے گی۔ اتنا ہی امان اس کے اندر اترتا چلا جائے گا۔ محبتوں کو نت نئی ادا عطا کرنے سے عشق مضبوط ہوتا ہے۔ شوہر کو عاشق بنانا ہو تو بوٹی بوٹی اس کے قدموں تلے بچھا دیتے ہیں۔

اور اس کی بانہوں میں پہنچ کر امان سوچا کرتا۔ پتا نہیں باسمہ کیا ہے؟ کس مٹی سے بنی ہے؟

کئی بار اس نے باسمہ کو الفاظ میں مجسم کرنا چاہا۔ مگر اس کے پیکر کے سامنے الفاظ کے پیرہن اتر گئے۔ وہ پہلے دن کی طرح آج بھی شاداب تھی۔ بھر پور تھی۔ مسرور تھی۔ کھلی پڑتی تھی۔ مگر مرجھاتی نہ تھی۔ مرجھائی ہوئی عورت سے مرد نفرت کرتا ہے۔ مرد کو گلاب کی طرح تروتازہ عورت بھاتی ہے۔ ٹوٹی ہوئی' مسلی ہوئی شاخ سے گری ہوئی۔۔۔۔ بیمار بیمار عورت مرد

کو اچھی نہیں لگتی۔

پتا نہیں باسمہ کون سا آب حیات پیتی تھی۔ ابھی تک ویسی ہی تھی۔

اسے نہ تو زندگی سے گلہ تھا نہ زندگی کی محرومیوں سے' اس کی آنکھوں میں امان ہی امان تھا۔ اور جیسے اسے امان کا نشہ دو آتشہ کیے دے رہا تھا۔

اس روز ہفتہ تھا اور امان کو دفتر میں دیر ہوگئی تھی۔ وہ باہر نکلا تو سڑک پر اندھیرا اور موٹروں کی بتیاں ایک ساتھ اتر آئی تھیں۔ وہ باسمہ کے بارے میں سوچنے لگا۔

ہفتہ کی شام باسمہ اس کا عجیب انداز میں سواگت کرتی تھی۔ باسمہ کا یہ انداز امان کو بڑا اچھا لگتا تھا۔ اور اس انداز پروه ساری رات فدا ہونے کو تیار رہتا تھا۔ پھر اگلے دن اتوار ہوتی' وہ دیر سے اٹھتے۔ سارا دن اور سارے لمحے اپنے ہوتے۔

وہ بستر پر پڑا پڑا حکم چلایا کرتا اور باسمہ زر خرید لونڈی بنی ادھر ادھر بھاگ کر اس کا حکم بجالاتی۔ اگر اس روز اس کا کوئی قریبی دوست آ جاتا تو وہ اسے بھی وہیں اپنے بیڈ روم میں بلا لیتا۔ پورا چھٹی کا دن اس طرح گزرتا کہ وہ اگلے سارے ہفتے کے لیے تازہ دم ہو جاتا۔ اور یہی چھٹی کا مقصد بھی ہوتا تھا۔ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اسے ہفتہ کو ہی دفتر میں دیر ہو جاتی تھی۔ شاید وہ سارا ہفتہ سستی کرکے اپنا کام ادھورا چھوڑ جاتا تھا۔ جسے ہفتہ کو ہر صورت میں مکمل کر کے جانا ضروری ہوتا تھا۔ آج بھی وہ کام ختم کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا تھا' گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے سگریٹ سلگایا۔۔۔۔

ایک کش لگا کے دھواں چھوڑا ۔ دھواں اس کے چہرے کے آگے پھیل گیا اور یک بیک اسے باسمہ کی خوشبو آنے لگی۔ تھکاوٹ میں اسے باسمہ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اس کی انگلیوں کے پوروں میں شاید طلسماتی عناصر لگے ہوئے تھے کہ دھیرے دھیرے مدہوش کر دیتی تھیں۔

رات۔۔۔۔ کلیاں۔۔۔۔ اور چاندنی

بس یہی باسمہ کی تعریف تھی مختصر مختصر۔

وہ زیر لب مسکرایا۔

باسمہ رات تھی۔

پُراسرار رات۔۔۔۔ پُر فریب نشہ آور۔۔۔۔ اور مستی سے بھری ہوئی۔

آدمی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرے، رات کے جادو سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ بالآخر اپنا آپ اس کے حوالے کر دیتا ہے۔

کلیاں۔۔۔

کلیاں منہ بند ہوں تو بھی خوبصورت لگتی ہیں' کھلتی جائیں تو اور دل کش ہوتی جاتی ہیں۔ ان کلیوں کا کیا کہنا ہے جو ایک درمیانی اسٹیج پر آ کر رک جاتی ہیں۔ تھوڑا سا کھل کر یوں ساکت ہو جاتی ہیں جیسے کسی حسینہ نے ہنستے ہی دوپٹے کا آنچل دانتوں میں دبا لیا ہو۔ باسمہ اسی درمیانی اسٹیچ پر آ کر رک گئی تھی۔ نہ جانے امان کو ہمیشہ یوں کیوں لگتا تھا کہ باسمہ پوری طرح کھلی نہیں ہے۔ نہ وہ کلی ہے۔ نہ پھول ہے۔ درمیان میں کھڑی کھڑی آفت بن گئی ہے۔ اور اس پر سے سات' آٹھ سال گزر گئے تھے۔ کلیوں کی طرح دھیرے دھیرے مہکتی رہتی۔ پھولوں کی طرح خوش رنگ نظر آتی رہتی۔ حالانکہ اب تک اسے پتی پتی ہو کر بکھر جانا چاہیے تھا۔ بلکہ ان پتیوں کو بھی۔۔۔۔ پلنگ کی پائنتی تلے پامال شده راکھ میں مل جانا چاہیے تھا۔ آخرعورت کو خاک ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ چاندنی۔۔۔!

ایک کشادہ مسکراہٹ امان کے لبوں پر پھیل گئی۔ اور کے کاٹیں گی۔ باسمہ کو دیکھ کر بے اختیار چاندنی کا خیال آیا تھا۔ جہاں باسمہ ہوتی وہاں چاند ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتا۔ جانے اس کے ارد گرد اتنا اُجالا کیوں ہوتا؟ اس کی ذات کا اجالا تھا۔ اس کی محبت کی روشنی۔ امان کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس مثال کو کس طرح واضح کرے؟ اور کیوں وہ باسمہ کو چاندنی سے ہم آہنگ کررہا ہے۔ مگر وہ جانتا تھا۔ وہ اس وقت کیا سوچ رہا ہے۔ اندھیرے اجالے میں جو عورت ایک جیسی محسوس ہو' اسے چاندنی تو کہا جا سکتا ہے؟ فرق صرف یہ ہے کہ آپ چاندنی کو چھو کر نہیں دیکھ سکتے' مگر اس عورت کو رگ جاں کے قریب محسوس کر سکتے ہیں۔

" جو بھی ہے۔" امان نے سگریٹ کا آخری ٹکڑا شیشہ کھول کر پھینکا

اور سوچا۔

" زہر ہے۔۔۔۔ الکوحل ہے۔۔۔۔ چرس ہے۔۔۔۔ نشے کی طرح لگ گئی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کوئی شوہر اپنی بیوی کے بارے میں ایسا سوچے اور وہ بھی شادی کے آٹھ سال بعد۔

جبکہ اس نے بچے کی صورت تک نہیں دیکھی۔

گاڑی گھر کے اندر داخل ہو گئی تھی۔ اس نے اسے گیراج میں بند کیا۔ وہ جانتا تھا۔ باسمہ نے اس کے اوپر آنے کا حساب رکھا ہوتا ہے۔ پچھلے موڑ سے جب وہ ہارن دینے لگتا ہے تو وہ اندانوں سے کھیلنے لگتی ہے۔

اب وہاں ہوں گے۔۔۔۔ اب یہاں ہوں گے ۔۔۔۔۔ اب گیٹ کے اندر آئے ہوں گے۔۔۔۔ اب گاڑی کو گیراج میں بند کر کے اوپر آ رہے ہوں گے۔

اور اسی حساب سے وہ ہمیشہ پہلی سیڑھی پر مل جایا کرتی' اماں کو چاند چکور کا یہ ملاپ پسند نہیں تھا' اس لیے وہ کئی بار حائل ہو جاتیں اور جتنی دیر بھی ممکن ہو سکتا امان کو اُوپر جانے سے روکے رکھتیں۔ وہ اگر اٹھ کر چل دیتا۔ تو اماں بی پیچھے پیچھے لپکتی جاتیں۔۔۔۔ پھر وہ پہلی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ کے خود ہی رک جاتا۔ مبادا اماں بی اوپر تک چلی آئیں اور ان ریشمی بانہوں کے حلقے ہار بننے سے پہلے محمل کے اندر چلے جائیں۔

"آج تو بڑی دیر لگا دی بیٹا ؟"

اماں بی ہر روز اسی سوال سے ابتدا کرتی تھیں۔ یہی سوال اگر اس کی بیوی پوچھتی تو وہ اسے پھاڑ کھاتا۔ مگر اماں بی کو ہر روز بڑے سکون سے ایک ہی جیسا جواب مل جاتا۔

" بس اماں ! آج دفتر میں کام کچھ زیادہ تھا۔"

حالا نکہ جب دیر نہیں ہوتی تھی ، تب بھی اماں بی یہی سوال کرتیں۔ چند

لا یعنی سوالوں کے جواب دے کروہ اوپر کو بھاگتا۔۔۔۔ بے تابی اس کے ہر قدم سے ظاہر ہوتی۔

باسمہ جانتی تھی جب ماں، بیوی بن کر نا موزوں سوالات کر رہی ہو تو اس وقت بیوی کو سر تاپا ماں بن جانا چاہیے۔ یوں آغوش وا کرنی چاہیے جیسے کہہ رہی ہو۔

" تم آ گئے ہو۔۔۔۔ تو قرار آ گیا ہے۔۔۔۔ بہار آ گئی ہے۔"

بس اس کے سواگت کی ہر ادا میں یہی فقرہ رچا ہوتا۔ اس لیے تو وہ اوپر جانے کے لیے بے قرار نظر آتا۔ اور بی اماں اس کے اس انداز پر دل فگار رہتیں۔ ان کا خیال تھا بہو نے ان کے لال پر ٹوٹے ٹوٹکے کر دیے ہیں۔

آج بھی جب وہ جلدی جلدی سیڑھیوں کا صحرا پار کر کے اپنی پیاس بجھانا چاہتا تھا' اماں بی درمیان میں آ گئیں۔۔۔۔ بے موقع ہی بولیں-

" کیسا کیسا اداس اداس اور دکھی لگ رہا ہے۔۔۔۔ تیری اجاڑ زندگی نے مجھے روگی بنا دیا ہے۔"

ہے۔ کیوں اہل بی۔ خدانخواستہ میری زندگی کو کیا ہوا سے خوش و خرم رہتا " کیوں اماں بی۔۔۔ میری زندگی کو کیا ہو گیا ہے؟" امان نے ہنس کر کہا۔ میں تو بہت مطمئن اور خوش و خرم رہتا ہوں۔"

"خاک۔۔۔۔ ذرا اپنا چہرا دیکھو۔۔۔۔۔ محرومیاں' بن جھروکوں کے جھانک رہی ہیں۔ ہائے بچے کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے۔ نو سال میں تو ایک مرجھایا ہوا درخت بن گیا ہے۔ بچوں سے تو زندگی میں ہر روز بہار آتی ہے۔

"اماں بی۔۔۔" امان زور سے ہنسنے لگا۔ جیسے ماں کا مذاق اڑا رہا ہو۔

”دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جن کے بچے نہیں ہیں۔ تو کیا وہ زندہ نہیں ہیں؟" " مگر بیٹا تجھ میں اور ان میں بہت فرق ہے۔ تو نے تو اپنے آپ کو خود زندہ درگور کر لیا ہے۔

" کیوں اماں بی۔۔۔ کیسے بھلا؟"

" ایک بانجھ عورت کے ساتھ نباہ کرنا' زندہ درگور ہونا ہے۔ ائے لاش کے پاس کتنے ہی ترو تازہ پھول رکھ دو۔ مرجھا جاتے ہیں' مر جاتے ہیں۔"

" اماں بی۔۔۔۔ اماں بی۔۔۔۔" امان کے لہجے میں تناؤ تھا۔

" یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں۔ اس کے کاموں میں دخل اندازی اسے پسند نہیں۔۔۔۔ اور مجھے تو ذرا بھی ملال نہیں۔"

ہے؟

" ائے ملال کیوں نہیں۔۔۔۔ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے۔"

امان چپ کر کے اوپر چڑھنے لگا۔ اب کچھ کہنا فضول تھا۔ وہ خوشی کا مزید اظہار کر کے ایک اور مصیبت مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ غنیمت کہ اس کی ماں اسے دکھی سمجھ رہی تھی۔

" تو اک ذرا۔۔۔ اشارہ تو کر۔" وہ سیڑھیاں چڑھتے امان کو دیکھ کر بولیں۔

"اچھی سے اچھی نہیں لے آؤں۔ دنیا میں کیا لڑکیوں کا کال پڑا ہے۔ جس پر ہاتھ رکھ دے وہی لے آؤں۔ اس گھر میں ، میں بچوں کی آوازوں کو ترس گئی ہوں۔ یہ گھر نہیں مرگھٹ لگتا ہے۔"

" تو پھر اللہ سے دعا کریں اماں بی۔" امان نے تلخی سے کہا۔

" دعا کر کر کے تو زبان گھس گئی ہے۔"

" اماں بی دعاؤں سے زبان تھکتی نہیں ، مقدس اور پُرتاثیر ہوتی ہے۔ صرف

کوسنوں سے زبان گهستی ہے۔"

"ہائے مرجاؤں میں۔۔۔ بی اماں نے سینے پر دو ہتھٹر اس ڈائن نے میرا لال بدل کر رکھ دیا ہے۔ ماں سے کیسی اکھڑی اکھڑی باتیں کر رہا ہے!"

امان پھر خجالت سے ہنسنے لگا۔

" اماں بی! اب آپ ان فضول باتوں میں اپنا وقت نہ ضائع کیا کریں۔ زیادہ وقت اللہ اللہ کرنے میں گزارا کریں۔ دنیا داری اور اس کے بکھیڑوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔"

" سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتا کہ اب مجھے مرجانا چاہیے۔ ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرنا چاہیے۔ میں اب جی کیوں رہی ہوں۔" اماں نے روایتی انداز میں رونا شروع کردیا۔

اس ڈرامے کا یہی کلائمکس ہونا تھا۔ سیڑھی کے ساتھ سایہ بن کے کھڑی باسمہ فورا " پیچھے ہٹ گئی۔ اب روئے سخن اس کی طرف ہونے کو تھا۔۔۔ جب کوسنوں کا مینہ برستا تھا تو زیادہ تر بوچھاڑ باسمہ کی سمت ہی آتی تھی۔

" اماں بی۔" امان پھر رک گیا۔ نیچے اتر گیا۔ ماں کو چُپ کرایا ۔ پلنگ پر بیٹھا۔ اور بولا۔

" معاف کر دیں۔ اگر منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی تو۔ آپ بھی تو دفتر سے آتے ہی پیچھے پڑ جاتی ہیں۔ کبھی تو کوئی اور بات بھی کر لیا کریں۔"

وہ روتے روتے جیسے عشق کی حالت میں بولیں۔

" فہمیدہ اب بھی تیرے انتظار میں بیٹھی ہے۔ اگرذراسی ہاں کہہ دے تو۔"

" اماں بی۔۔۔۔ آپ کب سمجھیں گی کہ باسمہ کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ میں اس بے آسرا کو کیوں چھوڑ دوں۔ کیا خبر میری قسمت میں بچے ہی نہ ہوں۔" " " کیسی فال بد منہ سے نکالتا ہے۔ بد قسمت تو میں ہوں۔ جوانی میں بیوگی دیکھی۔ اور بڑھاپے میں اپنے بچے کی نامرادی دیکھ رہی ہوں۔"

" اچھا میں چلتا ہوں۔" بالآ خرامان نے کہا۔

اماں بی ان سنی کرتے ہوئے بولیں۔

" مجھے ڈاکٹر نے سب بتا دیا ہے۔ باسمہ کی گود کبھی ہری نہیں ہو سکتی۔ یہ تو پیدائشی بیرا گن ہے۔ میرے بیٹے کو کھا گئی ڈائن۔ "

امان تیز تیز اوپر چڑھنے لگا۔ اماں بی کی آواز اتنی ہی تیزی سے اس کا پیچھا کرنے لگی۔

" میں نے عصمت کو لکھ دیا ہے کہ فہمیدہ کو چند دنوں کے لیے ہمارے ہاں بھیج دے' ہاں۔۔۔۔"

رات کو جب سونے کا وقت آیا تو باسمہ نے اپنی معطر انگلیاں اس کے بالوں میں چلاتے ہوئے کہا۔

" تو فہمیدہ بیگم آ رہی ہیں اس گھر میں؟"

" تم اماں بی کی باتوں کا برا نہ مانا کرو۔"

" میں نو سال سے سن رہی ہوں یہ باتیں کیوں برا مانوں گی۔ میں تو یہ کہہ رہی تھی ، آخر اماں کوئی نہ کوئی محاذ کھول کر ہی دم لیں گی۔"

" پتا نہیں عورتیں اتنی بد گمان کیوں ہوتی ہیں؟"

" مرد جو بے ایمان ہوتے ہیں۔"

" تو الو کی پٹھی ہے۔ تو مجھے اچھی طرح جانتی ہے۔"

" جانتی ہوں۔" باسمہ ہنسنے لگی۔ امان کے پیار کا یہی انداز تھا۔ وہ ہمیشہ اظہار محبت گالی گلوچ اور تشدد سے کیا کرتا تھا۔

" مگر اس کو نہیں جانتی جو آ رہی ہے۔"


" دیکھ باسمہ ! خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ مجھے تیرے ساتھ رہتے ہوئے کبھی احساس محرومی نہیں ہوا۔ بچہ دینا تو خیر خدا کے اختیار میں ہے، مگر جو کچھ کوئی عورت کسی مرد کو دے سکتی ہے' وہ تو مجھے دے رہی ہے اور تیرے سوا کوئی عورت بھی مجھے خوش نہیں رکھ سکتی۔

" خیر اتنی بڑی بات نہ کہو۔ ہاں، مجھے اگر کسی روز اپنی کسی بات سے یہ کہہ دو گے کہ میں تم سے اکتا گیا ہوں' چلی جاؤ۔۔۔ تو میں چلی جاؤں گی۔"

"سچ سچ' کھاؤ میرے سر کی قسم ۔" امان نے شرارت سے آنکھیں کھول کر پوچھا۔

" لواپنے سر کی قسم کھاتی ہوں ۔ " باسمہ نے اس کے بالوں میں سے ہاتھ نکال کر اپنے سر پر رکھا۔

" یار! تو بڑی پیاری چیز ہے۔ " امان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر رکھ لیا۔ "اگر دنیا میں ہر شخص کو ایسی بیوی مل جائے تو کیا ہو۔"

" یہ دنیا مردوں کی جنت بن جائے۔ "

اس پر امان بے تحاشا ہنسنے لگا۔ پھر اس کی سمت کروٹ بدل کر بولا۔

" مجھے معلوم ہے تیری جنت میری بانہوں میں ہے۔"

" اور میں جانتی ہوں میری بانہیں بڑی کمزور ہیں۔"

" اری تو کیا جانے تیری بانہیں کیسی ہیں؟ بتا دوں تو بانس پر چڑھ جائے گی۔ وہ بانہیں کبھی کمزور نہیں ہوتیں جن کے حلقے میں ایک اچھا خاصا مرد بچہ بن جاتا ہے۔ اور سارا تحفظ اسے ان ہی بانہوں کے آس پاس ملتا ہے۔"

" امان! " باسمہ نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "محبت کرنے والی عورت تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کو کوئی دوسرا چھونے والا کبھی پیدا بھی ہو سکتا ہے۔ پھر مرد کس طرح بار بار محبت کر لیتا ہے۔"

" بے وقوف! مرد بھی بار بار محبت نہیں کر سکتا۔ صرف اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔"

" مگر دیکھو نا۔ مرد کتنی آسانی سے دوسری شادی کے بارے میں سوچ لیتا ہے۔"

"کیا عورت نہیں سوچتی؟"

" نہیں ۔ کم از کم میرے جیسی عورت تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ وہ اپنا آپ کسی دوسرے مرد کے حوالے کردے گی۔ مجھے یوں لگتا ہے، اگر تمہارے

علاوہ کبھی کسی نے مجھے چھو لیا' تو میں مرجاؤں گی۔

" واہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ مجھے پتا چل گیا' تمہاری موت کس طرح واقع ہو سکتی ہے۔

" جب کبھی مارنا مقصود ہوگا۔۔۔۔" وہ شرارت سے کہہ گیا۔

" ہاں! صرف بے وفائی کرنا، کج ادائی کرنا۔ میں مر جاؤں گی۔"

" بکواس نہ کر۔۔۔ سستے ناول پڑھ کے فلمی ڈائیلاگ بول رہی ہے ۔۔۔۔ یہ کیا مرنا مرنا لگا رکھا ہے۔ نو سال ہوگئے میرے ساتھ رہتے ہوئے اور ابھی تک تجھے

میرا پتا ہی نہ چلا؟"

پتا نہیں ان نو سالوں نے مجھے وہ تحفظ کیوں نہ دیا ۔ وہ دل میں سوچنے لگی، جس سے میرے دل کی فصیل مضبوط ہو جاتی۔۔۔۔ دل تو ایک ایسا دیا ہے جو سدا تیز وتند آندھیوں کے دہانوں پر پھڑاپھڑتا رہتا ہے۔

" کیا سوچ رہی ہو ؟" امان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

" کہہ دوں؟"

"پہلے یوں کرو۔ ایک پیالی گرم گرم کافی بنا کر لاؤ۔ پھر ساری رات باتیں کریں گے۔"

"ٹھیک ہے۔" وہ اٹھ کے بھاگی۔

امان کی عادت تھی وہ آدھی رات کو اسے ضرورجگاتا تھا۔ پانی بھی پینا ہو تو کہنیاں مار مار کر اسے جگا دیتا۔ حالانکہ بستر کے پاس پانی کا فلاسک پڑا ہوتا۔ بتی بجھانی ہو۔۔۔۔ کوئی کتاب ڈھونڈنا ہو۔۔۔۔ اور تو اور۔۔۔ آدھی آدھی رات کو وہ عجیب و غریب فرمائشیں کرنے لگتا۔

" اس وقت میرا جی پراٹھا اور اچار کھانے کو چاہتا ہے۔"

" خیر تو ہے۔ " باسمہ مصنوعی حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر پوچھتی ۔ " تمہاری طبیعت کے رنگ تو حاملہ عورتوں جیسے ہوتے جا رہے ہیں۔"

"دیکھو بحث نہ کرو۔ ورنہ چلا چلا کربی اماں کو اٹھا دوں گا۔"

" نہ۔۔۔ نہ۔۔۔۔" اماں بی کے اٹھانے سے باسمہ بہت ڈرتی تھی۔ اماں بی تک آواز پہنچانا ایسے تھا جسے جنات کی پوری فوج کو اٹھا دیا ہو۔

رات بھر وہ اسے ستاتا۔۔۔ رات بھر فرمائشیں کرتا' رات بھر وہ ایک ٹانگ پر ناچتی' لاڈلے بچے کی طرح انمول انوکھی فرمائشیں کرتا رہتا۔ اور مامتا کی ماری ماں کی طرح' وہ ہنس ہنس کر ہر فرمائش پوری کرتی رہتی ۔ صبح اسے دفتر بھیج کر وہ جی بھر کے سوتی۔ دس گیارہ بجے اُٹھ کر ہانڈی روٹی کی فکر کرتی۔ تب ہی تو اماں بی ہر آئے گئے سے بلند آواز میں کہتی رہتیں۔

" نحوست کی ماری ہے میری بہو۔ دن چڑھے تلک سوتی ہے۔ کبھی اللہ رسول کا نام تو لیا نہیں۔۔۔ ایسوں کو تو اللہ نامراد ہی رکھتا ہے۔"

باسمہ یہ سب سن کر دل پر جبر کر لیتی ۔ اللہ نے اس کو نا مراد ہی پیدا کیا تھا۔ ہر ڈاکٹر نے مختلف انداز میں اس سے یہی کہا تھا۔

" دیکھو بی بی! اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے۔ وہ قدرت والا معجزے تک دکھا دیتا ہے۔ مگر آپ۔۔۔آپ۔۔۔۔"

اور ایک ہی بات کو بار بار سننے کا اس میں حوصلہ نہیں تھا۔ اس لیے اب دوا دارو سے بے نیاز ہو کر وہ معجزے کی منتظر رہتی تھی۔

اسی ایک کمزور سی امید پر وہ زندگی کی جوت جگائے بیٹھی تھی۔۔۔ پتا نہیں وہ ان دونوں میں سے کس پر زیادہ بھروسہ کرتی تھی ؟ امید موہوم تھی۔ اور شوہر مرد تھا۔ دونوں اعتبار کے قابل نہیں تھے۔ اسے اکثر یوں محسوس ہوتا وہ ایک کاغذ کی کشتی ہے۔ جو تیز و تند دھارے کے دہانے پر رکھ دی گئی ہے۔ اس کو بس ایک ہی راستہ نجات کا نظر آتا تھا کہ وہ امان کو فقیر کر لے'اسیر کر لے!

اسی جتن میں وہ بوند بوند لہو جمع کرکے محبت کا چراغ جلائے بیٹھی تھی۔

اس روز وہ بہت عرصے بعد ابا کی خبر لینے گئی تھی اور ان کی دگرگوں حالت کو دیکھ کر رات کو وہیں رک گئی تھی۔ ورنہ امان تو کبھی رات کو وہاں رہنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ چاہے رات کے بارہ بجے لے کر آئے۔ ساتھ ہی لے آتا تھا۔ وہ کہتا تھا اپنے بیڈ روم میں وہ باسمہ کے بغیر ایک رات بھی نہیں رہ سکتا۔

آج تو وہ خود بھی نہ رہنا چاہتی تھی کیونکہ پچھلے ایک ہفتے سے گھر میں فہمیدہ آئی ہوئی تھی۔ اور اماں بی تسبیح ہاتھ میں لیے اپنا پرانا منتر پھونکنے کے منصوبے باندھا کرتی تھیں۔ لیکن آج ہی ابا پر فالج کا دوسرا حملہ ہوا تھا۔ ان کا دم آنکھوں میں آ کر اٹک گیا تھا اور گھر میں نوکر کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اس لیے امان خود ہی اسے چھوڑ کر آ گیا تھا۔ واپس آیا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ باسمہ نے بہت سمجھا کر بھیجا تھا کہ فریج میں کھانا رکھا ہے۔ اور روٹیاں پکا کے اس نے اوون میں رکھ دی تھیں۔ ضرور کھا لینا۔ لیکن اس کا کھانے کو دل نہیں چاہا۔ کبھی یہ کام اپنے ہاتھ سے کیا جو نہیں تھا۔ یونہی لیٹ کر ورق گردانی کرنے لگا۔ ساتھ والے تکیے پر ہاتھ رکھا تو باسمہ کے بالوں کی مہک اڑی۔ تب اسے اس کے گالوں کی تپش یاد آ گئی۔ اس نے چونک کر دیکھا تو تکیے پر باسمہ کا ایک بال بھی چمٹا ہوا تھا۔ اس نے اپنی انگلیوں میں بال کو اٹھا کر دیکھا۔ کیا ایک بال کے سہارے رات گزر سکتی ہے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کمرے میں آہٹ ہوئی ، نظر اٹھا کر دیکھا تو فہمیدہ کھانے کی ٹرے اٹھائے چلی آ رہی تھی۔